مرشدِ شرق و غرب و عوام و خواص ، سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مبارک موقع پر مراکش کے بلند پایہ عالم دین ، فقیہ اور ادیب و شاعر بہت یاد آئے جو مراکش کے اعلی تعلیمی اداروں میں استاد رہے اور تفسیر قرآن ، فقہ و اصول فقہ اور شعر و ادب کی شکل میں بہت سا سمعی و بصری اور قلمی سرمایہ چھوڑ کر صرف 49 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ شیخ فرید الانصاری (1960-2009) ہیں جو اس وقت مراکش کے خوبصورت شہر مکناس میں آسودۂ خاک ہیں۔
داتا صاحب کے عرس پر ان کی یاد اس لیے آئی کہ انہوں نے’کشف المحجوب’ کا نام مستعار لیکر ایک ناول لکھا جس کی زبان کی چاشنی ، بیان کی ندرت اور خیال کی پرواز کو دیکھ کر زبان سے سبحان ، سبحان کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔
یہ ایک دیہاتی نوجوان کی کہانی ہے جس کا نام ‘المحجوب’ ہے اور سیاسی و معاشرتی فساد و ابتلاء نے اس کی زندگی کو مشکل میں ڈال رکھا ہے ۔ پھر ایک شاہزادی کی بدولت اس کے سامنے سے زندگی کی ان خوش کن حقیقتوں کے پردے اٹھنے لگتے ہیں جن سے وہ اپنی سابقہ زندگی میں نا آشنا رہا تھا۔ یوں اس محجوب کا ‘کشف المحجوب’ ہونا شروع ہوتا ہے۔
ناول کے آغاز میں شیخ فرید الانصاری نے دو اقتباس نقل کیے ہیں۔ ایک داتا صاحب کی کتاب کشف المحجوب کے آغاز سے لیا گیا ہے اور دوسرا میلان کنڈیرا کی کتاب The Art of the Novel سے ماخوذ ہے۔ اس سے نہ صرف ناول نگار کے قلبی میلانات کی طرف اشارہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ فکر اور فن کے ساتھ کس قدر سنجیدہ ہیں۔
ناول کا اخلاقی اور فلسفیانہ پیغام اس کی فصاحت و بلاغت اور لغوی حسن و جمال میں پوشیدہ ہے جس میں بالعموم یہ دکھایا گیا ہے کہ خیر اور محبت کے عناصر شر اور نفرت کے مقابلے میں کس قدر مرغوب اور راجح ہونے چاہئیں۔
یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ ناول نگار نے اس بات کو چھپانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے کیا کہنا چاہتا ہے یا کن حقائق کو سامنے لانے کا متمنی ہے۔
واقعات و حوادث کا بیان ایک ایسی ترتیب اور تسلسل کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اگر لمحے بھر کے لیے ظاہری و باطنی آنکھ کو اس طرف سے پھیر لیا جائے تو ساری کہانی ہی ذہن سے اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے ایسی نثر جو اپنے اندر فصیح و بلیغ شاعری کی سی کشش رکھتی ہو بجائے خود قاری کو تادیر اپنے ساتھ رکھنے کے لیے کافی و وافی ہے۔ عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت اور لغت سے شناسائی رکھنے والوں کے لیے یہ خاصے کی چیز ہے۔