پانچویں صدی ہجری کے ایک مایہ ناز فقیہ امام احمد بن محمد القدوری نے فقہ حنفی کی ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا ‘المختصر’۔ یہ کتاب بعد میں اپنے مصنف کی طرف منسوب ہو کر ‘مختصر القدوری’ کہلائی جس کا کچھ نہ کچھ حصہ آج بھی نصابِ تعلیم میں شامل ہے۔
چونکہ یہ کتاب فقہ حنفی کا ایک معتبر متن تھا اس لیے متعدد اہل علم نے اس پر حواشی و شروحات لکھ کر اس کی عظمت کو تسلیم کیا اور اس کے اعتبار میں اضافہ کیا۔
تاہم چھٹی صدی ہجری کے ایک قابل قدر فقیہ و عالم علامہ برہان الدین المرغینانی نے ایک منفرد کام کیا۔ انہوں نے مختصر القدوری اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے شاگرد امام محمد علیہ الرحمہ کی کتاب ‘الجامع الصغیر’ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا اور قدرے جامع متن ترتیب دیا جس کا نام ‘بدایۃ المبتدی’ رکھا۔ انہوں نے اس متن کے آغاز میں فرمایا کہ میں اس متن کی شرح بھی لکھوں گا۔ چنانچہ اَسی جلدوں پر مشتمل ایک شاندار شرح ‘کفایۃ المنتہی’ کے نام سے لکھ دی۔ بعد ازاں اسی متن کی ایک مختصر شرح ‘الہدیہ’ کے نام سے اس خیال سے تحریر فرمائی کہ شاید اس طویل شرح سے استفادہ کرنے والے افراد بہت زیادہ نہ ہوں۔ یہ کتاب بھی کئی صدیوں سے اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے اور آج تک کے تعلیمی نصابوں میں شامل چلی آتی ہے۔
آگے چل کر ایک فقیہ ہوئے علامہ محمود بن احمد جمال الدین محبوبی جن کا لقب تاج الشریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پوتے کو فقہ حنفی کے بنیادی مسائل یاد کروانے کے لیے مذکورہ دونوں کتابوں (مختصر القدوری اور الہدایہ) کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک نیا متن ترتیب دیا جس کا نام ‘الوقایہ’ رکھا۔ ان کے قابلِ فخر پوتے علامہ عبید اللہ بن مسعود المعروف صدر الشریعہ نے نہ صرف اس متن کو یاد کیا بلکہ اس کی ایک دلفریب شرح بھی لکھ دی جس کا نام ‘شرح الوقایہ’ رکھا۔ اس شرح کو آج تک جس نے پڑھا ، سینے سے لگا لیا۔ شرح لکھنے کے بعد انہوں نے اس کتاب کا ایک خلاصہ بھی تیار کر دیا جس کا نام ‘النقایہ’ رکھا۔
اس کے بعد زلفِ جاناں کی طرح یہ سلسلہ طویل ، بہت ہی طویل ہے کہ ان سب کتابوں پر حواشی و شروحات اور شروحات در شروحات تحریر کرنے میں کیسے کیسے علماء و فقہاء نے جان ماری اور فقہی دنیا کو طرح طرح کے رنگوں اور خوشبوؤں سے مالا مال کر دیا۔
تا ہم دورِ اخیر میں لکھنؤ کے ایک مشہورِ شرق و غرب فقیہ و عالم علامہ ابو الحسنات عبد الحی لکھنوی کی دو کاوشوں کا ذکر بہت ضروری ہے۔ ایک تو انہوں نے شرح الوقایہ کی عربی زبان میں ایک شرح تحریر کی جس کا نام ‘السعایہ’ ہے۔ دوسرا عظیم الشان کارنامہ اسی کتاب کا عربی زبان میں حاشیہ ہے جس کا نام ‘عمدۃ الرعایۃ’ ہے۔
یہ ساری تفصیل دوستوں سے شیئر کرنے کو اس لیے جی چاہا کہ علامہ عبد الحی لکھنوی کے حاشیے سے مزین شرح الوقایہ کا بیروت (لبنان) سے طبع شدہ ایڈیشن اس وقت پیش نظر ہے۔ اس ایڈیشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اردن کے ایک عالم ڈاکٹر صلاح ابو الحاج نے علامہ لکھنوی کے حاشیے پر اپنی طرف سے ایک حاشیے کا اضافہ کر دیا ہے جس کا نام ‘غایۃ العنایہ’ ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ عرب محشی نے اگرچہ خود بھی حاشیہ لکھا ہے لیکن علامہ لکھنوی کے حاشیے کی ایسی تعریف کی ہے جیسا اس کا حق تھا۔ یعنی یہ تعریف پڑھ کر بلا اختیار عمدۃ الرعایہ پڑھنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر صلاح کی ایک بات بہت دلچسپ لگی کہ جب انہوں نے عمدۃ الرعایہ پر اپنے تحقیقی کام اور اس پر غایۃ العنایہ تحریر کرنے کے اسباب اور تفصیل بیان کرنا شروع کی تو اس میں یہ بھی لکھا کہ ‘اس کتاب کے تین ہندوستانی ایڈیشن میرے پیش نظر تھے لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں یہ ایڈیشن بہت عجیب انداز میں طبع ہوئے ہیں جن کو پڑھنا اور استفادہ کرنا فقط متخصصین کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ یعنی بعض صفحات کو پڑھنے کے لیے تو ان کو چاروں طرف گھمانا پڑتا ہے۔ اس دشواری کے باعث ہماری عرب دنیا کے طلبہ تو خاص طور پر اس سے مطلق استفادہ نہیں کریں گے’
عرب محقق کے یہ الفاظ پڑھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی اور بعد ازاں کچھ وقت کے لیے سکتہ طاری ہو گیا۔
ہمارے دیار میں زیادہ عام یہاں کا مقامی ایڈیشن ہی ہے۔ شاید یہی یا ایسی ہی کوئی اشاعت ہو گی جس نے ‘عرب دنیا’ کو ‘تشویش’ میں ڈال دیا اور اس تشویش کے نتیجے میں شرح الوقایہ بیروت سے ایسی چمک دمک اور شان و شکوہ کے ساتھ شائع ہو کر سامنے آئی کہ دلوں میں گھر کرتی جاتی ہے۔
اور اس سارے عمل کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ حال ہی میں دعوت اسلامی کے کنز المدارس بورڈ نے نیا تعلیمی نصاب ترتیب دیا ہے جس میں سابقہ نصاب کی نسبت کئی اہم کتب اور علوم و فنون کا اضافہ کیا گیا ہے۔ شرح الوقایہ بھی انہی کتب میں سے ایک ہے۔ جس پائے کی یہ کتاب ہے اور فقہ حنفی کی تاریخ میں جس سلسلۃُ الذہب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کو دوبارہ سے شاملِ نصاب کرنے والوں کے لیے دلی دعاؤں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا اور امید ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والے اس کو یوں پڑھیں گے اور اس کا ایسا استقبال کریں گے جیسا اس کا حق ہے۔