آج اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری کی تیئیسویں برسی ہے ۔ ظہیر کاشمیری کا اصل نام غلام دستگیر تھا۔ وہ 21 اگست 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ظہیر کاشمیری نے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا شمار ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ آغاز میں ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان کا شمار اس تحریک کے سرکردہ قائدین میں ہوتا تھا۔ ظہیر کاشمیری مزدوروں کے عالمی حقوق کے لیے بہت سی ٹریڈ یونین تحریکوں سے بھی وابستہ رہے جس کے سبب انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
یہ بھی پڑھئے:
طارق مرزا کا سفرنامہ ملکوں ملکوں نکلا چاند شائع ہوگیا
ظہیر کاشمیری قیام پاکستان سے قبل لاہور آ گئے جہاں انھوں نے فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ انھوں نےکچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔
ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس کے نام شامل ہیں۔
انھوں نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ ادبی رسالے سویرا کے ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ احسان، نوائے وقت اور پکار میں کالم لکھے۔ بعد ازاں روزنامہ مساوات اور روزنامہ حالات سے بھی وابستہ رہے۔
حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ظہیر کاشمیری 12 دسمبر 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے
نمونہ کلام:
یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اُجالا ہے
ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو!
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے
ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے
سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی
اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے
ظہیر ہم کو یہ عہدِ بہار، راس نہیں
ہر ایک پھول کے سینے پہ ایک چھالا ہے