ADVERTISEMENT
کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ میں اتوار کو صدر، کراچی میں لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار میں گھوم رہا تھا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک کتب فروش نے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ جعفری صاحب ذرا یہ فائل دیکھیے گا، شاید اس میں آپ کے کام کی کوئی چیز ہو، میں نے فائل دیکھی تو دم بخود رہ گیا۔ اس میں نصراللہ خان کے کسی گم نام مداح نے ان کی آپ بیتی ’’اِک شخص مجھی سا تھا‘‘ کی وہ 36 اقساط ترتیب سے محفوظ کی تھیں جو 26 ستمبر 1986ء سے19 جون 1987ء کے دوران روزنامہ حریت کراچی کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہوئی تھیں۔
یہ بات بتانا بے محل ہوگی کہ میں نے وہ فائل فوراً ہی حاصل کرلی۔ گھر آکر ان اقساط کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس فائل میں ’’اِک شخص مجھی سا تھا‘‘ کی ایک دو کے علاوہ تمام اقساط موجود تو ہیں مگر ان میں سے بھی کئی اقساط کٹی پھٹی ہیں۔ میں نے آہستہ آہستہ ان اقساط کو کمپوز کروانا شروع کیااور جہاں جہاں سے اقساط کٹی پھٹی تھیں ان کے نوٹس لیتا گیا۔ اب کراچی کے مختلف کتب خانوں میں حریت کی فائلوں کی تلاش شروع کی کہ اس کتاب کو مکمل کرسکوں مگر کسی کتب خانے سے کوئی رہنمائی نہیں ملی۔
اسی زمانے میں علم ہوا کہ ممتاز اسکالر محمد راشد شیخ بھی اس آپ بیتی کی اشاعت کے سلسلے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ نصر اللہ خان نے یہ آپ بیتی ہفت روزہ تکبیر کے مدیر محمد صلاح الدین کو اشاعت کے لیے دی تھیں مگر 1990ء کی دہائی کے اوائل میں ہفت روزہ تکبیر کے شعبہ مطبوعات کے کمپیوٹر میں کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے اس کتاب کی تمام کمپوزنگ ضائع ہوگئی اور اصل مسودہ بھی غائب ہوگیا۔ انھوں نے بتایا کہ مشفق خواجہ صاحب بھی اس آپ بیتی کے گم ہونے پر بڑے فکر مند تھے۔ وہ بھی خواہش مند تھے کہ یہ آپ بیتی کسی نہ کسی طور شائع ہوسکے۔ گویا وہ خزانہ جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا، بغیر کسی تگ و دو کے، ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوگیا تھا۔’
یہ بھی پڑھئے:
محمد راشد شیخ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ہفت روزہ تکبیر سے وابستہ صحافیوں سے رابطہ کروں، ہوسکتا ہے کہ اس آپ بیتی کے اوراق کسی کے ذاتی ریکارڈ میں موجود ہوں۔ تکبیر کے دوستوں کی مدد سے میری رسائی جناب محمود عزیز تک ہوئی، انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس اس آپ بیتی کے چند ابتدائی اوراق موجود ہیں۔ یہ اوراق دیکھے تو معلوم ہوا کہ نصر اللہ خان، کیا قافلہ جاتا ہے، کی طرح اپنی اس آپ بیتی کا انتساب بھی جناب مشفق خواجہ کے نام کرنا چاہتے تھے۔
’’اِک شخص مجھی سا تھا‘‘ کی غیر موجود اقساط اور کٹے پھٹے اوراق کا مسئلہ اپنی جگہ موجود تھا. ایسے میں ایک صحافی دوست کام آئے اور ان کی وساطت سے میری رسائی روزنامہ ڈان کے دفتر میں موجود روزنامہ حریت کی فائلوں تک ہوئی۔جن کے عکس سے یہ آپ بیتی مکمل ہوگئی۔
آپ بیتی کی کمپوزنگ مکمل ہوئی تو میں نے برادرم راشد اشرف کو زحمت دی کہ وہ اس آپ بیتی کا تعارف تحریر فرمائیں۔ انھوں نے نہ صرف یہ تعارف تحریر کیا بلکہ بڑی دلچسپی کے ساتھ آپ بیتی کے حواشی اور تعلیقات بھی تحریر کیے۔ان کی اس زحمت کے بعدباقی ماندہ حواشی اور تعلیقات میں نے تحریر کیے۔نصر اللہ خان صاحب کے فرزند نجم الحسنین صاحب نے کتاب کا خوب صورت پیش لفظ تحریر کیا اور یوں اس کتاب کی بازیافت کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔
“اِک شخص مجھی سا تھا” 1980ء کی دہائی میں تحریر کی گئی تھی۔ 2002ء میں جناب نصر اللہ خان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے 18 سال بعدان کی یہ گم شدہ آپ بیتی منظر عام پر آرہی ہے، اگر نصراللہ خان صاحب نے اس آپ بیتی کا انتساب جناب مشفق خواجہ کے نام نہ کیا ہوتا تو میں اسے نصراللہ خان کے اس گم نام مداح سے منسوب کرتا جس نے اس آپ بیتی کے بیشتراوراق محفوظ کیے۔
“اِک شخص مجھی سا تھا” کی اشاعت کے سلسلے میں برادرم ڈاکٹر پرویز حیدر الطاف نے حسب سابق بے انتہا دل چسپی لی اور میری فرمائش پرنصر اللہ خان کا سوانحی خاکہ قلم بند کیا۔
11 نومبر 2020ء کو جناب نصراللہ خان کی سوویں سالگرہ ہے، اس موقع پران کی اس آپ بیتی کی اشاعت سے بہترکوئی تحفہ ممکن نہیں۔گر قبول افتد زہے عزوشرف۔
کیا میرا یہ سمجھنا بے جا نہ ہوگا کہ اس گم شدہ سرگزشت کا مسودہ خود خان صاحب نے عالم بالا سے مجھے بھجوایا تھا اور اس وقت مجھے مسکراکر دیکھ رہے ہوں گے؟؟؟
عمر بھر وہ ہر صبح اپنے قارئین کو “آداب عرض” کہتے رہے۔ آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان سے کہوں ” آداب عرض”.
اس معجزۂ وقت کو کیا نام دیا جائے؟
____________________________
قیمت: = /800 روپے
ملنے کا پتا: فضلی سنز، اردو بازار’ کراچی۔
فون: 00922132633887
0336 2633887