مسرور انور کا اصل نام انور علی تھا اور وہ 6 جنوری 1944ءکو شملہ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ میٹرک کے بعد انہوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی مگر پھر شاعری کا شوق انہیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں انہوں نے بطور اسٹاف آرٹسٹ خدمات انجام دینا شروع کیں۔
یہ بھی دیکھئے:
ریڈیو پاکستان میں ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ہوئی جنہوں نے انہیں فلم بنجارن کے نغمے لکھنے کی پیشکش کی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد مسرور انور نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے اور پھر وحید مراد، پرویز ملک اور سہیل رعنا کی ٹیم کا حصہ بن گئے جن کے ساتھ انہیں ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا کے نغمات لکھنے کا موقع ملا، بعدازاں وہ لاہور منتقل ہوگئے۔
یہ بھی دیکھئے:
گاندھی اور نہرو اب بھارت کے ہیرو نہیں رہے، ان کی جگہ گوڈسے لے چکا
عمران خان کی دولت میں ایک ہزار فیصد اضافہ کیسے ہوا؟
پانچ جنوری: آج وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ ہے
لاہور میں انہوں نے نثار بزمی کی موسیقی میں بے شمار فلموں کے لئے لازوال گیت تخلیق کئے۔ ان کی ان فلموں میں لاکھوں میں ایک، ناگ منی، پہچان، صاعقہ، عندلیب، آگ، انجمن، شمع اور پروانہ، انیلا، انمول اور آسرا کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے اور چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ ان کی ایسی ہی ایک فلم سوغات پاکستان کی شاہکار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔
مسرور انور کی ایک اور پہچان ان کے لکھے ہوئے قومی نغمے ہیں۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے، اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان ان کے ایسے ہی یادگار قومی نغمات میں شامل ہیں۔انھوں نے7 نگار ایوارڈز حاصل کئے جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
مسرور انوریکم اپریل 1996ءکو لاہور میں وفات پاگئے اورکریم پارک، علامہ اقبال ٹاﺅن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔