Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
صدارت کے پہلے دور کی یادداشتوں پر مبنی باراک اوباما کی کتاب کا آخری باب ایبٹ آباد میں اسامہ کو مارنے کے بارے میں ہے۔
باقی ابواب میں میں کیا انکشافات ہیں، کیا بتایا ، کیا چھپایا گیا اس پر بات ہوتی رہے گی۔ مبصرین تبصرے کرتے رہیں گے، کالم نگار صفحے کالے کرتے رہیں گے اور سیاسی تقسیم کے آر پار موجود مداحین اپنے اپنے ممدوح کے حق میں امریکی صدر کی باتوں کی تشریح کرتے رہیں گے۔ تاوقتیکہ کوئی تازہ سودا نہ آ جائے جو میڈیا منڈی میں بیچا جا سکے۔
تاہم آخری باب میں 44ویں امریکی صدر نے ایک جملہ لکھا ہے۔ اس جملے نے چونکا دیا ہے۔ یہ جملہ پتہ دیتا ہے کہ عظیم رہنما اور کامیاب اقوام کیوں عظیم اور کامیاب ہوتی ہیں اور “ڈیڑھ فٹیئے” کیوں عظیم نہیں ہو سکتے (ڈیڑھ فٹیا سنجے دت کی ایک مشہور فلم کا کردار ہے لیکن فلم والے ڈیڑھ فٹیئے کا کردار ہمارے والے ڈیڑھ فٹیوں سے بہت اچھا تھا).
چونکا دینے والے اس جملے میں اوباما نے لکھا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کی خبر سب سے پہلے سابق صدور بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر کو فون کر کے دی۔
کیا سمجھے؟
44واں امریکی صدر باراک اوباما ڈیموکریٹ ہے۔ 43واں صدر جارج بش جونیئر ریپبلکن ہے۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
امریکہ کے حوالے سے سب سے بڑی کامیابی کی اطلاع موجودہ صدر دو سابق صدور کو دیتا ہے۔ یہ قانونی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی سیاسی مجبوری تھی۔ پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اوباما نے اپنی پارٹی کے مامے چاچے بلا لیے ہوں اور نصف امریکہ کی نمائندگی کرنے والے ریپبلکن رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا ہو۔
نہ ہی اس نے “میرا ہسپتال، میرا ورلڈ کپ، میرے ایٹمی دھماکے، میری قربانیاں، میری دستوری پیش رفتیں، میرا سب سے پہلے پاکستان” کی طرز پر “میرا فیصلہ، میرا اپریشن، میری کامیابی وغیرہ” جیسی میاں مٹھو والی رٹ لگائی۔ نہ ہی امریکی افواج کے سربراہ یا تعلقات عامہ کے کسی ذمہ دار نے پریس کانفرنس میں ڈینگیں ماریں کہ اسامہ کو مار کر امریکی افواج نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی”
ہوا یہ کہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو کمال مہارت اور دلیری سے نشانہ بنایا۔ اور امریکی قوم کے سب سے بڑے منتخب رہنما نے اس ساری کارروائی کی کپتانی کی۔ کامیابی پر بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اسے امریکی قوم کی کامیابی قرار دیا۔ اپنی پارٹی اور سب سے بڑی سیاسی حریف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق صدور کو سب سے پہلے اطلاع دے کر اس بات کا عملی اظہار کیا کہ قومی مفادات پر ہم ایک ہیں۔ اور سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت کسی ملازم یا ادارے کی نہیں بلکہ امریکی قوم کے مفاد اور امریکی شہریوں اور ان کی منتخب قیادت کی ہے۔
یہ سب کیا ہے؟
یہ بحیثیت امریکی قومی تفاخر کا احساس ہے۔ اور بحیثیت قوم یک جہتی اور مشترک مفادات کا تصور ہے جو پارٹی مفادات اور ذاتیات سے بالاتر ہے۔ مدبر رہنما اور حقیقی statesmen کچھ ایسے ہوتے ہیں۔
لیکن مایوسی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ امریکہ میں ڈیڑھ فٹیئے نہیں۔ بھلے ہائٹ سکیل پر ٹرمپ 6 فٹ 3 انچ کا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے والوں کو برابر کی ٹکر دیتا ہے۔ صرف لمبے تڑنگے جسموں سے قومیں عظیم اور مضبوط بنتیں تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا نہ بلوچستان سے فاٹا تک کھچاؤ کی لہریں محسوس ہوتیں۔ مضبوط جثے ہی یگانگت کا نسخہ ہوتے تو کالے، پتلے، چھوٹے، مدقوق بنگالی آج ایک کامیاب قوم نہ ہوتے۔
صدارت کے پہلے دور کی یادداشتوں پر مبنی باراک اوباما کی کتاب کا آخری باب ایبٹ آباد میں اسامہ کو مارنے کے بارے میں ہے۔
باقی ابواب میں میں کیا انکشافات ہیں، کیا بتایا ، کیا چھپایا گیا اس پر بات ہوتی رہے گی۔ مبصرین تبصرے کرتے رہیں گے، کالم نگار صفحے کالے کرتے رہیں گے اور سیاسی تقسیم کے آر پار موجود مداحین اپنے اپنے ممدوح کے حق میں امریکی صدر کی باتوں کی تشریح کرتے رہیں گے۔ تاوقتیکہ کوئی تازہ سودا نہ آ جائے جو میڈیا منڈی میں بیچا جا سکے۔
تاہم آخری باب میں 44ویں امریکی صدر نے ایک جملہ لکھا ہے۔ اس جملے نے چونکا دیا ہے۔ یہ جملہ پتہ دیتا ہے کہ عظیم رہنما اور کامیاب اقوام کیوں عظیم اور کامیاب ہوتی ہیں اور “ڈیڑھ فٹیئے” کیوں عظیم نہیں ہو سکتے (ڈیڑھ فٹیا سنجے دت کی ایک مشہور فلم کا کردار ہے لیکن فلم والے ڈیڑھ فٹیئے کا کردار ہمارے والے ڈیڑھ فٹیوں سے بہت اچھا تھا).
چونکا دینے والے اس جملے میں اوباما نے لکھا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کی خبر سب سے پہلے سابق صدور بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر کو فون کر کے دی۔
کیا سمجھے؟
44واں امریکی صدر باراک اوباما ڈیموکریٹ ہے۔ 43واں صدر جارج بش جونیئر ریپبلکن ہے۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
امریکہ کے حوالے سے سب سے بڑی کامیابی کی اطلاع موجودہ صدر دو سابق صدور کو دیتا ہے۔ یہ قانونی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی سیاسی مجبوری تھی۔ پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اوباما نے اپنی پارٹی کے مامے چاچے بلا لیے ہوں اور نصف امریکہ کی نمائندگی کرنے والے ریپبلکن رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا ہو۔
نہ ہی اس نے “میرا ہسپتال، میرا ورلڈ کپ، میرے ایٹمی دھماکے، میری قربانیاں، میری دستوری پیش رفتیں، میرا سب سے پہلے پاکستان” کی طرز پر “میرا فیصلہ، میرا اپریشن، میری کامیابی وغیرہ” جیسی میاں مٹھو والی رٹ لگائی۔ نہ ہی امریکی افواج کے سربراہ یا تعلقات عامہ کے کسی ذمہ دار نے پریس کانفرنس میں ڈینگیں ماریں کہ اسامہ کو مار کر امریکی افواج نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی”
ہوا یہ کہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو کمال مہارت اور دلیری سے نشانہ بنایا۔ اور امریکی قوم کے سب سے بڑے منتخب رہنما نے اس ساری کارروائی کی کپتانی کی۔ کامیابی پر بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اسے امریکی قوم کی کامیابی قرار دیا۔ اپنی پارٹی اور سب سے بڑی سیاسی حریف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق صدور کو سب سے پہلے اطلاع دے کر اس بات کا عملی اظہار کیا کہ قومی مفادات پر ہم ایک ہیں۔ اور سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت کسی ملازم یا ادارے کی نہیں بلکہ امریکی قوم کے مفاد اور امریکی شہریوں اور ان کی منتخب قیادت کی ہے۔
یہ سب کیا ہے؟
یہ بحیثیت امریکی قومی تفاخر کا احساس ہے۔ اور بحیثیت قوم یک جہتی اور مشترک مفادات کا تصور ہے جو پارٹی مفادات اور ذاتیات سے بالاتر ہے۔ مدبر رہنما اور حقیقی statesmen کچھ ایسے ہوتے ہیں۔
لیکن مایوسی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ امریکہ میں ڈیڑھ فٹیئے نہیں۔ بھلے ہائٹ سکیل پر ٹرمپ 6 فٹ 3 انچ کا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے والوں کو برابر کی ٹکر دیتا ہے۔ صرف لمبے تڑنگے جسموں سے قومیں عظیم اور مضبوط بنتیں تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا نہ بلوچستان سے فاٹا تک کھچاؤ کی لہریں محسوس ہوتیں۔ مضبوط جثے ہی یگانگت کا نسخہ ہوتے تو کالے، پتلے، چھوٹے، مدقوق بنگالی آج ایک کامیاب قوم نہ ہوتے۔
صدارت کے پہلے دور کی یادداشتوں پر مبنی باراک اوباما کی کتاب کا آخری باب ایبٹ آباد میں اسامہ کو مارنے کے بارے میں ہے۔
باقی ابواب میں میں کیا انکشافات ہیں، کیا بتایا ، کیا چھپایا گیا اس پر بات ہوتی رہے گی۔ مبصرین تبصرے کرتے رہیں گے، کالم نگار صفحے کالے کرتے رہیں گے اور سیاسی تقسیم کے آر پار موجود مداحین اپنے اپنے ممدوح کے حق میں امریکی صدر کی باتوں کی تشریح کرتے رہیں گے۔ تاوقتیکہ کوئی تازہ سودا نہ آ جائے جو میڈیا منڈی میں بیچا جا سکے۔
تاہم آخری باب میں 44ویں امریکی صدر نے ایک جملہ لکھا ہے۔ اس جملے نے چونکا دیا ہے۔ یہ جملہ پتہ دیتا ہے کہ عظیم رہنما اور کامیاب اقوام کیوں عظیم اور کامیاب ہوتی ہیں اور “ڈیڑھ فٹیئے” کیوں عظیم نہیں ہو سکتے (ڈیڑھ فٹیا سنجے دت کی ایک مشہور فلم کا کردار ہے لیکن فلم والے ڈیڑھ فٹیئے کا کردار ہمارے والے ڈیڑھ فٹیوں سے بہت اچھا تھا).
چونکا دینے والے اس جملے میں اوباما نے لکھا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کی خبر سب سے پہلے سابق صدور بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر کو فون کر کے دی۔
کیا سمجھے؟
44واں امریکی صدر باراک اوباما ڈیموکریٹ ہے۔ 43واں صدر جارج بش جونیئر ریپبلکن ہے۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
امریکہ کے حوالے سے سب سے بڑی کامیابی کی اطلاع موجودہ صدر دو سابق صدور کو دیتا ہے۔ یہ قانونی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی سیاسی مجبوری تھی۔ پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اوباما نے اپنی پارٹی کے مامے چاچے بلا لیے ہوں اور نصف امریکہ کی نمائندگی کرنے والے ریپبلکن رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا ہو۔
نہ ہی اس نے “میرا ہسپتال، میرا ورلڈ کپ، میرے ایٹمی دھماکے، میری قربانیاں، میری دستوری پیش رفتیں، میرا سب سے پہلے پاکستان” کی طرز پر “میرا فیصلہ، میرا اپریشن، میری کامیابی وغیرہ” جیسی میاں مٹھو والی رٹ لگائی۔ نہ ہی امریکی افواج کے سربراہ یا تعلقات عامہ کے کسی ذمہ دار نے پریس کانفرنس میں ڈینگیں ماریں کہ اسامہ کو مار کر امریکی افواج نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی”
ہوا یہ کہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو کمال مہارت اور دلیری سے نشانہ بنایا۔ اور امریکی قوم کے سب سے بڑے منتخب رہنما نے اس ساری کارروائی کی کپتانی کی۔ کامیابی پر بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اسے امریکی قوم کی کامیابی قرار دیا۔ اپنی پارٹی اور سب سے بڑی سیاسی حریف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق صدور کو سب سے پہلے اطلاع دے کر اس بات کا عملی اظہار کیا کہ قومی مفادات پر ہم ایک ہیں۔ اور سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت کسی ملازم یا ادارے کی نہیں بلکہ امریکی قوم کے مفاد اور امریکی شہریوں اور ان کی منتخب قیادت کی ہے۔
یہ سب کیا ہے؟
یہ بحیثیت امریکی قومی تفاخر کا احساس ہے۔ اور بحیثیت قوم یک جہتی اور مشترک مفادات کا تصور ہے جو پارٹی مفادات اور ذاتیات سے بالاتر ہے۔ مدبر رہنما اور حقیقی statesmen کچھ ایسے ہوتے ہیں۔
لیکن مایوسی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ امریکہ میں ڈیڑھ فٹیئے نہیں۔ بھلے ہائٹ سکیل پر ٹرمپ 6 فٹ 3 انچ کا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے والوں کو برابر کی ٹکر دیتا ہے۔ صرف لمبے تڑنگے جسموں سے قومیں عظیم اور مضبوط بنتیں تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا نہ بلوچستان سے فاٹا تک کھچاؤ کی لہریں محسوس ہوتیں۔ مضبوط جثے ہی یگانگت کا نسخہ ہوتے تو کالے، پتلے، چھوٹے، مدقوق بنگالی آج ایک کامیاب قوم نہ ہوتے۔
صدارت کے پہلے دور کی یادداشتوں پر مبنی باراک اوباما کی کتاب کا آخری باب ایبٹ آباد میں اسامہ کو مارنے کے بارے میں ہے۔
باقی ابواب میں میں کیا انکشافات ہیں، کیا بتایا ، کیا چھپایا گیا اس پر بات ہوتی رہے گی۔ مبصرین تبصرے کرتے رہیں گے، کالم نگار صفحے کالے کرتے رہیں گے اور سیاسی تقسیم کے آر پار موجود مداحین اپنے اپنے ممدوح کے حق میں امریکی صدر کی باتوں کی تشریح کرتے رہیں گے۔ تاوقتیکہ کوئی تازہ سودا نہ آ جائے جو میڈیا منڈی میں بیچا جا سکے۔
تاہم آخری باب میں 44ویں امریکی صدر نے ایک جملہ لکھا ہے۔ اس جملے نے چونکا دیا ہے۔ یہ جملہ پتہ دیتا ہے کہ عظیم رہنما اور کامیاب اقوام کیوں عظیم اور کامیاب ہوتی ہیں اور “ڈیڑھ فٹیئے” کیوں عظیم نہیں ہو سکتے (ڈیڑھ فٹیا سنجے دت کی ایک مشہور فلم کا کردار ہے لیکن فلم والے ڈیڑھ فٹیئے کا کردار ہمارے والے ڈیڑھ فٹیوں سے بہت اچھا تھا).
چونکا دینے والے اس جملے میں اوباما نے لکھا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کی خبر سب سے پہلے سابق صدور بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر کو فون کر کے دی۔
کیا سمجھے؟
44واں امریکی صدر باراک اوباما ڈیموکریٹ ہے۔ 43واں صدر جارج بش جونیئر ریپبلکن ہے۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
امریکہ کے حوالے سے سب سے بڑی کامیابی کی اطلاع موجودہ صدر دو سابق صدور کو دیتا ہے۔ یہ قانونی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی سیاسی مجبوری تھی۔ پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ اوباما نے اپنی پارٹی کے مامے چاچے بلا لیے ہوں اور نصف امریکہ کی نمائندگی کرنے والے ریپبلکن رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا ہو۔
نہ ہی اس نے “میرا ہسپتال، میرا ورلڈ کپ، میرے ایٹمی دھماکے، میری قربانیاں، میری دستوری پیش رفتیں، میرا سب سے پہلے پاکستان” کی طرز پر “میرا فیصلہ، میرا اپریشن، میری کامیابی وغیرہ” جیسی میاں مٹھو والی رٹ لگائی۔ نہ ہی امریکی افواج کے سربراہ یا تعلقات عامہ کے کسی ذمہ دار نے پریس کانفرنس میں ڈینگیں ماریں کہ اسامہ کو مار کر امریکی افواج نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی”
ہوا یہ کہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو کمال مہارت اور دلیری سے نشانہ بنایا۔ اور امریکی قوم کے سب سے بڑے منتخب رہنما نے اس ساری کارروائی کی کپتانی کی۔ کامیابی پر بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اسے امریکی قوم کی کامیابی قرار دیا۔ اپنی پارٹی اور سب سے بڑی سیاسی حریف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق صدور کو سب سے پہلے اطلاع دے کر اس بات کا عملی اظہار کیا کہ قومی مفادات پر ہم ایک ہیں۔ اور سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت کسی ملازم یا ادارے کی نہیں بلکہ امریکی قوم کے مفاد اور امریکی شہریوں اور ان کی منتخب قیادت کی ہے۔
یہ سب کیا ہے؟
یہ بحیثیت امریکی قومی تفاخر کا احساس ہے۔ اور بحیثیت قوم یک جہتی اور مشترک مفادات کا تصور ہے جو پارٹی مفادات اور ذاتیات سے بالاتر ہے۔ مدبر رہنما اور حقیقی statesmen کچھ ایسے ہوتے ہیں۔
لیکن مایوسی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ امریکہ میں ڈیڑھ فٹیئے نہیں۔ بھلے ہائٹ سکیل پر ٹرمپ 6 فٹ 3 انچ کا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے والوں کو برابر کی ٹکر دیتا ہے۔ صرف لمبے تڑنگے جسموں سے قومیں عظیم اور مضبوط بنتیں تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا نہ بلوچستان سے فاٹا تک کھچاؤ کی لہریں محسوس ہوتیں۔ مضبوط جثے ہی یگانگت کا نسخہ ہوتے تو کالے، پتلے، چھوٹے، مدقوق بنگالی آج ایک کامیاب قوم نہ ہوتے۔