حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اگر کسی شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ” ( رواہ بخاری )
مراد یہ ھے کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا وہ محض فاقہ کرتا ھے ۔ اور اس کا روزہ بے معنی ھے کیونکہ روزے سے جو تقوی ، پرہیزگاری اور خداخوفی پیدا کرنا مقصود تھا وہ تو اس نے اپنے اندر پیدا ھی نہیں ھونےدی ۔
* جھوٹ پر عمل کرنے سے کیا مراد ھے ؟
جھوٹ بولنے کا مطلب تو واضح ھے البتہ جھوٹ پر عمل کرنے کا مفہوم سمجھ لینا چاہئیے۔
جھوٹ بولنا تو ایک حد تک محدود چیز ھے ، لیکن جھوٹ پر عمل کرنا قریب قریب سارے گناھوں پر حاوی ھو جاتا ھے ۔
اس بات پر غور کیجئے کہ اگر ایک آدمی نے دوسرے کا مال ناحق ہتھیا لیا ھو تو اس نے درحقیقت ایک جھوٹ پر عمل کیا ھے ۔ مال اس کا نیا نہیں تھا لیکن اس نے سے اپنا سمجھ کر یا اپنا قرار دے کر یا یہ فیصلہ کر کے کہ اب یہ میرا ھونا چاہئیے ۔ اس پرقبضہ کر لیا تو اس کی یہ چوری در اصل ایک جھوٹ ھے جس پر اس نے عمل کیا۔
اسی طرح ایک جو آدمی کسی کو قتل کرتا ھے ۔وہ اصل میں جھوٹ پر عمل کرتا ھے ۔وہ اپنے آپ کو اس بات کا حقدار فرض کر لیتا ھے ۔کہ چونکہ فلاں شخص نے میرا قصور کیا ھے اس لئیے میں اس کو قتل کر سکتا ھوں ۔ حالانکہ اسے اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ اس طرح ور درحقیقت جھوٹ پر عمل کر رہا ھے ۔ اس طرح انسان جتنے بھی گناہ کرتا ھے ۔ خواہ وہ براہ راست خدا کی نا فرمانی کے گناہ ھوں یا وہ بندوں پر ظلم و زیادتی کے گناہ ھوں دونوں شکلوں میں در حقیقت ھر گناہ ایک جھوٹ ھے ۔
البتہ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ جھوٹ روزہ توڑنے والی چیزوں میں سے نہیں۔ ایک چیز تو وہ ھے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ھے ۔ اور دوسری چیز وہ ھے جس سے روزے کے حسن و خوبی میں خرابی واقع ھوتی ھے ۔ مثلا وہ اخلاقی برائیاں ہیں جن کے ارتکاب سے روزے کی قدر و قیمت نہیں رہتی لیکن ان سے روزہ ٹوٹتا نہیں ۔ یہاں یہ فرمایا کہ اللہ کو اس کے روزہ کی کوئی حاجت نہیں ، یہ نہیں فرمایا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ مدعا یہ ھے ک اس نے روزے کے مقصد کو فوت کردیا اور اس کے روزے کی روح ختم ھو گئی کیونکہ اس نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا۔