بچپن میں ،کسی جادوئی کہانی میں، ایسی بلا کا ذکر پڑھا تھا جس کا سر ہر روز کاٹا جاتا تھا مگر اگلی صبح پھر اس کا نیا سر پیدا ہوجاتا تھا۔
یہ بلا ہر روز حملہ آور ہوتی تھی اور ہر روز بہادر شہزادہ اس کا سر قلم کرکے سرخرو ہوتا تھا۔مجھے کیا خبر تھی کہ بڑے ہوکر، میرا واسطہ بھی کسی نہ کسی دن ایسی ہی بلا سے پڑنے والا ہے جس کا سر روز توکٹے گا مگر وہ مرے گی نہیں اور تھوڑی ہی دیر میں، پھر سے زندہ ہوکر ہمارے سامنے آکھڑی ہوگی۔
میں گزشتہ چار مہینوں سے، ایسی جنگ کا حصہ ہوں، جو کسی دیومالائی داستان کی طرح ہر رات ختم ہوتی ہے مگر اگلے دن کا سورج ابھرنے کے ساتھ پھر سےشروع ہو جاتی ہے۔ ہر روز گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ فوجیں صف آرا ہوتی ہیں۔ دنیا کی سب سے پرانی جنگ کے فریق سامنے آتے ہیں اور ہر شام یوں لگتا ہے جیسے آج تو لازماً شکست ہوجائے گی اور ہم جنگ ہار جائیں گے۔ مقابلہ بہت کڑا ہوتا ہے اور اسباب بہت کم۔ جیت کی کوئی امید نہیں نظر آتی۔
لیکن پھر خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ کہیں سے اچانک، بے سبب و غیرمتوقع طور پر کوئی غیبی مدد نمودار ہوتی ہے اور پلک جھپکتے میں کھیل پلٹ جاتا ہے۔ سامنے نظر آنے والی شکست لمحے بھر میں فتح میں بدل جاتی ہے اور یوں ہم ایک ایک دن کرکے یہ جنگ جیتتے چلے جاتے ہیں۔ چار مہینے سے یہی معرکہ آرائی جاری ہے۔
یہ جنگ بھوک کے خلاف ہورہی ہے۔
میں کراچی کے پس ماندہ علاقے اورنگی ٹائون میں چار مہینوں سے چلنے والے، ایک دسترخوان کا انتظام کرنے والے دیوانوں کے گروہ کا حصہ ہوں جو اخلاص کی ڈھال اور جذبے کی تلوار سے بھوک کی بلا کا سر روز قلم کرتے ہیں۔ وہ ہر رات میدان میں اترتے ہیں اور ہر دن نئی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں مگر بلا کے سامنے ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
یقین جانیں،اورنگی ٹائون کراچی میں، ہر روز 100 لوگوں کے لیے دسترخوان لگانے کی بظاہر عام سی کوشش کسی دیومالائی جنگ سے کم نہیں ہے۔
مثال کے طور پر، یہ دسترخوان ہر شام منعقد ہوتا ہے اور اس کے لیے ہر روز ساڑھے چھ ہزار روپے کا بندوبست ضروری ہوتا ہے تاکہ وہاں آنے والوں کو ایک وقت کا کھانا دیا جاسکے۔ یہ ساڑھے چھ ہزار روپے کہاں سے آئیں گے۔ کون دے گا۔ کسی کو پتا نہیں ہوتا۔ پھر بھی خدا کی طرف سے نیت کا پھل ملتا ہے اور ہر شام جتنے بھی لوگ آتے ہیں، سب کو اپنی ضرورت کے مطابق مفت کھانا مل جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی بندہ خدا وسیلہ بن کر سامنے آہی جاتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں۔ اس کام میں کون سی خاص بات ہے۔ 100 لوگوں کو کھانا دینا کیا بڑی بات ہے۔
آپ کی بات درست ہے۔
بظاہر یہ بہت چھوٹا سا کام ہے۔ کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں ایک سو لوگوں کو کھانا کھلانا کیا معنی رکھتا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ اور یہ بات ہمیں بھی پتا ہے۔
لیکن یہ عمل ان سو لوگوں کے لیے بہت معنی رکھتا ہے جو وہاں روز آتے ہیں اور دن کا واحد کھانا کھاتے ہیں۔
جی ہاں ۔ ان میں سے کئی ایسے بچے، عورتیں، بوڑھے، معذور اور خواجہ سرا ہیں جن کو اگر اس دسترخوان سے کھانا نہ ملے تو وہ پورا دن میں کچھ بھی نہ کھاسکیں۔ متعدد بیوائیں جن کا آمدنی کا کوئی آسرا نہیں ہے، اس دسترخوان کے لیے اپنے بچے شام ڈھلتے ہی بھیج دیتی ہیں تاکہ وہ وہاں سے پورے گھرانے کے لیے کھانا بندھوا کر لے آئیں۔ چھوٹے چھوٹے یہ بچے، کئی کئی میل پیدل چل کر آتے ہیں۔ تین تین، چار چار کی ٹولیوں میں وہ دسترخوان تک پہنچتے ہیں کیونکہ راستے اندھیرے اور سنسان ہوتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں۔ پھر اپنی سالن روٹیوں کی تھیلی ملتے ہی، وہ تیز تیز قدموں سے لوٹ جاتے ہیں تاکہ جلدی سے گھر پہنچ کر محفوظ بھی رہیں اور گھر میں موجود بھوکے گھر والوں کا پیٹ بھی بھر سکیں جو ان کے منتظر ہوتے ہیں۔
کھانے کی دیگ کا انتظام گھنٹوں میں ہوتا ہے اور منٹوں میں وہ صاف ہوجاتی ہے۔ ہر رات پندرہ سے بیس منٹ میں یہ جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ کھانا کھا کر یا تھیلیوں میں لے کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد دسترخوان چلانے والے اگلے دن کے معرکے کے لیے، خود کو پھر سے تیار کرنا شروع کردیتے ہیں۔
اس دسترخوان کے پیچھے، کراچی کے دو میاں بیوی ہیں جو اگرچہ پچھلے بیس سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں مگر ان کا دل پاکستان میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ اکرام قریشی اور ان کی اہلیہ شازیہ فاروقی اس دسترخوان کے لیے کینیڈا اور امریکا میں مقیم پاکستانیوں سے اپیلیں کررہے ہیں۔ انہیں سمجھا رہے ہیں۔ لوگوں کو قائل کرکے چھوٹے چھوٹے فنڈز جمع کررہے ہیں اور یوں دن رات ایک کرکے اس فیض کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ اورنگی ٹائون کے ایک محنت کش کی فیملی ہے جو اپنے کچے گھر سے رضاکارانہ طور پر یہ دسترخوان چلاتی ہے۔
شازیہ فاروقی کا کینیڈا میں موجود پاکستانی خواتین سے گہرا رابطہ ہے اور ان خواتین ہی کی بدولت، کراچی میں اس دسترخوان کے علاوہ درجنوں لوگوں کی بھی خاموشی سے مدد ہوچکی ہے۔ شازیہ پچھلے مہینے لیاری میں بھی دوسرا دسترخوان شروع کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستان سے بہت زیادہ مدد کی اپیلیں مل رہی ہیں اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہمیں خود میدان میں اترنا پڑا ہے۔ اب انہوں نے کینیڈا، امریکا اور پاکستان میں اپنی ساری بہنوں، بھائیوں، سسرال والوں، کلاس فیلوز اور محلے داروں تک کو اس کام میں شامل کرلیا ہے جس پر سب بہت خوش ہیں۔
ان میاں بیوی نے لوگوں کو نیکی کی ترغیب دینے کا نیا راستا ڈھونڈا ہے۔
اب وہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ کینیڈا و امریکا میں بڑی بڑی پرتعیش دعوتوں، شادیوں اور برتھ ڈے پارٹیز پر ہزاروں ڈالرز خرچ کرنے کے بجائے، وہ یہ پیسے نیکی اور فلاح کے کاموں میں خرچ کریں۔ وہ لوگوں کو دسترخوان میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ خدا نے ان کی زبان میں ایسی تاثیر رکھ دی ہے کہ یہ تجویز اب زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتی جارہی ہے اور ان کی ترغیب کی بدولت، اب کینیڈا اور امریکا میں مقیم کئی پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی سالگرہ اور ولیمے کے پیسے تک دسترخوان کے لیے عطیہ کررہے ہیں تاکہ غریبوں کو کھانا کھلایا جاسکے۔
میں چاہوں تو اس چھوٹی سی کاوش کے بارے میں ہزاروں الفاظ کی پوسٹ لکھ سکتا ہوں کیونکہ میرے پاس اس حوالے سے اتنی کہانیاں ہیں کہ آپ پڑھ پڑھ کر تھک جائیں گے مگر کہانیاں ختم نہیں ہوں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر ہاتھ میں پکڑی ہوئی روٹی کی تھیلی اور سالن ایک کہانی ہے جس کو اگر آپ دردمندی سے سُن لیں تو اپنے آنسو نہیں روک پائیں گے۔
برائے رابطہ: awamnama@gmail.com