جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغرتھا اور وہ 14 دسمبر 1931ءکو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو کے نامور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔
جون ایلیا خود بھی اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح ، جوہر صقلی اور فرنود کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان’ گویا اور راموز کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
نوجوانی میں وہ ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تقسیم ہند کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں انھوں تقسیم کو اسے ایک حقیقت واقعہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی۔ انھوں نے کراچی کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی جھلکیاں بہت نمایاں ہیں۔
وہ ایک حساس شاعر تھے، انہیں اپنے کلام کی اشاعت پر بڑی مشکل سے آمادہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ان کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد۔ تیسرا مجموعہ گمان 2004ء میں شائع ہوا۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ءمیں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
.8 نومبر 2002ءکو جون ایلیا کراچی میں وفات پاگئے ۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انھی کا یہ شعر تحریر ہے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں