26 جنوری 1952ء کو خواجہ ناظم الدین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انہوں نے اعلان کیا کہ صرف اور صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔
بنگال نژاد‘ خواجہ ناظم الدین کے اس اعلان سے مشرقی پاکستان کے طلبہ میں بڑی بے چینی پھیلی‘ وہ قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل یہ مطالبہ کررہے تھے کہ اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔
ان طلبہ نے خواجہ ناظم الدین کے اس اعلان کے خلاف صوبہ بھر کے عوام سے اپیل کی کہ وہ 21 فروری 1952ء کو عام ہڑتال کریں چنانچہ اس دن صوبہ بھر میں عام ہڑتال رہی مگر ایک ناخوشگوار واقعہ یہ ہوا کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک جلوس کا پولیس سے تصادم ہوگیا اور آٹھ طلبہ شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
چند یوم بعد مشرقی بنگال کی اسمبلی نے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان بنانے کی قرارداد منظور کرلی۔ یوں وہ مسئلہ جسے پہلے چند طلبہ یا ’’غدار عناصر‘‘ کا مسئلہ سمجھا جارہا تھا مشرقی پاکستان کے تمام عوام کا متفقہ مطالبہ بن گیا۔ مگر مغربی پاکستان کی رائے عامہ اسے بدستور غداری سے ہی تعبیر کرتی رہی اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کو قومی یکجہتی کے خلاف سازش اور اردو زبان کا قتل قرار دیا جاتا رہا۔
اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکا ہے کہ 7 مارچ 1952ء کو کراچی میں جناب حسین امام کی صدارت میں کراچی کے ممتازشہریوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس نے نہ صرف یہ کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کو پاکستانی سالمیت پر ضرب کاری قرار دیا بلکہ اس مطالبے کی حمایت میں پیش پیش مغربی پاکستان کے دوسرکردہ صحافیوں جناب الطاف حسین (مدیر ڈان) اور جناب زیڈ اے سلہری (مدیر ایوننگ ٹائمز) کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی دن روزنامہ جنگ کراچی میں جناب رئیس امروہوی کی ایک نظم بھی شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’نوحۂ اردو‘‘ اور اس کا ٹیپ کا مصرعہ تھا ’’اردوکا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ اس نظم میں تصویر کا محض دوسرا رخ ہی پیش کیا گیا تھا اور عوام کو یہی باور کرایا گیا تھا کہ بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ قومی یکجہتی کے خلاف چند مٹھی بھر افراد کی سازش ہے اور اردو زبان کے قتل کے مترادف ہے‘ حالانکہ صورتحال اس کے قطعی برعکس تھی۔ اگر اس وقت حالات سے مدبرانہ طورپر نمٹ لیا جاتا تو شاید آگے چل کر وہ حالات پیدا نہ ہوتے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنے۔
ادھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے 21 فروری کو نہ صرف یوم شہدا کے طور پر منانا شروع کیا بلکہ ان شہدا کی یاد میں اس مقام پر ایک شہید مینار بھی تعمیر کیا جہاں یہ طلبہ شہید ہوئے تھے۔ نومبر 1999ء میں یونیسکو نے 21 فروری کو دنیا بھر میں یوم مادری زبان قرار دیا اب ہر سال21 فروری کا دن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا تمام ممالک میں ’’یوم مادری زبان‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔