صاحبو یہ کہانی پانچ صدی قبل شروع ہوتی ہے۔
لگ بھگ 500 سال قبل جموں کے رہنے والے چوہدری چکو خان نے ہجرت کی اور اپنے قبیلے کو اس جگہ آ بسایا جسے آج چکوال کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا زمانہ تھا۔
اس جگہ کا نام چکوال بھی اس کے بانی کے نام پر پڑا، یعنی چکو + آل یا چکو کی آل کا علاقہ۔
چکو خان راجپوتوں کی سب کاسٹ مائر منہاس کا جد امجد تھا۔ ہندوستان کے تقریباً ہر حصے میں آباد راجپوت قبیلے کی سینکڑوں سب کاسٹس یعنی ذیلی ذاتیں ہیں۔ اس قبیلے کا پیشہ اور پہچان سپہ گری تھے، بلکہ اب تک ہیں۔ سرحد کے آر پار بہت سے راجپوت مسلح افواج کا حصہ ہیں۔
مائر منہاس وہ اولیں سب کاسٹ ہے جس نے سپہ گری کی بجائے ہل جوتنے یعنی کاشت کاری کو ذریعہ معاش بنایا۔
چکو خان کی اولاد سے ایک لڑکا لگ بھگ تین دہائیاں قبل چکوال کے نواح میں “چکرال” نام کے گاؤں میں سرکاری سکول میں ڈیڑھ برس داخل رہا۔ چکرال چکوال کے ان چند دیہات میں سے ایک ہے جہاں چکو خان کی براہ راست اولاد بستی ہے۔
اس لڑکے کے دادا کا پیشہ کاشت کاری تھا جو انہوں نے اپنے آبائی علاقے چکرال اور بعد میں سرگودھا کے نواح میں سرکار انگلشیہ کے الاٹ کردہ رقبے پر جاری رکھا۔
سرگودھا میں برطانوی حکومت نے فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے بالخصوص راولپنڈی کمشنری کے زمیندار خاندانوں کو غیر آباد رقبے گھوڑی پال سکیم کے تحت الاٹ کیے تھے۔ ان جفاکش کاشت کاروں نے جنگلی کیکر اور ونڑ نامی غیر مفید پودوں سے اٹے ہوئے ان سیم زدہ دلدلی علاقوں میں زمین کھود کر رزق تلاش کیا۔ آج یہ سرسبز علاقہ ملک کی سب سے بڑی “سٹرس بیلٹ” ہے جہاں دنیا کا بہترین کینو پیدا ہوتا ہے۔ گھوڑی پال سکیم کے تحت آباد کار زمیندار ہر دو برس بعد بچھیری یا بچھیرا فوج کو دیتے جو رائل آرٹلری کے دستوں کا حصہ بنتا۔
چکرال میں پڑھنے والے اس لڑکے کے والد نے بھی چکوال شہر سے دس جماعتیں پڑھ کر سرگودھا میں عملی زندگی کاشت کاری سے شروع کی لیکن ساتھ تعلیم جاری رکھی اور بہتری کی امید میں دیگر ملازمتیں اور وکالت بھی کی۔
زراعت کے ساتھ ہمیشہ سے ہی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے سوتیلی ماں والا سلوک کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کی غالب آبادی دیہات میں رہتی اور زراعت سے وابستہ تھی۔ اور “غالب آبادی” تو پھر ایسے ہی سلوک کی مستحق ہوتی ہے۔ دوسرا سبب شاید یہ کہ ملک بھی بنیادی طور پر زرعی تھا تو اس شعبے کے ساتھ “خصوصی سلوک” کا جواز بھی بنتا تھا۔
بہرحال سرکاری عدم دلچسپی، وراثت کے فطری عمل سے کم ہوتی ملکیت زمین اور کچھ بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے موسم کے رحم و کرم پر انحصار جیسے عوامل تھے کہ یہ لڑکا اور اس کے ہم عمر و ہم عصر دیگر کئی نوجوان باپ دادا کی طرح زراعت سے مکمل یا جزوی طور پر وابستہ رہنے کی بجائے کلی طور پر دیگر پیشوں، کاروبار اور ملازمت وغیرہ سے منسلک ہوتے گئے۔
صاحبو، داستان تمہید تمہید میں ہی طویل ہو گئی، اصل کہانی تو اس ڈیڑھ برس سے جڑی ہوئی ہے جب یہ لڑکا چکرال میں زیر تعلیم تھا۔
سردیوں میں جب کپڑے کے تھیلوں والے بستے اٹھائے یہ لڑکا اور اس کے ہم جماعت سکول پہنچتے تو تختیاں دھونے والی حوضی اور سکول کے قریب سے گزرتے برساتی نالے میں پانی کے اوپر برف کی تہہ جمی ہوتی۔ برف جسے ہم ککر کہتے، ککر کی یہ تہہ اتنی دبیز ہوتی تھی کہ چھوٹا کنکر پھینکنے سے نہ ٹوٹتی اور تڑخنے سے اس پر لکیریں سی بن جاتیں۔ برف جمنے کا مطلب یہ تھا کہ درجہ حرارت نقطہ انجماد یعنی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے گرتا تھا۔ اس وقت درجہ حرارت بتانے والے آلے تو ہمارے پاس نہ ہوتے تھے لیکن جملہ جذبات و آلاتِ رومانس کا سکڑاؤ اور برف کی موجودگی تھرما میٹر کی گواہی کے محتاج نہ تھے۔
وقت ںیت گیا جیسے اس کا معمول ہے کہ رکتا نہیں آگے بڑھ جاتا ہے۔ چکرال سے یہ لڑکا چکوال اور اسلام آباد جا پہنچا۔ چوہدری چکو کی ہجرت کے ٹھیک پانچ سو سال بعد 2020 کے دسمبر میں یہ لڑکا جب اسلام آباد میں عین اسی وقت دفتر جانے کے لیے نکلتا ہے جب وہ تیس پینتیس برس قبل چکرال سکول کے لیے نکلتا تھا تو گاڑی کے اوڈو میٹر میں لگا تھرما میٹر باہر کا ٹمپریچر 13، 14 ڈگری بتا رہا ہوتا ہے۔ جملہ جذبات و آلاتِ رومانس بھی تین دہائیاں قبل والی یخ بستگی کی کوئی نشانی نہیں دیتے۔
تو چکو خان کا یہ لکڑ پڑ پوتا اور آپ کا دوست سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ خدایا تب شاعری سے دلچسپی کے باوجود ٹھٹھرتے دسمبر اور ابلتے جذبات والا کوئی شعر سننے کو نہ ملتا تھا جیسی انی آج پڑی ہوئی ہے۔ تب سردی بھی زیادہ تھی، حرارت کی ضرورت بھی آج سے زیادہ اور محبوب تک رسائی بھی ایسی سہل اور سستی نہ تھی جیسی آج زوکربرگ کی فیس بک اور واٹس ایپ نے ٹکا ٹوکری کر دی ہے۔ تو پھر ان سالانہ شاعروں کو نومبر کے آخری ہفتے میں ہی کیوں “اخے اسے کہنا پھر دسمبر آیا ہے” کی چُل شروع ہو جاتی ہے؟
پیش نوشت: معاف کیجیے گا اگر آپ کے جذبات میں غصے کا تناسب بڑھ گیا ہو کہ دسمبری شاعروں کا پٹ سیاپا کرنے کے لیے اتنی تفصیل کیوں بتائی تو یہ مجبوری تھی کہ آپ بھی تو تاریخی اور سائنسی حوالوں کے بغیر آج کل کوئی بات نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری باتیں وزیر اعظم صاحب کی مانتے ہیں جو تاریخ اور سائنس کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اور روحونی حوالوں سے بھی مزین ہوتی ہیں۔