دوستو!
آج سب نے معذوروں کا عالمی دن منایا ہے۔
میں نے سوچا، میں بھی ایک چھوٹی سی کہانی سنادوں۔
آپ جانتے ہیں کہ میں نے جتنی بھی ابلاغ کے دشت کی خاک چھانی ہے، اس تجربےسے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ بہتری کی طرف لوگوں کی زندگیاں بدلیں۔
ان دنوں یہی شوق مجھے ایک نئی راہ پر لے گیا ہے۔
میں ان دنوں ہنرمند گھریلو خواتین کے لیے روزگار کی فراہمی کے ایک کام سے وابستہ ہوں جس میں دوردراز مقامات کے ٹوٹے پھوٹے، کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہنے والی باصلاحیت مگر غریب عورتوں کی دستکاری اشیاء کو انٹرنیٹ کے ذریعے فروخت کیا جارہا ہے تاکہ ان غریب عورتوں کو مڈل مین یا آڑھتی کے استحصال سے نجات ملے اور وہ گھر بیٹھے خود پیسے کما کر اپنی محنت کی جائز کمائی پاسکیں۔
میں اس کام کے لیے کئی دیہاتوں کی طرف گیا ہوں۔ یقین جانیے، کورونا نے وہاں تباہی مچادی ہے۔
میں کچے پکے راستوں سے چلتا ہوا، نیم تاریک افلاس زدہ کمروں میں زمین پر بیٹھا ہوں۔ میں نے وہاں جھریوں زدہ، سوکھے ہاتھوں کو تیزی سے چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ کبھی میرے ساتھ چل کر، وہاں بیٹھی عورت کے بے تابی سے تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھیں تو دل پر شکنیں پڑتی محسوس کریں گے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ سوئیاں کپڑے میں نہیں بلکہ دل میں کھُب رہی ہیں۔
وہاں بیٹھی عورت کی انگلیوں میں پکڑی سوئی، پروئے ہوئے دھاگے کو جلدی جلدی کپڑے میں اتارتی ہے اور پھر دوسری طرف سے نکالتی ہے کہ کسی طرح ایک کام ختم ہو تو وہ اسے آگے دے کر پیسے لے۔ ان میں سے ہر عورت وقت سے جنگ کرتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ خدا کرے آج سورج دیر سے ڈوبے تاکہ وہ روشنی میں دیر تک کام کرسکے مگر رات کا عفریت اس کی ساری دعائیں ہر روز نگل جاتا ہے۔ یہ عورتیں دن کے پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتی ہیں۔ جھلنگا سی چارپائیوں پر، ان کی اپنی کمریں خم کھا جاتی ہیں۔ کئی ایک کو تو قریب سے نظر بھی نہیں آتا تو وہ کپڑے کو تقریباً پلکوں سے لگا کر، دو انچ فاصلے سے کپڑا سیتی ہیں۔ غربت کا کوڑا، ان کی پشت پر لمحہ لمحہ برستا ہے اور چلاتا ہے کہ سوئی کی رفتار تیز ہو مگر ہر روز یہ عورتیں ہزار تازیانے کھا کر بھی ہار جاتی ہیں۔
آج معذوروں کا دن ہے تو میں آپ کو ان ہی میں سے ایک بہادر خاتون سے ملاتا ہوں۔
یہ شیزا ہیں جو اوکاڑہ کے گائوں سات ایل میں رہتی ہیں۔ کسی اعصابی مرض کی وجہ سے چار سال پہلے معذور ہونا شروع ہوئی تھیں تو شوہر نے گھر سے نکال دیا۔ اب چلنے پھرنے سے مکمل قاصر ہیں۔ ایک دس سال کا بیٹا اور بوڑھی ماں ہے، جس کے ساتھ گائوں کے کچے گھر میں رہتی ہیں۔ ماں گھروں میں کام کرکے کچھ پیسے کماتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آمدنی نہیں لہٰذا گھر میں غربت کی گہری چھاپ ہے۔
شیزا کو ایک مقامی سماجی کارکن آسیہ بی بی نے کروشیا کا کام سکھا دیا تھا۔ اب وہ گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے بیٹھے، کروشیا بُنتی رہتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بناتی رہتی ہیں۔ آسیہ بی بی ہی یہ چیزیں کسی نہ کسی طرح بکوا دیتی ہیں اور جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے سامان وغیرہ خرید کر لاتی ہیں تاکہ شیزا کا گھر چلتا رہے اور وہ کام کرتی رہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ شیزا کے کام میں زیادہ نفاست نہیں۔ بضلا کیسے آئے۔ گائوں میں کون سا ایسا ٹریننگ سنٹر یا دستکاری مرکز ہے جو اس کو انٹرنیشنل کوالٹی اسٹینڈرڈ پر کام کے لیے تیار کرے۔ وہاں تو ایک آسیہ بی بی ہے اور ایک شیزا ہے اور ان دونوں کا رشتہ ہے جو کشاں کشاں انہیں مشقت کی گاڑی میں باندھ کر لیے چلا جارہا ہے۔
لیکن اب ان دونوں کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے چیزیں نہیں بک رہی ہیں اور گھر میں ہی جمع ہورہی ہیں۔ گھر میں ان پر مٹی پڑرہی ہے اور نمی سے رنگ خراب ہورہے ہیں۔ گھر میں کوئی الماری نہیں جن میں یہ چیزیں رکھ کر محفوظ کی جاسکیں اس لیے پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر پوٹلیاں بنا کر ادھر ادھر کونوں میں رکھی ہیں کہ شاید کوئی فروخت کا آسرا نکل آئے مگر اوکاڑہ سات ایل کی طرف کون جاتا ہے۔ کسے پڑی ہے کہ وہاں جاکر آسیہ بی بی اور شیزا کی جنگ میں کودے۔ کون چاہتا ہے کہ دو عورتوں کی اس کہانی کو سمجھے بھی جو دونوں ہی غریب ہیں مگر پھر بھی ایک عجیب سے رشتے میں یوں پروئی ہوئی ہیں جیسے سوئی میں دھاگا۔ ایک آگے چلتا ہے تو دوسرا خودبخود کھنچا چلا آتاہے۔
شیزا کے کروشیا کا ہر ٹانکا ایک خواب ہے جو وہ بُنتی چلی جارہی ہے۔ خدا جانے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر کب ملے گی۔ ملے گی بھی یا نہیں۔ کون جانتا ہے۔ ابھی تو وہ لاچار اپنی چارپائی پر پڑی، وہ رنگ برنگے خواب بہت سستی قیمت پر بیچ رہی ہے۔ ویڈیو کے ساتھ جو کروشیا کا سیٹ ہے، وہ تیز تیز سلائیاں چلا کر تین دن میں بنادیتی ہے اور صرف چھ سو روپے میں بیچ رہی ہے۔ مہینے میں ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزیں بنا کر وہ تین سے چار ہزار روپے کما لیتی ہے جو صرف اتنے ہی کافی ہیں کہ دو وقت کی روٹی مل جائے اور کسی شوربے میں ڈبو کر کھالی جائے۔ اس کے علاوہ یہ کمائی کچھ اور نہیں کرپاتی شیزا کے لیے۔
ہماری کوشش ہے کہ شیزا کی چیزیں زیادہ فروخت ہوجائیں لیکن کون خریدے گا۔ برانڈ پرستی خدا بن کر سب کو اپنے سامنے جھکارہی ہے۔ بڑے نام کے درشن میں مرد اور عورتیں چھوٹے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک معذور کی بنائی چیز کی قدر کس کو بھلا۔
ہم چاہتے ہیں کہ شیزا کو اتنا وقت ملے کہ وہ پوری نیند لے سکے تاکہ کچھ خواب دیکھ لے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب وہ مزید خواب دیکھنے سے بھی ڈرتی ہے۔ کیونکہ جو خواب اس نے پہلے دیکھے تھے، ان کی تعبیر بہت تلخ نکلی ہے۔ شیزا سے بات کریں تو اس کے پاس زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ بیٹھے بیٹھے سے گلے میں وہ چند لفظ بول کر رک جاتی ہے۔ پھر جملہ درمیان میں ہی گم ہوجاتا ہے۔ وہ ڈر جاتی ہے کہ کہیں جملہ پورا ہونے سے کچھ ہو تو نہیں جائے گا۔ کہیں اسے ڈانٹ تو نہیں پڑے گی۔
اس کی آنکھیں اندھیرے کمرے میں سوئی اور سلائی پر مستقل جمے رہنے سے سوج گئی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ موٹی موٹی آنکھیں پر دیر تک پلک نہیں جھپکتی۔ آنکھیں کھلی رکھنے کی اسے شاید عادت ہوگئی ہے۔ آنکھیں بند ہوں تو ان میں خواب در آئیں۔ یہ لگژری مگر اس کی قسمت میں نہیں۔ ابھی تو اس کی جاگتی آنکھوں کے خواب بہت ارزاں بک رہے ہیں۔ دعا کریں کوئی سبیل پیدا ہو کہ اسے اپنے خواب نہ بیچنے پڑیں۔ ایسے ہی جیسے میں اور آپ اپنے خواب، اپنی پلکوں پر ہی رکھتے ہیں سجا کر۔
ہوسکتا ہے آج میری تلخ نوائی کچھ زیادہ ہو۔ مگر آج درد کھ دل میں سوا ہوتا ہے۔ آج گراں باریِ ایام سے بوجھل وہ پلکیں زیادہ یاد آئی ہیں۔
خدا کرے ان پر شب و روز جلد ہلکے ہوجائیں۔ آمین ۔۔۔ کیونکہ ہم اس قبیلے کے لوگ ہیں جو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ۔۔۔
اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
خیمہِ خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے ،رُت بدلنی تو ہے
کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے
عالمی یومِ معذوران کی آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔۔۔