حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اذان کی آواز سنے اور اس وقت برتن بھی اس کے ہاتھ میں ہو تو اس برتن کو اپنے ہاتھ سے نہ رکھے جب تک اپنی حاجت اس سے پوری نہ کر لے۔ ( رواہ ابو داؤد )
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سحری کے وقت نقارے اور سائرن نہیں۔ بجتے تھے بلکہ لوگوں کو اذان کے ذریعے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے کبھی ایسا ہوتا تھا کہ گرمی کا زمانہ ہے اور لوگ باہر کھلی جگہ میں سو رہے ہیں تو اس حالت میں ہر شخص خود ھی دیکھ سکتا تھا کہ روزہ شروع ہونے کا وقت ہو گیا ہے یا نہیں … کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بارش اور سردی کا زمانہ ہے اور لوگ گھروں کے اندر سحری کر رہے ہیں ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں تھا کہ سب لوگ باہر نکل کر دیکھیں گے سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے یا نہیں اس لیے فرمایا کہ جب سحری کے وقت اذان کی آواز تمہارے کام میں پڑے اور صورت یہ ہو کہ ایک آدمی پانی پی رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں برتن ہے تو ضروری نہیں کہ اللہ اکبر کی آواز سنتے ہی وہ اسے رکھ دے بلکہ اسے اجازت ہے کہ وہ اس میں سے اپنی ضرورت پوری کرلے۔
قرآن مجید اور احادیث میں سحری کے خاتمے کے وقت کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اور عام مشاہدہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سیکنڈوں کے کے حساب سے نہیں ہیں کہ ایک سیکنڈ ادھر تو سحری کا وقت ہوا اور ایک ادھر سیکنڈ جاتے ھی سحری کا وقت ختم ہو جائے ۔ختم سحر اور طلوع فجر دراصل ایک بڑا مظہر فطرت ہے جسے آدمی مشرق کی طرف دیکھتا ہے ۔ آغاز میں ایک ہلکی سی دھاری نمودار ہوتی ہے جو یہ بتاتی ھے کہ اب گویا فجر کا آغاز ہو رہا ہے رات ختم ہو رہی ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ طلوع فجر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو سیکنڈوں کے حساب سے ہو بلکہ وداع شب اور طلوع فجر کی آواز سنتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے ایک سیکنڈ پہلے تو سحری کا وقت تھا لیکن مؤذن کی زبان سے اللہ کا لفظ نکلتے ہیں وقت ختم ہوگیا ۔اس طرح کی موشگافیوں کرنا درست نہیں سیدھی بات یہ ہے کہ اگر اتفاق سے کبھی ایسا ہو کہ آپ سوتے رہ گئے اور آنکھ کھلنے پر آپ نے ابھی تک چند لقمے ھی لئیے تھے کہ سائرن بج گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ فوری ہاتھ روک لیں ۔ یا برتن اپنے منہ سے ہٹا لیں ۔ بلکہ جلدی جلدی تھوڑا بہت جو کچھ بھی آپ کھا سکتے ھو کھالیں۔ ۔اس حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ جب تم اذان کی آواز سنو یا سحری کے خاتمےکا کوئی دوسرا اعلان ہو رہا ہوں اس وقت تمہارے ہاتھ میں کوئی برتن ہو تو اسے رکھ مت دو بلکہ اس سے اپنی حاجت پوری کر لو ۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اطمینان سے بیٹھا کھاتا رھے بلکہ مراد صرف یہ ھے کہ جلدی سے اپنی ضرورت پوری کر لینی چاہئیے۔