گلو کار سلیم رضا 4 مارچ 1932ءکو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ لاہور میں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی آواز کا جادو جگانا شروع کیا۔ فلم نوکر سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا اور پھر ان کی آواز ہر فلم کا حصہ بنتی چلی گئی۔
یہ بھی پڑھئے:
ففتھ جنریشن وار اور چور و چوکیدار
چوبیس نومبر: آج خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ ولادت ہے
گلو کار سلیم رضا کے مشہور فلمی نغمات میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں (سات لاکھ)، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ(ہم سفر)، جاں بہاراں رشک چمن (عذرا)، کہیں دو دل جو مل جاتے (سہیلی)، حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)، یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)، تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم (جب سے دیکھا ہے تمہیں)، میرے دل کی انجمن میں (قیدی) اور مشہور نعت شاہ مدینہ (نوراسلام) سرفہرست ہیں۔
سن ساٹھ کی دہائی میں احمد رشدی، مسعود رانا اور مہدی حسن کی فلمی دنیا میں آ گئے۔ ان کی آمد کے بعد فلم سازوں نے سلیم رضا سے بے اعتنائی برتنا شروع کردی۔ جس کے بعد وہ دیار غیر میں جابسے۔ کینیڈا میں ان کا جانا ایک اعتبار سے بہتر ثابت ہوا۔ انھوں نے موسیقی اور گلو کاری کی دنیا میں ہی اپنے لیے ایک نئے میدان کا انتخاب کر لیا۔ انھوں نے موسیقی کے شائقین کے لیے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے سے بڑی تعداد میں نوجوان گلوکاروں نے تربیت حاصل کی۔ اس طرح موسیقی میں زوال کے بعد بھی انھوں نے ہارنہ مانی۔ یوں مقبول عام فلمی گلوکاری کے بعد انھوں نے نئی نسل کو بھی اپنے تجربات سے آگاہ کر کے اس شعبے کا مالا مال کیا۔ وہ 25 نومبر 1983ء کو وہ کینیڈامیں وفات پاگئے