احسان دانش 1914ءمیں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ والدین کی غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے تاہم اپنے طور پر اردو، فارسی اور عربی زبان کا مطالعہ کیا، تلاش معاش میں لاہور آگئے اور پھر تمام عمر یہیں گزاری۔
یہ بھی دیکھئے:
احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے ان کے شعری مجموعوں میں حدیث ادب، درد زندگی، تفسیر فطرت، آتش خاموش، نوائے کارگر، شیرازہ، چراغاں اور گورستان کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے لسانیات میں لغات الاصلاح، دستور اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات یادگار چھوڑیں، حضرت احسان دانش کی خودنوشت سوانح عمری جہان دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
زندہ لمحات، ایک فوجی کی شگفتہ کتاب
ریکو ڈیک: منصوبے کی عجلت میں منظوری بلوچستان کے وسائل پر ڈاکا
یوم ماں: مصری تہذیب میں قدیم وجدید پس منظر
شاہ محمود قریشی کی توقع اور لوٹا کریسی
اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔حکومت پاکستان نے آپ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات بھی عطا کیے تھے ۔
احسان دانش 22 مارچ 1982ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
احسان دانش کا نمونہ کلام
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے
عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے
ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے
زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے