ہمارا گھر جو ابھی ایک کچے کوٹھے پر مشتمل تھا اور حالت ایسی کے زرا سی ہوا چلتی تو جھولنے لگتا آندھی اور بارش کے موسم میں اماں خالد بھائی کو اپنی گود میں دوپٹے کے نیچے چھپا لیتی ناصر اور میرے بارے میں اماں کا خیال تھا اگر چھت گر پڑی تو یہ دونوں تو بھاگ نکلیں گے اور پھر احتیاط کے طور پر وہ ایک ہاتھ ہمارے سروں پر بھی رکھے رہتیں خالد کیلئے ضرورت سے زیادہ احتیاط اس لیے کہ وہ ابھی بہت چھوٹا تھا اور بھاگ نہیں سکتا تھا سو اماں کا خیال تھا اگر چھت گر بھی پڑی تو مجھ پر گرے گی گود میں پڑے خالد پر تھوڑی گرے گی مگر تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود اماں کے سر پر ایسی چھت گری کہ جس سے ہم دونوں بھائیوں کے بازو شل اور اماں کا دماغ شل آنکھوں میں روشنی کی جگہ آنسوؤں نے لے لی روٹی پانی کی جگہ خالد کی جوان موت کا غم اماں کا کھانا پینا بن گیا خالد روڈ ایکسیڈنٹ میں مر جو گیا
آندھی اور بارش کے موسم میں ایک طرف تو ہم ماں بیٹے ایک دوپٹے کے نیچے ہوتے مگر ابا علیحدہ چارپائی پر کوٹھے کی چھت کو گھورتے رہتے وقفہ تب آتا جب ابا ہر تین منٹ بعد سگریٹ سلگاتے اس دوران وہ ایک نظر ہم پہ ڈالتے اور پھر چھت کو گھورنے لگ جاتے
ہمارے گھر کے ارد گرد چنے اور گندم کی فصلیں ہمارے قد کے برابر ہوچکی تھیں زمینداروں کا خیال تھا کسانوں کی تاریخ میں ایسی شاندار فصل کبھی نہیں دیکھی پرندے ان فصلوں پر ناچتے گاتے عجب سماں باندھ دیتے چاچا نورا اور مامدی شہنائی اور ڈھول پر فصلوں کے گیت چھیڑ دیتے کسان ان گیتوں پر ناچتے کم اور شکرانے کے سجدے زیادہ کرتے ہم اس موقع پر.. ڈ ڈے.. اکھاڑنے لگتے کسان اس موقع پر غصے اور محبت کے ملے جلے لہجے میں کہتے……..
او
حرامیو کھاون جوگے پٹ گھنو تے باقیاں نوں نہ لتاڑو…..
ابا کی چھت کو گھورنے کی ریاضت اور اماں کے چھت گرنے کے خوف نے بالآخر ہمیں ایک نیا کوٹھا بنانے کا صلہ دیا آنگن میں ایک گڑھا کھود کے مٹی نکالی گئی اور پھر کچی اینٹین.. تھاپنے. کا آغاز ہو گیا کوٹھے کی چنائی کیلئے درکار اینٹیں بن چکی تھیں اور انہیں سکھانے کیلئے ان کے پہلو بھی بدلے جا چکے تھے دلیل کمہار نے اینٹوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ابا سے کہہ دیا تھا
لالا کوٹھے کن بہوں ھن……………….
یہ چار اپریل ظہر اور عصر کے درمیاں کا وقت تھا چاے کی پیالی ابا کے ہاتھ میں تھی دورفصلوں میں سے ابا کے ایک دوست نے ابا کو آواز دیتے ہوئے کہا
خلقداد تیڈا شنا پھانسی لگ گیا ہے
چائے کی پیالی ابا کے ہاتھ سے گر پڑی اور پھر اس شخص کے ساتھ بھٹو کے بارے میں کچھ دیر گفتگو کرتے رہے اماں اور ہم اینٹوں کو دیکھتے رہے ابا نجانے کتنے سگریٹ پی گئے
رات نجانے کب آندھی اور بارش نے زمین پر یلغار کی صبح تاحد نگاہ سیاہ جنگل دکھائی دیا زمینداروں کے نوحوں نے عرش ھلا دیا نورے اور مامدی کی شہنائی اور ڈھول واپس کلی پہ ٹانگ دیے گئے ہماری اینٹوں کا کوئی نام ونشان نہ تھا
اماں نے ابا سے پوچھا
افضل دا پیو کوٹھے دا کے بنڑسی
ابا نے درد بھرے لہجے میں کہا او کملی تینوں کوٹھے دا فکر میں سوچینداں پیاں جو ملک دا کے بنڑسی……
اور پھر ابا نے اماں کو بھٹو کے بارے میں بتایا اس کی پھانسی کے بارے میں بتایا
چار اپریل نے ہمارے سر سے چھت تو ملک کے ماتھے سے بخت چھین لیا
انا للہ وانا الیہ راجعون