وہ استنبول میں ہمارا آخری دن تھا جب ہم نے ایک حیرت انگیز نظارہ دیکھا ۔ ایسا نظارہ ، جسے دیکھنے کا کوئی پروگرام نہ تھا ۔
تجربے سے سیکھا تھا کہ کسی دوسرے ملک کی سیر کو جانے سے پہلے پوری تیاری کر لینی چاہئیے ، کہاں کہاں جانا ہے ، کیا کیا دیکھنا ہے ، ٹرانسپورٹ ، یعنی بس یا ٹرین یا ٹرام یا فیری کو کیسے استعمال کرنا ہے ، ہوٹل کس مقام پر ہونا چاہئیے ۔ ایک ویب سائٹ “ٹرپ ایڈوائزر” شاید سب سے اچھی رہنمائی فراہم کر دیتی ہے ۔
تو جب استنبول میں ہمارا آخری دن آیا تو پتا چلا کہ جتنے مقامات کی فہرست بنا کر نکلے تھے ، سب دیکھ چکے ۔ توپ کاپی سے گرانڈ بازار تک ، ہپوڈروم کی وسعت میں جگمگاتی مسجد اور کلیسا اور باغات اور حورم سلطان حمام تک ، پرنسس آئی لینڈ سے قدیم گلاٹا برج تک ، اور سرکیچی کے سوا سو سال پرانے ریلوے اسٹیشن کے متروک حصے میں دکھائے جانے والے رقص درویش سے خراسانی ریسٹورنٹ کے جادوئی ادانا کبابوں تک ، نہ جانے کیا کچھ دیکھ لیا ، چکھ لیا ، فہرست پر حرف بہ حرف عمل کر لیا ، پھر بھی ایک دن بچ گیا ۔
میں اور عالیہ سوچتے رہے کہ اب کیا کریں ، کہاں جائیں ۔ دنیا دیکھنے نکلو تو ہوٹل میں وقت ضائع کرنا تقریبا” گناہ لگتا ہے ۔
سو ایک بار پھر ٹرپ ایڈوائزر سے مدد لی ، گوگل سے راستا پوچھا ، اور ٹرام میں سوار ہو کر شاداب باغات سے گھری ایک سادہ عمارت تک جا پہنچے ، جس پر لکھا تھا “پینوراما 1453”
پینوراما 1453 ترک تاریخ کا عجائب گھر ہے ۔ اور ایسا عجیب میوزیم ، کہ شروع میں بہت بیزاری سے آپ کا استقبال کرتا ہے ۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے ذرا مایوسی سی ہوئی ۔ دیواروں پر ترک بادشاہوں کی بڑی بڑی تصاویر ، جن کے ساتھ تاریخی واقعات درج تھے ۔ کچھ نادر اشیاء ، جنہیں پوشیدہ روشنیاں نمایاں کرتی تھیں ۔ یعنی کچھ بھی ایسا نہ تھا کہ آپ کو اپنی جانب متوجہ کرے ۔ یہ ایک روایتی ، خوابیدہ میوزیم تھا جسے ہم کراچی میں بیٹھ کر انٹرنیٹ پر بھی دیکھ سکتے تھے ۔
ہم بس رسم نبھانے کے لئے ان تصاویر سے سجی گیلری میں چلتے گئے جو گھومتی جاتی تھی اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ۔ مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ تاریخ میں میری دلچسپی کبھی بہت زیادہ نہیں رہی ۔ بس اتنی رہی کہ لوگوں کو میری کم علمی کا شبہ ہو تو ہو ، پورا یقین نہ آئے ۔
خیر ، ہم گیلری میں چلتے گئے کیونکہ ایسی راہ داریوں کا اصول یہ ہوتا ہے کہ آپ کو پلٹ کر واپس جانے کی اجازت نہیں ہوتی ، راہ داری ختم ہو گی تو باہر نکلنے کا راستا سامنے آ جائے گا ۔
مگر راہ داری ختم ہوئی تو ایک زینہ سامنے آ گیا ۔ تنگ ، گول سیڑھیاں جو بالائی منزل کی طرف جا رہی تھیں ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ۔ باہر نکلنے کا اگر کوئی راستا تھا تو گویا اوپر تھا ۔
ہم سیڑھیوں سے اوپر پہنچے تو یوں لگا ، کسی نے جادو کے ذریعے ہمیں کسی اور دنیا میں ، کسی اور وقت میں پہنچا دیا ہے ۔ وہ ساری بیزاری ہوا ہو گئی اور ایک ناقابل بیان حیرت دھیرے دھیرے ہمارے دلوں میں اترنے لگی ۔
یہ ایک گنبد جیسی گولائی والا بہت بڑا ہال تھا جس میں سیاحوں کا ہجوم تھا ۔ گول دیواروں پر ایک بہت بڑی پینٹنگ نقش تھی ۔ ایک میورل ۔ ایک مسلسل پینوراما پینٹنگ ، جسے سائکلوراما بھی کہا جاتا ہے ۔ دیوار کے ساتھ ساتھ دائرے میں چلتے جائیے ، مناظر دیکھتے جائیے ۔
اور کیسے مناظر ؟ قسطنطنیہ کی فتح کے مناظر ۔ وہی قسطنطنیہ جسے اب استنبول کہا جاتا ہے ۔ 29 مئی 1453 کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد ‘ فاتح’ کی افواج نے طاقتور بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا ۔ ان دیواروں پر جو مناظر نقش تھے ، اسی تاریخی دن کی داستان تھے ۔
مگر یہ بے جان ، ساکت مناظر نہیں لگتے تھے ۔ پوشیدہ اسپیکرز سے توپوں کی گھن گرج اور فوجی کمانڈرز کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ دیواروں پر ایک خوفناک جنگ برپا نظر آتی تھی ۔ قلعے منہدم ہو رہے تھے ، فصیلیں ٹوٹ رہی تھیں ، سپاہیوں کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں ، معرکہ آرائی میں ہمت بندھانے والے فوجی بینڈ بج رہے تھے ، سامنے توپوں کے آہنی گولے پڑے تھے ، شہر کی فصیلوں میں گھس آنے والے فوجیوں سے دوبدو لڑائی جاری تھی ۔ ہم گویا کسی جنگ کے عین درمیان کھڑے ، تاریخ کے ایک اہم دن کو دیکھ رہے تھے ۔
دس ہزار figures پر مشتمل یہ میورل آٹھ مصوروں نے چار سال کی محنت سے بنایا ہے اور یہ پوری جیتی جاگتی تصویر سوا دو ہزار مربع میٹر پر محیط ہے ۔ اسے اصلی اشیاء مثلا” توپوں کے گولوں ، زنجیروں ، ٹوٹی ہوئی تلواروں ، پیڑوں کے سوکھے تنوں اور مٹی کے ذریعے ایسا تھری ڈائمنشنل بصری دھوکا بنایا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہاں آنے والا پہلے دس سیکنڈز تک ایک شاک کے عالم میں رہتا ہے اور اس کے بعد اس کا ذہن اس پورے ماحول کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے ۔
ہم وہاں سے باہر نکل آئے تب بھی دیر تک اس کے سحر میں رہے ۔