جناب عقیل عباس جعفری کی شخصیت کے کئی پرت ہیں، وہ محقق ہیں، مؤرخ ہیں اور اس کے علاوہ شاعر بھی ہیں۔ اس میدان میں بھی وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ غزل ان کا خاص میدان ہے ، ان کی غزلوں کے کئی شعر ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ملک میں کوئی مشاعرہ ان کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ ان کی پسندیدہ غزل کے چند اشعار ؎
یہ ستارہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی
زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی
ڈھونڈتے ہیں اسی نشے کو سبھی بادہ گسار
ایک نشہ جو رگ تاک سے باہر ہے ابھی
ایک ہی لمحے میں تسخیر کرے گی اسے آنکھ
پر وہ لمحہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا منقبت اہل بیت اطہار، ان دونوں اصناف میں ان کا قلم خوب رواں ہے۔ محبت، عقیدت اور جذب کی کیفیات پڑھنے والے کو سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ توقع کی جاتی چاہئے کہ وہ جلد ہی اپنے نعتوں، منقبتوں، سلام اور مرثیوں پر مشتمل کام کو بھی کتابی شکل میں شائع کر کے اپنے قدر دانوں کے ذوق مطالعہ کی آبیاری کریں۔ ان کی ایک نعت دیکھئےَ
٭٭٭٭
رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ
ذکر نبیﷺ جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ
لیتے ہی اُنﷺ کا نام مقدر سنور گیا
پہنچے ہیں پھر کہاں سے کہاں ہم فقیر لوگ
ہر سانس میں ہے لفظِ مدینہ بسا ہوا
رکھتے ہیں یہ اثاثہ جاں ہم فقیر لوگ
گوشہ نشینی و دمِ غربت کے باوجود
دستِ عطا سے کب ہیں نہاں ہم فقیر لوگ
آقاﷺ کی رحمتوں سے برابر ہیں فیضیاب
جبرئیل آسماں پہ، یہاں ہم فقیر لوگ
انﷺ کا کرم ہے اپنی گلی میں بلا لیا
ورنہ کہاں مدینہ ، کہاں ہم فقیر لوگ
مانا کہ ان کے در پہ پہنچ بھی گئے عقیل
کیسے کریں گے حال بیاں ہم فقیر لوگ