حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنا تک اور دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے ، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔۔۔۔۔ روزہ دار اپنی شہوت نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے ۔۔۔۔روزے دار کے لیے دو فرحتیں ہیں ایک فرحت افطار کے وقت کی اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی ۔۔۔۔۔ اور روزہ دار کے منہ کی بساند اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ۔۔۔۔۔ اور روزے ڈھال ہیں ۔ پس جب کوئی شخص تو میں سے روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ نہ اس میں بد کلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے ۔اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو اس سے کہہ دے کہ بھائی میں روزے سے ہوں ۔ ( متفق علیہ )
یہ جو فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کی جزا دوں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری نیکیاں اللہ کے لئے نہیں ہیں ۔ اللہ ان کی جزا نہیں دے گا ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق روزہ اس کے لیے خاص ہے ۔ اور وہ اس کی جتنی چاہے گا جزا دے گا جب یہ فرمایا کہ دوسری نیکیاں سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہیں اس کے مقابلے میں استثنا کے ساتھ یہ بتایا کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی جسقدر چاھے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا ۔
روزے کی غیر معمولی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ دوسری نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے جیسے نماز ہے نماز پڑھنے والا نماز میں اٹھتا بیٹھتا ہے رکوع اور سجدہ کرتا ہے اس طرح یہ ایک نظر آنے والی بات ہے اسی طرح حج اور زکوۃ کا معاملہ ہے لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے جو فقط آدمی اوراس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دار اصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک منفی شکل ہے مثلا نہ کھانا اور پینا اس طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے اس طرح ان سے باز رہنا اس منفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے اس کا رب کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ منفی فعل اس نےکیا ہے یا نہیں ۔روزے میں ریاکاری کا کوئی امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔
اس لیے فرمایا کہ روزہ خاص میرے لئے ہی ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی روزے کی بے حد و حساب جزا دے گا جتنے گہرے جذبےاور اخلاص کے ساتھ آپ روزہ رکھیں گے اللہ تعالی کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے روزے سے جتنی کچھ روحانی ودینی فوائد حاصل کریں گے اور بعد کے دنوں میں ان فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالی کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی ۔
اور یہ جو فرمایا گیا کہ روزہ رکھنے والے کے لئے دو فرحتیں ہیں ۔ایک فرحت افطار کے وقت کی دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو فرد ایک روزہ دار کو افطار کے وقت ملتی ہے وہ افطار پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے زیادہ فرحت اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔ اور وہاں اس کو معلوم ہو گا کہ جو عمل دنیا میں کرکے آیا ہے اس کی یہ اتنی بڑی جزا ہے اللہ تعالی نے اپنے کس قدر قرب سے نوازا ہے اور اس کی کتنی خوشنودیی اسے حاصل ہوئی ہے ۔
روزے کی وجہ سے ایک گھنٹوں تک دانتوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے منہ سے جو خاص قسم کی بدبو پیدا ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے روزہ داروں سے نفرت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالی کو مشک سے زیادہ پسند ہے ۔
برائیوں کے مقابلے میں روزے کو ڈھال قرار دیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دشمن کے مقابلے میں جس طرح ڈھال پر دشمن کا وار روکا جا سکتا ہے اسی طرح روزہ دار روزہ رکھ کر اپنے آپ کو برائیوں سے بچا سکتا ہے دال کو مضبوط کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود کلامی نہ کرے خود کسی کو برا نہ کہے اور خود کسی سے نہ لڑے یہ ڈھال کی پہلی مدد ہے۔ دوسری مدد یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص لڑنےکو آیا تو اسے کہے کہ بابا میں روزے سے ہوں اور تم گالی دو گے تو میں نہیں دوں گا اس کے بعد کے ڈھال اس قدر مضبوط ہوجاتی ہے کہ آدمی کو ہر برائی سے بچا سکتی ہے ۔