• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home فکر و خیال

آفتاب اقبال شماری اور پکوڑے کا نظریہ انفرادیت

آفتاب اقبال، صحافی تھے، کالم نگار تھے، اینکر تھے یا کچھ اور  احمد آفتاب نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے

احمد آفتاب by احمد آفتاب
December 15, 2021
in فکر و خیال
0
آفتاب اقبال
182
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

آفتاب اقبال، صحافی تھے، کالم نگار تھے، اینکر تھے یا کچھ اور؟ ممکن ہے کہ اب وہ خود بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کہہ سکیں۔ آفتاب اقبال کیا ہیں؟  احمد آفتاب نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابا کی تنخواہ گھر کو پوری ہوجاتی تھی اور ہم اس میں سے چلغوزے بھی خرید سکتے تھے۔ تب لوگ جھوٹ کم بولتے تھے کیونکہ ٹی وی پر دن میں ایک بار خبریں آتی تھیں اور چونکہ حکومت میں کسی کو کرکٹ کھیلنے کا شوق نہیں تھا، اس لیے ہمیں بھی اپنے مستقبل کے سنہرا ہونے کا پورا یقین تھا۔

اسی زمانے میں، پی ٹی سی ایل ہزاروں صفحات پر مشتمل، ایک ٹیلیفون ڈائریکٹری چھاپتا تھا جو کنکشن کے ساتھ مفت ملتی تھی۔ ڈائریکٹری کا ہر سال نیا ایڈیشن شائع ہوتا تھا جو گھروں میں آنا لازم تھا۔ یہ ڈائریکٹری ٹیلیفون ایکسچینج جاکر، فون کا نیا بل دکھا کر لانی پڑتی تھی۔ کئی سال ہماری اماں اس کے لیے صبح صبح جلدی اٹھا کر بھیج دیتی تھیں کہ بیٹا خالی ہاتھ نہ پلٹنا۔ ڈائریکٹری لے کر ہی آنا۔ اگلے سال اس کی ردی اچھی بک جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:

انتخابی عمل سے عوام کی مایوسی، ووٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ سامنے آنے لگا

پندرہ دسمبر: آج اردو کے ممتاز شاعر ذی شان ساحل کا یوم ولادت ہے

تاہم معاشی فوائد کے علاوہ، اکثر گھروں میں ڈائریکٹری کا استعمال صرف اتنا ہوتا تھا کہ کسی بھی تپائی یا سائیڈ ٹیبل کے نیچے والا خانہ خالی نہ رہے اور مٹی براہ راست اس خانے پر نہ جمے بلکہ ڈائریکٹری پر جمے کیونکہ اس سے ایک تو میز گندی نہیں لگتی تھی اور دوسرا کمرا بھی بھرا بھرا محسوس ہوتا تھا۔

خدا گواہ ہے کہ اس ڈائریکٹری سے ہمیں تو کبھی کوئی نمبر نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ہم نے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ اولاً تو وہ بہت بھاری ہوتی تھی جس کا بوجھ اٹھانے سے ہماری نازک کلائی قاصر تھی اور اگر گود میں رکھ کر اس کے صفحے پلٹے جاتے تو آخری صفحات تک آتے آتے الٹ کرڈائریکٹری خود فرش پر جا گرتی تھی۔ فون کا استعمال ویسے بھی، سامنے والوں کی لڑکی کو دیکھنے کی طرح، ہمارے لیے ‘ممنوع’ تھا کیونکہ اس کے (فون کے) ڈائل پر تالا لگا ہوتا تھا جو اماں نے تین بار رانگ کالز کرتے ہوئے ہمیں پکڑنے کے بعد لگایا تھا۔

پاکستان میں اس ڈائریکٹری کی اشاعت کی سب بڑی حامی ‘پاکستان بیسن مینوفیکچررز ایسوسی ایشن’ تھی جس کے تیار کردہ بیسن سے بنے ہمہ اقسام کے پکوڑوں، سموسوں اور دیگر اشیاء کی گاہکوں تک باحفاظت اور باحرارت سپلائی میں ٹیلیفون ڈائریکٹری نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔

ڈائریکٹری کے مصری رقاصہ کے نقاب جیسے باریک ۔۔۔ پیلے، ہرے، گلابی اور نیم سفید کاغذ ۔۔۔ اوپر رکھے کتھئی پکوڑوں کو، جو آفاقی پس منظرعطا کرتے تھے، اس کا ادراک نیل آرمسٹرانگ کو چاند پر کھڑے ہوکر تمام کہکشائوں کو دیکھنے سے بھی نہیں ہوا ہوگا۔

رشوت کے رازوں سے بھرے گریڈ بائیس کے وفاقی سیکریٹری کے سینے کی طرح، ڈائریکٹری کا کاغذ اپنے بطن میں ہر پکوڑے کو اس طرح سمولیتا تھا کہ دور سے جرم کا کوئی نشان تک نہ ملتا تھا کہ حجم کتنا بڑا ہے۔ نوبیاہتا جوڑے اس بنا پر اپنے کمرے میں تازہ پکوڑے چھپا کر لے جانے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔

آئن اسٹائن کا طبعیات کا نظریہ اضافیت پیش کرکے، دنیا کو گمراہ کرنے کے باعث، کم عمری میں ہی انتقال نہ ہوجاتا تو وہ یقیناً ہماری پکوڑے کے نظریہ انفرادیت سے متعلق تحقیق سے بالکل متفق ہوتا جو کہتی ہے کہ دنیا میں ہرانسان کی انگلیوں کے نشانات، دانتوں کی بناوٹ اور آنکھوں کی پُتلی کی طرح، ہر پکوڑے کی شکل بھی الگ ہوتی ہے اور اس جیسا پکوڑا، نہ دنیا میں کبھی آیا تھا، نہ آیا ہے اور نہ آئے گا۔ پس دنیا کا ہر پکوڑا، منفرد ترین شناخت اور خصوصیات رکھتا ہے۔ افسوس ہوائے اجل آئن اسٹائن کو جلد اڑا لے گئی وگرنہ تم کو بھی ہم دکھلاتے مجنوں نے کیا کیا ۔۔۔ !

ADVERTISEMENT

اس زمانے میں اکثر ماہرینِ صحت کا یہ بھی خیال تھا کہ گرم پکوڑوں کو، ڈائریکٹری کے کاغذ پر لگی، پرنٹنگ پریس آف پاکستان کی سب سے گھٹیا کوالٹی کی سیاہی یعنی پرنٹنگ انک کے ساتھ ملا کر کھانے سے، پھر دیگر وٹامنز کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور یہ کامبی نیشن ناکافی غذائیت اور بدنظری کے تمام اثرات دور کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ اس کی کالک کا ٹیکا براہ راست معدے پر لگتا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ پکوڑے لیتے وقت جو حروف کاغذ پر واضح تھے، وہی حروف پکوڑے ختم ہونے کے بعد، محبوب کی آنکھ میں پھیلے کاجل کی طرح گڈمڈ کیوں ہوگئے تھے؟۔

تب، یعنی اس زمانے میں جب ابا کی تنخواہ میں گھر چل جاتا تھا ۔۔۔ عوام جوق در جوق، سیاہی کے مائیکرو نیوٹرینٹس کا فیض پانے کے لیے، دن کے کسی بھی حصے میں پکوڑوں والے کی ریڑھی کا دیوانہ وار رخ کرتے تھے اور سچی خوشی عطا کرنے والی قومی نعمت، کو ڈائریکٹری کی سیاہی مل مل کر اتارنے کے بعد، قلب و نظر روشن کرتے تھے۔

پاکستان کے تمام ریلوے اسٹیشنز پر دستیاب نان پکوڑے کا ملبوس یہی ڈائریکٹری مہیا کرتی تھی۔ ڈائریکٹری سے ایک صفحہ پھاڑنے کی کرکراتی ہوئی آواز پکوڑے کے پیسے پیشگی دینے والے پر وجد طاری کردیتی تھی کیونکہ تب تک اس کی ٹرین آگے کھسکنا، اور اس کے پائوں کے نیچے سے زمین پیچھے کھسکنا شروع ہوچکی ہوتی تھی۔

کسی بھی عیاش مرد کی طرح، ڈائریکٹری کا یہ کاغذ بھی، اپنی آغوش میں ہرنوع کی گرمی اور سرگرمی کو سمیٹنے کے لیے ہر لحظہ تیار ہوتا تھا، چاہے وہ پکوڑے کی گرمی ہو یا سموسے کی۔ فنگر فش ہو یا فرنچ فرائز۔ (اگر آپ فرنچ سے بدظن ہوئے ہیں تو اس لفظ کو مت پڑھیں اور آگے جائیں)۔

مگر افسوس ۔۔۔ ڈائریکٹری کے استعمال کا یہ طریقِ ملی زیادہ دن نہ جی سکا اور آئندہ سالوں میں قوم میں بے راہ روی بڑھ جانے کے باعث یہ چلن متروک ہوگیا۔ اب لوگ سیاہی سے قوت حاصل کرنے کا نہیں سوچتے، اس کے لیے سفیدی زیادہ مقبول ہوگئی ہے۔ البتہ کچھ روایت پسند، اخبار کی سیاہی کو متبادل کے طور پر آج تک استعمال کرکے اسلاف کا نام روشن کررہے ہیں۔
تاریخ کہتی ہے کہ پکوڑوں کے دہکتے رخساروں پر، سیاہی ملنے کی اس مثبت سرگرمی نے قومی دھارے اور ہم آہنگی کے فروغ میں برس ہا برس تک نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس رجحان کو اب ہم نے سیاست دانوں کے چہروں پر سیاہی ملنے سے بدل تو لیا ہے مگر باوجود کوششِ بسیار، ہنوز یہ عمل اتنا مقبول نہیں ہے۔ امید ہے کہ 2030ء تک اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز کی طرح ہم یہ ہدف بھی حاصل کرلیں گے۔

تب پکوڑے خریدنے کے لیے بلا تفریق رنگ و نسل، جنس و قبیلہ، فرقہ و مذہب، تمام محمود و ایاز، اکبری و اصغری ۔۔۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ۔۔۔ کڑھائی، تیل اور بیسن کا پکوڑوں میں ڈھل کر، مستی و بے خودی سے مرقع درویشانہ رقص جس استغراق اور انہماک سے دیکھا کرتے تھے، اس کی عہدِ حاضر میں مماثلت صرف اداکارہ نرگس کے فیصل آبادی اسٹیج پر شرربار رقص سے ہی ملتی ہے۔ (حرارت شاید مساوی ہو البتہ برہنگی میں پکوڑے کو معمولی سی سبقت حاصل ہے)۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

تیاری کے بعد، ڈائریکٹری کے کاغذ میں لپٹے، پکوڑے حاصل میں کرنے میں ہر خاص و عام، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اب چونکہ ڈائریکٹری چھپنی بند ہوگئی ہے، اس لیے ہم نے بازی لے جانے کے لیے پکوڑوں کی جگہ کرپشن کی طرف رخ کرلیا ہے تاکہ خون گرم رکھنے کا بہانہ ملتا رہے۔

مختصراً یہ کہ اگرآپ نے ٹیلیفون ڈائریکٹری پر رکھے گرم پکوڑوں کی دھیمی دھیمی عشق نما حرارت کو اپنی ہتھیلی پر محسوس کرکے، منہ میں آنے والے پانی اور محروم رہ جانے والے افراد کی آنکھوں میں حسد کی لہروں سے، دل میں پڑنے والی ٹھنڈک کا لطف کشید نہیں کیا ہے، تو آپ بلاشبہ ایک محروم انسان ہیں۔

بہرحال، آج کی نسل میں سے جن لوگوں نے یہ ڈائریکٹری نہیں دیکھی ہے، ان کی معلومات کے لیے یہ بے کار اطلاعات بھی پہنچادوں کہ کئی ہزار صفحات کی یہ ڈائریکٹری انگریزی حروف تہجی کی ترتیب میں مرتب ہوتی تھی۔ جس میں پہلا نام اے سے شروع ہوتا تھا۔ اگر آپ کے نام میں ڈبل اے ہے تو آپ اور پہلے آئیں گے اور اگر ٹرپل اے آتا ہے تو اور بھی پہلے۔ اگر آپ کے نام میں چار مرتبہ اے شروع میں ہی آتا تھا، تو یہ جھوٹ ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کسی ڈائریکٹری میں ایسا کوئی نام آج تک شائع نہیں ہوا۔

آمدم برسرِ مطلب، ٹیلی فون ڈائریکٹری اور پکوڑوں سے روحانیت کے فروغ پر ہماری اس عمیق تحقیق کا سبب یہ تھا کہ ایک بار ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان میں آفتاب اقبال نام کے کتنے لوگ ہیں اور وہ کون خوش قسمت ہیں، جو ہمارے ہم نام ہیں۔

ہر احمق کی طرح، ہمارا بھی خیال تھا کہ ہم ہی تو وہ راز ہیں سینہ کائنات میں جو واحد متکلم کی صورت میں، صرف ہمارے وجودِ پرُنورسے ہی فاش ہوا ہے، وگرنہ اور کہاں لالہ و گل میں یہ صورتیں نمایاں ہوسکتی ہیں بھلا۔ اکا دکا لوگ ہی ہوں گے جو یہ بارِعظیمت اٹھانے کے قابل ہوں گے۔

بہرحال، جو بھی اکا دکا ہوں، معلوم تو ہونا چاہیے کہ وہ عظمت کے مینار کہاں ایستادہ ہیں۔
پس اسی اسمی تفاخر کے ساتھ ہم نے آفتاب اقبالوں کو ڈائریکٹری میں تلاشنا شروع کیا اور پھر سوچیے کیا ہوا۔
ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ ہمارے قصرِ افتخار کی اینٹیں، ایک ایک کرکے سرکتی گئیں اور پھر، سات ہزار چھ سو بیالیس آفتاب اقبال ڈائریکٹری میں گننے تک، پورا محل ہی، دھڑام سے گرچکا تھا۔

صرف تیس منٹ میں، ہماری انفرادیت کی نائو آفتاب اقبالوں کے سیلاب میں ڈوب گئی تھی۔
ایک عام آدمی ہونے کا احساس کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پہلی بار ٹیلی فون ڈائریکٹری میں انگلیاں پھیر پھیر کر آفتاب اقبال شماری سے پتا چلا۔

اس دن معلوم ہوا کہ ہمارا نام ہرگز ہرگز کوئی خاص نام نہیں ہے جو کسی اور کی رسائی میں نہیں آیا۔
تب ہم پر یہ روح فرسا انکشاف بھی ہوا کہ اس ملک میں کم از کم 7642 مزید لوگ بھی موجود ہیں جو یہی نام بھی رکھتے ہیں اور ٹیلیفون کنکشن بھی۔

اس کے علاوہ، مزید ایسے بھی ہوں گے جن کو ہم جیسی ہی صورتحال کا سامنا ہوگا، یعنی اُن کے پاس صرف نام ہوگا، ٹیلی فون نہیں۔ کیونکہ ابھی جو کنکشن لگا تھا وہ تو ابا کے نام پر تھا۔

اس اندوہناک صورت حال میں دل کو خوش رکھنے کا واحد سہارا یہ سوچ تھی کہ اگر آفتاب اقبال 7642 ہیں تو رشید بیگ تو اس سے بھی دس گنا ہوں گے۔ یہ سوچ کر ہی کچھ اوسان بحال ہوئے تاہم رشید بیگ گننے کی ہم نے ہمت نہیں کی۔ یہی سوچا کہ وہ خود گن لے گا، ہمیں کیا!۔

ہم نے یہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ ابا اماں کو بھی نہیں کہ کہیں انہیں دکھ نہ ہو کہ ان کا بیٹا کتنا عام سا انسان ہے۔ اسی دکھ میں کہیں ابا اپنے نام والے ڈائریکٹری میں ڈھونڈنے بیٹھ گئے تو انہیں اور دکھ ہوگا۔ وجہ تو آپ جانے ہی ہوں گے اب تک اگر یہاں تک مضمون پڑھ لیا ہے۔

تو جناب آنجہانی راجیش کھنہ کی مانند، اِسی دکھ کو سینے میں دبائے، ہم جب میدانِ صحافت میں اترے تو ایک دن یہ نایاب خیال آیا کہ بھائی، اگر آفتاب اقبال 7642 ہیں تو پکوڑے سے ہی کچھ سیکھ لو جو ہر ایک الگ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر منفرد ہونا ہے تو اپنا نام احمد آفتاب رکھ لو۔ یہ عظیم الشان خیال جونہی وارد ہوا، اسی لمحے اسمبلی میں ارکان کی تنخواہوں کے بل کی طرح، بلا حیل و حجت منظور ہوگیا اوریوں ہم احمد آفتاب بن کر، ایک لمحے میں پھر سے عوام الخاص ہوگئے۔

پھر برسوں یہ دورنگی چلتی رہی۔ ہم تنخواہ آفتاب اقبال کے نام سے لیتے تھے اور تنخواہ کے لیے کام احمد آفتاب کے نام سے کرتے تھے۔ خطرہ اس وقت محسوس ہوا جب نکاح نامے پر دستخط کرنے تھے۔ وہاں ہم نے دانستاً قلمی نام ترک کردیا کہ اس سے مستقبل میں فساد کا اندیشہ تھا۔ یہ اور بات کہ اصل نام استعمال کرکے بھی فسادات کا راستا نہ رک سکا۔ آپ لوگ تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

اب مخمصہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمیں جانتے ہیں، ان میں سے آدھے آفتاب اقبال پکارتے ہیں اور آدھے احمد آفتاب۔ ویسے تو ہم اس بات کے قائل ہیں کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکارا جائے، وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ تاہم یہ بھی اچھی بات نہیں کہ گُل کو خار پکارا جائے اور کہا جائے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہے تو وہ گُل ہی نا۔

ابھی جنابِ من یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ ٹی وی پر ٹاک شوز شروع ہوگئے اور پھر ان میں ہمارے ایک ہم نام دیکھتے دیکھتے شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ شروع میں اپنے نام کو بار بار ٹی وی پر سننا بھلا لگا لیکن ایک بار کسی محفل میں یوں ہوا کہ جب نام سنتے ہی کچھ لوگ مشتعل ہوکر اس درجے تک آگئے کہ ٹی وی اسکرین دیکھ کر گالیاں بکنے لگے تو نہایت کوفت ہوئی۔ ایسا لگا جیسے لوگ ان کو دیکھ کر ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔ (بعد میں کچھ لوگوں نے اقرار کیا کہ جی ہاں، ایسا ہی تھا)۔

ابھی آج ہی ٹوئیٹر پر کسی نے ہمارے ہم نام کا ایک ٹوئیٹ لگایا اور پھر اس پر تبصرے کے لیے نہایت سخت الفاظ استعمال کیے تو یقین جانیے کہ دل غم سے اتنا بوجھل ہوگیا جتنا مملکت کا وجود قرضوں کے بوجھ سے ہے یعنی ناقابل برداشت۔
تو جناب ۔۔۔ دعا کریں کہ آپ کا کوئی ہم نام، اس مقام تک نہ پہنچے کہ سنگ تجھ پر گرے اور زخم آئے مجھے والی کیفیت ہو۔ آئندہ، کسی کا بھی نام رکھنے کے لیے چاہے ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں سے کوئی نام نکال لیں۔ اس طرح یہ امکانات کم ہوجائیں گے کہ یہاں اس نام کا کوئی دوسرا فرد بھی ہوگا۔

بالفرض اگر ہوگا بھی تو وہیں پر ہوگا۔ اگر گالیاں بھی پڑیں گی، تو کسی کو کیا پتا چلے گا ۔۔۔
یہاں کس کو ان کی زبان آتی ہے!
آپ کا مخلص
احمد آفتاب

Previous Post

انتخابی عمل سے عوام کی مایوسی، ووٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ سامنے آنے لگا

Next Post

سولہ دسمبر: جب جنرل نیازی نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے

احمد آفتاب

احمد آفتاب

احمد آفتاب اردو ادب کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے صحافت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ جلد ہی ان پر انکشاف ہوا کہ صحافت ان کے لیے اور وہ صحافت کے لیے نہیں، چناں چہ این جی او کی دنیا کے باسی بنے اور سماج سدھار شروع کر دی لیکن ان کی پرانی محبت یعنی ادب اور صحافت انھیں یاد آتی ہے تو قلم اٹھاتے ہیں اور قلم توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ان سے درج ذیل ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے awamnama@gmail.com

Next Post
سولہ دسمبر: جب جنرل نیازی نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے

سولہ دسمبر: جب جنرل نیازی نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے

محشر خیال

پروفیسر فتح محمد ملک کا آشیان
محشر خیال

پروفیسر فتح محمد ملک کا آشیاں

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ
محشر خیال

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ

میڈیا
محشر خیال

پاکستان میں میڈیا کا بحران

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
محشر خیال

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار

تبادلہ خیال

دہشت گردی
تبادلہ خیال

دہشت گردی کی آڑ میں درندگی

جمہوریت
تبادلہ خیال

پارٹی ٹکٹ اور جمہوریت کی تقدیر

امجد اسلام امجد
تبادلہ خیال

امجد اسلام امجد کے لیے

پرویز مشرف
تبادلہ خیال

مشرف جیسے کرداروں کی برائی کرنا قرآن سے ثابت ہے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions