یہ میرے دوست کی کہانی ہے۔ تقریباً دس سال پرانی۔
میں یہاں اس کا نام بدل رہا ہوں۔
آپ سمجھ لیں اس کا نام خالد ہے۔
تب خالد پاگل ہونے کے قریب تھا۔ اس کی زندگی بظاہر تباہ ہوچکی تھی۔ طلاق ہونے کے بعد، اس کی نوکری جا چکی تھی۔ وہ ہر ایک کو وضاحتیں دے دے کر تھک گیا تھا کہ آخر اس کی زندگی، ریت کی طرح، اس کی مٹھی سے کیوں پھسلتی چلی گئی تھی ۔۔۔ اور وہ کچھ نہیں کرپایا تھا۔
اب ہر ایک اس سے خفا تھا ۔۔۔ اور وہ سب سے ڈرتا تھا۔
وہ سکون کی بے تحاشا دوائیں کھاتا تھا پھر بھی رات رات بھر جاگتا تھا اور کمرے میں بند پڑا رہتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ گلا پھاڑ کر چیخے، چلائے، چیزیں توڑ ڈالے اور چھت سے کود کر مرجائے۔ مگر اس سے یہ بھی نہیں ہوپاتا تھا۔
پھر ایک دن میں نے تنگ آکر اسے کال کی تھی اور صرف اتنا کہا تھا۔
‘خالد ۔۔۔ شٹ اپ یار ۔۔۔بکواس بند کرو اور کال پِک کرو’۔
‘کیا مطلب ۔۔۔ کون سی کال؟’۔وہ حیرت سے بولا تھا۔ ‘میں تم سے بات تو کررہا ہوں’۔
‘مجھ سے نہیں ایڈیٹ ۔۔ اپنے آپ سے بات کرو۔ اپنی کال اٹھائو’۔
میں نے فون بند کردیا مگر چند سیکنڈ میں ہی اس کا فون پھر آگیا تھا۔
‘پلیز احمد آفتاب ۔۔۔ مجھے سمجھائو تم کیا کہہ رہے ہو۔ میری کون سی کال ہے’۔
اور تب مجھے معلوم تھا کہ میرا کام شروع ہوگیا ہے۔
پھر خالد نے میری بات کو سنجیدگی سے سنا اور آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو بدلنا شروع کیا۔ آج دس سال بعد آپ اسے دیکھ کر یقین نہیں کرسکتے کہ یہ وہی شخص ہے جو چھت سے کود کر مرجانا چاہتا تھا۔ اب اس کی زندگی اتنی بدل چکی ہے کہ صرف دس سال میں وہ:
• طلاق کے بعد ہونے والی ذہنی اذیت اور احساسِ کم تری سے چھٹکارا پاچکا ہے۔
• ڈائیٹ پر سختی سے عمل کرتا ہے۔
• اپنے بیشتر قرضے اتار چکا ہے۔
• اپنی زندگی اور سوچوں میں پھیلے انتشار کو بڑی حد تک کم کرچکا ہے۔
• اہم رشتوں کوزیادہ مضبوط بنا چکا ہے۔
• اپنی ذات اور سوچ کی خامیوں کو پہچانتا ہے اور انہیں ختم کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔
• اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرچکا ہے اور اب اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
• اور سب سے بڑھ کر، زندہ رہنے کا مطلب جان چکا ہے اور ہر لمحہ جی رہا ہے۔
خالد نے یہ تمام تبدیلیاں پلان نہیں کی تھیں مگر پھر سب کچھ خودبخود ہوتا چلا گیا تھا۔ جیسے ڈومینو گرتے چلے جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک۔ اسی طرح اس کے مسئلے بھی ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اس کے بعد زندگی میں آنے والی ہر نئی تبدیلی نے ۔۔۔ اگلی تبدیلی کا راستا خود ہموار کیا تھا ۔۔۔ اور اسے حوصلہ دیا تھا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ۔۔۔ خالد کی آنکھیں کھول دینے والی ۔۔۔ ویک اپ کال کون سی تھی ۔۔۔جو بعد میں اس کی پوری زندگی بدل گئی تھی؟۔
تو درحقیقت وہ ویک اپ کال ۔۔۔ اندر کی آواز سننے کے بارے میں تھی۔
میں نے اسے بتایا تھا کہ وہ ۔۔۔ تمام پریشانیاں اور دشواریاں ۔۔۔ جن سے وہ آج تک لڑتا رہا ہے ۔۔۔ خود کو ان کی وجہ سے زخمی کرتا رہا ہے ۔۔۔ ان میں سے بیشتر تصوراتی ہیں ۔۔۔
بالکل فرضی ۔۔۔
جن کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اور اسے اپنے اندر سے اٹھنے والی ویک اپ کال کو پکِ کرنے کی ضرورت ہے۔
میری بات سن کر وہ بھی حیران رہ گیا تھا۔
اس نے آج تک ایسا نہیں سوچا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ اس کے سارے مسائل حقیقی ہیں۔ لیکن میری صرف چند منٹ کی باتوں میں، اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ تو صرف مفروضات پر ہی اپنی ساری توانائیاں ضائع کرتا آیا ہے۔
میں نے خالد سے کہا تھا کہ اگر مسئلے حل کرنے ہیں تو اپنے اندر کی بات سنو۔ من کی بات سنو۔ سب سے سچی اور کھری بات پر کان لگائو۔
میں نے اس سے پوچھا۔
‘کیا تم نے کبھی اندر کی آواز سنی ہے؟۔ ۔۔۔ اپنی آواز۔۔۔۔ اپنی ویک اپ کال!’۔
‘وہ آواز جو ہمیشہ سے تمہیں پکار رہی تھی مگر تم نے کبھی اس آواز کو نہیں سنا تھا’۔
وہ چند لمحے چپ رہا اور پھر ہنسنے لگا تھا۔
بے تحاشا۔ بہت زور زور سے ۔۔۔مجھے فون کو کان سے دور کرنا پڑا۔
میری باتیں سن کر ۔۔ اچانک اس کی نظر کے سامنے سے ۔۔۔جیسے دھویں کی طرح ۔۔۔ بہت سی پریشانیاں غائب ہوگئی تھیں۔
وہ آزاد ہوگیا تھا۔
میں نے اسے بتایا کہ ۔۔۔ اس کی زندگی کا اصل مسئلہ ۔۔۔ پریشانیاں نہیں ہیں ۔۔۔ بلکہ یہ ناکامی ہے کہ وہ ۔۔۔ مسائل کے دبائو سے ۔۔۔ درست انداز میں نہیں نمٹ رہا ہے ۔۔۔ وہ زندگی کے دباؤ کو مؤثر طریقے سے نہیں سنبھال رہا ہے ۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کا جسم اور ذہن کمزور ہورہے ہیں۔
زندگی کو دیکھنے کا یہ انداز اسے پتا نہیں تھا۔
اب آنکھیں کھلیں تو نئی سوچ نے اسے بہت سے مسائل کا حل بھی پلک جھپکتے میں سمجھا دیا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ خالد کو اس سے پہلے ویک اپ کالز نہیں ملی تھیں۔
وہ میرا دوست تھا۔ میں اسے برسوں سے جانتا تھا۔
مجھے پتا تھا کہ یہ کالز اس کی طرف پہلے بھی آئی تھیں مگر تب وہ بہت مصروف تھا اور اس کی توجہ کسی اور طرف تھی۔
شاید کسی تصوراتی مسئلے کی طرف، جو کہیں نہیں تھا۔۔۔ مگر پھر بھی اس کی زندگی گھیرے ہوئے تھا۔
اب اس نے اپنی ویک اپ کال پکِ کی تو اندر کی آواز نے لمحے بھر میں وہ آئینہ ہی توڑ ڈالا تھا جو رائی کو پہاڑ دکھاتا تھا۔
اس کے مسائل کے پہاڑ جیسے پلک جھپکتے میں، ہوا میں گرد بن کر اڑ گئے تھے۔
آج آپ کو یہ بات سنانے کا مقصد یہی ہے کہ اب ہم میں سے بہت سے لوگوں کو خالد جیسے مسئلے کا سامنا ہے۔
ہم اپنی ویک اپ کال نہیں اٹھا رہے ہیں۔
ہم من کی بات نہیں سن رہے۔
اندر کی آواز پر توجہ نہیں دے رہے۔
کاش کوئی ہمیں کہہ دے کہ ۔۔۔ شٹ اپ یار ۔۔کال اٹھائو۔
اپنی آواز سنو۔
دیکھو تو سہی ۔۔۔ کوئی تمہارے اندر کیا کہہ رہا ہے۔
یقین جانیں ۔۔۔ ایک بار آپ نے وہ کال اٹھالی تو پھر کچھ اور سننا اچھا نہیں لگے گا۔
من کی آواز ہمیں صاف اور واضح بتاتی ہے کہ زندگی بہتر بنانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔
اب اہم بات یہ ہے کہ ۔۔۔ ہم کیا کریں کہ اپنی زندگی میں سے ۔۔۔ وہ پرسکون وقت نکال لیں ۔۔۔ جو اندر کی بات سننے کے لیے ضروری ہے۔
جیسا کہ ایک بار جب خالد نے اپنی اندر کی آواز سننے کے لیے تھوڑا وقت نکالا اور مصروفیات میں جگہ بنائی ۔۔۔ تاکہ غور سے سن سکے ۔۔۔ تو پھر اس کے لیے سب کچھ بدلنا، بہت آسان ۔۔۔ بہت دلچسپ ہوگیا۔
لیکن ہم ایسا کیا کریں کہ زندگی کی افراتفری میں سے ۔۔۔ وہ لمحے اور مقام ڈھونڈ لیں ۔۔۔ جہاں اپنے اندر کی آواز صاف سنائی دے۔
خالد کی کامیابی یہ تھی کہ جیسے جیسے اس کے لیے اپنے من کی بات کو سننا آسان ہوتا گیا۔ ویسے ویسے وہ ان چیزوں اور لوگوں کو خوبصورتی سے چھوڑنے کے قابل ہوتا گیا جو اس کے لیے نہیں تھیں۔ اب وہ سیکھتا جارہا تھا کہ زندگی میں واقعی اُسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں۔
کون سا انسان ضروری ہے اور کون غیر ضروری۔
کسے زندگی میں ہونا چاہیے اور کسے بھاپ بن کر اُڑ جانا چاہیے۔
ویک اپ کال نے اسے سکھادیا تھا کہ وہ اپنے پاس دستیاب بہتر آپشنز کو کیسے استعمال کرے۔ کیسے اچھا انتخاب کرے۔
اب تک وہ بھول گیا تھا کہ اس کے پاس ۔۔۔ ہمیشہ سے ۔۔ انتخاب کا راستا تھا ۔۔۔ وہ چھوڑ سکتا تھا۔
بہت سی باتوں کو ۔۔۔ یادوں کو ۔۔۔۔لوگوں کو ۔۔ اذیتوں کو ۔۔۔
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے آپشن نہیں پہچانے تھے اور آٹو پائلٹ پر چلتا رہا تھا۔
مگر اس کی وجہ سے خالد کا سفر دشوار ہوتا گیا کیونکہ بوجھ بڑھتا گیا تھا۔
چلتے چلتے اس کے کندھے شل ہو گئے تھے مگر اسے پتا ہی نہیں چل پارہا تھا کہ وہ کیا ہے جو اسے کچل رہا ہے۔
چھوڑ دینا ۔۔۔ اگے بڑھ جانا ۔۔۔ اس کے لیے ضروری تھا۔
مگر اسے اس بات کی اہمیت کا احساس تب تک نہیں ہوا تھا جب تک اس نے برسوں بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ پھر جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے کاندھوں پر رکھی اذیتوں کی گٹھڑی کو تو بہت پہلے ہی کہیں اتار پھینکنی چاہیے تھی۔ چھوڑ دینے کا ۔۔۔ اتار پھینکنے کا آپشن تو ہمیشہ سے اس کے پاس تھا مگر وہ جانتا نہ تھا۔
وہ ہنس پڑا۔
اگر اسے معلوم ہوتا کہ خود کو خوش رکھنا، ہلکا کرنا اور مصروف رکھنا ۔۔۔ اتنا آسان ہے تو وہ ہرگز دس سال ضائع نہ کرتا۔
اب آپ بھی سوچیں ذرا ۔۔۔
میری یہ تحریر ۔۔۔ کہیں آپ کی بھی ۔۔۔ ویک اپ کال تو نہیں ہے؟
اگر آپ نے ۔۔۔ آج کے دن ۔۔۔ کسی لمحے پر ۔۔۔ یہ سوچا تھا کہ ۔۔۔ یار یہ کام نہیں چل رہا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔۔ یا ۔۔۔ ان چیزوں کو بدلنا ہوگا ۔۔۔
تو سمجھ لیں کہ آپ کی ویک اپ کال کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
یہ خیالات اور الفاظ آپ کی ویک اپ کالنگ ہے۔
اس کال کو اٹھائیں اور جواب دیں۔
انکھیں کھولنے اور جاگنے کے لیے آپ کو کسی سائکالوجسٹ کی تشخیص یا بڑے بحران کی ضرورت نہیں ہے۔
کسی کو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کے مسائل کیا ہیں ۔۔۔
کیونکہ آپ کو پہلے سے ہی یہ پتا ہے اور آپ کے اندر کی آواز آپ کو بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن اگر آپ کو ۔۔ یہ آواز سننے کے لیے ۔۔۔ وقت اور جگہ تلاش کرنے میں مشکل ہورہی ہے۔۔۔ تو شاید آپ ان حالات میں سے کسی ایک سے ضرور گزر رہے ہیں ۔۔۔ جن سے خالد کبھی گزر رہا تھا۔
اگر ایسا ہے تو یہ سوچیں کہ کیا آپ کی زندگی آٹو پائلٹ پر ہے؟۔
خود کار چل رہی ہے؟۔ ڈرائیور لیس کار کی طرح پروگرامڈ ہے جو بے حس ہوتی ہے اور رستے کا لطف نہیں لیتی؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر میری یہ تحریر ۔۔۔ آپ کی ویک اپ کال ہے۔
اگر آپ نے کبھی خود کو ترجیح نہیں دی ہے اور اپنے آپ کو نظرانداز کیا ہے ۔۔۔ تو یہ آپ کی ویک اپ کال ہے۔
اگر آپ ایسا شخص بن گئے ہیں جو محض دوسروں کو خوش کرنے یا کامیابی کے کسی مستعار تصور کا پیچھا کرنے میں مصروف ہے ۔۔۔ تو یہ آپ کی ویک اپ کال ہے۔
اگر آپ بہت زیادہ ہوٹلنگ، شاپنگ، پارٹیز، نشے، فاسٹ ڈرائیونگ، ٹی وی اور سیکس کے باوجود خوش نہیں ہیں اور جمود کے شکار ہیں ۔۔۔ تو یہ آپ کی ویک اپ کال ہے۔
اگر آپ نڈھال ہیں، خوف زدہ ہیں، ان دیکھے، انجانے دباؤ میں ہیں، اور خود کو مکمل طور پر برباد سمجھتے ہیں ۔۔۔ تو یہ آپ کی ویک اپ کال ہے۔
ویک اپ کال سننا ہرگز مشکل نہیں ہے ۔۔۔ مگر اس کا جواب دینا مشکل ہے۔
ہمیں اپنی کال کا جواب دینا ہوگا۔
کال نظر انداز کرنے کے بجائے ۔۔۔ جواب دینے کا آپشن منتخب کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ آپشن ہمیں لینا ہوگا۔
ہمیں اپنے درد کو مٹانے ۔۔۔ خوف کو ختم کرنے ۔۔۔ ٹالنےکی عادت چھوڑنے ۔۔۔ ڈستے رشتے ٹھیک کرنے ۔۔۔ روح کی الجھنوں کو دور کرنے ۔۔۔ اور زندگی اور کیریئر میں مستقل ترقی کے لیے ۔۔۔ سائنسی طور پر ثابت شدہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔
ہمیں پڑھنا ہے کہ گٹھڑیوں کو کیسے اتار پھینکا جائے۔
ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اپنے آپشنز کیسے بہتر طور پر استعمال کریں۔
ہمیں اندر کی آواز سننے کے لیے وقت اور جگہ بنانی ہوگی۔
ہمیں اپنی ویک اپ کال کو پکِ کرنا ہوگا۔
تاکہ زندہ رہ سکیں!