آج اردو کے معروف شاعر رضی اختر شوق کا یومِ وفات ہے ۔ رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا اور وہ 23 اپریل 1933ءکو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، جہاں انہوں نے اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے بے شمار خوب صورت ڈرامے پیش کئے۔
ایمرجنسی اور صدارتی نظام کی خبروں پر یہ دیکھئے:
رضی اختر شوق جدید لب و لہجے کے شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اورجست کے نام شامل ہیں۔ مرے موسم مرے خواب پر انہیں اکادمی ادبیات پاکستان نے ہجرہ ایواڈ بھی عطا کیا تھا۔
رضی اختر شوق نے 22 جنوری 1999ءکو کراچی میں وفات پائی ۔کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
فارن فنڈنگ کیس: عمران خان صفحہ تراسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
رضی اختر شوق کی ایک غزل
یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے
پھر بھی جتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے
میرے ہر لفظ کی وحشت میں ہے اک عمر کا عشق
یہ کوئی کھیل تماشا نہیں لکھا میں نے
لکھنے والا میں عجب ہوں کہ اگر کوئی خیال
اپنی حیرت سے نہ نکلا نہیں لکھا میں نے
میری نظروں سے جو اک بار نہ پہنچا تجھ تک
پھر وہ مکتوب دوبارہ نہیں لکھا میں نے
میری سچائی ہر اک لفظ سے لو دیتی ہے
جیسے سب لکھتے ہیں ویسا نہیں لکھا میں نے