گاؤں سے بھائی نے پودوں سے اتری تازہ مونگ پھلی اور دیسی گڑ بھجوایا تھا حقیقت بھی یہی ہے کہ مونگ پھلی دیسی گڑ کے ساتھ کھانے کا سواد ہی وکھرا ہے یہ سوغات میرے سامنے پڑی تھی سامنے ٹیلی ویژن کی سکرین پر بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی کی زوردار بریکنگ نیوز چل رہی تھیں مختلف اینکر پرسن ان کی واپسی کے حوالے سے تبصرے فرما رہے تھے کچھ نوجوان تھے تو کچھ بزرگ بھی چند کا خیال تھا کہ بے نظیر بھٹو شہید کے آنے سے جنرل مشرف کی حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ کچھ کا خیال تھا بے نظیر بھٹو شہید کے آنے سے جنرل مشرف کمزور ہوں گے۔ چند زیرک قسم کے اینکر بتا رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی کے بعد نواز شریف کی واپسی یقینی ہے اور اب مشرف کے جانے کے دن گنے جا چکے اس وقت کے بھی وزیر شیخ رشید فرما رہے تھے بے نظیر بھٹو شہید کے آنے سے سید جنرل مشرف کو کچھ نہیں ہوگا۔
اب اس ملک میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جنرل مشرف اس وقت قوم کی آنکھوں کا تارا ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ان دنوں وہ کہتے ہیں۔ عمران خان اگلے پانچ سال بھی حکومت کریں گے نواز شریف اور دیگر سیاستدان سیاسی موت مر چکے ہیں۔ اینکر بتا رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو شہید کا طیارہ اب اتنے منٹ بعد اور اب اتنے منٹ بعد پاکستان کی فضاؤں میں داخل ہو گا ساتھ ہی وہ مختلف علاقوں سے پی پی پی کے کارکنوں کے بھنگڑے اور نعرے بھی دکھا اور سنا رہے تھے۔ عوام کا ایک سمندر تھا جو ایر پورٹ کی طرف رواں دواں تھا مگر یہ سمندر ان کے ماضی کے استقبالیہ سمندر جیسا نہیں تھا
مگر ایک عوامی طاقت سے بھرا ہوا ہجوم بہرحال تھا بے نظیر بھٹو شہید جہاز سے اتریں تو محترمہ ناہید خان نے آگے بڑھ کے ان کے سر پر قرآن کی چھاوں کرتے ہوئے بازو پر امام ضامن باندھا بے نظیر بھٹو شہید نے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب لہراتے ہوے سجدہ شکر کے آنسو گرائے تو ناہید خان نے محبت سے ان کے گال کا بوسہ لے لیا
بے نظیر بھٹو شہید جذباتی نعروں اور دھمالوں کے ماحول میں منرل کی طرف بڑھنے لگیں۔ دوران گفتگو انہوں نے اللہ اور عوام کیلئے شکریہ ادا کیا نواز شریف کی واپسی کو قوم کا مطالبہ قراد دیتے ہوئے جنرل مشرف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر ملک میں جلد از جلد منصفانہ انتخابات اور مشرف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا مخالف بیانات سامنے آنے لگے تو شیخ رشید جیسے وزیروں نے بھی جوابی وار شروع کر دئیےاور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو شہید کی جان کو خطرہ ہے جیسے الارم بجانے شروع کر دیے مگر بے نظیر بھٹو شہید دلیری کے ساتھ منزل کی طرف بڑھنے لگیں اور اسی دن کارساز کا واقعہ پیش آگیا۔ یہ ایک شدید بم دھماکہ تھا جس میں کافی لوگ شہید ہوگئے۔ ابتدائی خبروں میں بے نظیر بھٹو کے شہید ہونے کی بھی اطلاع سنائی دی مگر اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ اس دھماکے کے بعد بے نظیر بھٹو شہید نے مزید جرات سے کام لیتے ہوئے جہاں جلسے جلوسوں کو مذید بڑھایا وہاں اپنے بیان میں جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ چند دیگر لوگوں کے نام بھی لیتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اگر مجھے کسی حادثے میں جاں سے مار دیا گیا تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہوں گے مگر اس سب کے باوجود بے نظیر بھٹو شہید نے خود کو اللہ اور عوام کے سپرد کر دیا اور ملک بھر میں دورے شروع کر دیے۔ اس دوران نواز شریف بھی وطن واپس لوٹ آئے۔ جنرل مشرف اپنی بین الاقوامی اور مقامی طاقت کے باوجود نواز شریف کی واپسی نہ رکوا سکے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی اور عوامی رابط مہم نے ملک کا ماحول بدل دیا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید سیاسی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے شخصی احترام کو اہمیت دینے لگے۔ سیاست میں شائستگی فروع پانے لگی دونوں رہنماؤں نے ملک کے حقیقی مسائل کے حل اور آمریت کی بیدخلی کیلئے عوام کو باہر نکالنے کی جدوجہد شروع کردی اور پھر جمہوریت دشمن قوتوں نے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا شروع کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ 27 دسمبر کو عوام کے یہ حقیقی لیڈر راولپنڈی میں تھے دونوں عوامی
رابطے کی مہم پر تھے کہ اچانک نواز شریف کے قافلے پر دھماکے اور فائرنگ کی خبریں آنے لگیں
مگر نواز شریف محفوظ رہے۔ بے نظیر بھٹو شہید کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں
شدید مذمت کی مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ آنے والے چند گھنٹوں میں خود ان کیلے تعزیت کے پیغامات آنے شروع ہو جائیں گے اور چند گھنٹے بعد راولپنڈی کے جلسے میں بے نظیر بھٹو شہید کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ وہ حکومت جو جانتی تھی کہ بے نظیر بھٹو شہید کی جان کو خطرہ ہے، کے باوجود ان کی حفاظت کیلئے اضافی بندوبست نہ کر سکی اور نہ ہی کسی ایمر جنسی کیلئے کوئی ایمبولینس جلسے کے قریب مہیا کرسکی۔
زخمی حالت میں بے نظیر بھٹو شہید کو ایک عام گاڑی میں ہسپتال تک لے جایا گیا مگر وہ راستے میں ہی اپنا سفر مکمل کر چکی تھیں ہسپتال میں سب سے پہلی سیاسی شخصیت نواز شریف تھے جو پہنچے اور ان کی آنکھیں بھر آئیں مگر ایک نواز شریف ہی کیا دنیا بھر بالخصوص پاکستان میں شاید کوئی ایک بھی ایسی آنکھ ہوگی جس میں سے بے نظیر بھٹو شہید کیلے آنسو نہ گرا ہو۔ بلاشبہ
بے نظیر بھٹو شہید ایک بہادر خاتون تھیں ہمارے جیسے ملک میں ایک عورت کا ہر طرح کی مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے دوبار وزیراعظم بن جانا معمولی بات نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید بلاشبہ بھٹو کی بیٹی تھی اور باپ کی سیاسی وراثت کے ذریعے آگے آئیں مگر جو ظلم نا انصافی الزامات اور صدمے انہوں نے برداشت کرتے ہوئے خود کو میدان عمل میں رکھا۔ بھٹو سمیت پاکستان کے کسی سیاستدان کی جدوجہد میں بے نظیر بھٹو شہید جیسی جدوجہد نظر نہیں آتی اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی وفات پر ہمارے پاکستان اخبار نے کیا خوب لیڈ لگائی تھی
.. چاندنی نے مٹی کی چادر اوڑھ لی……
حقیقت میں بھی ایسا ہی ان کی جدوجہد اور مزار کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے جیسے
.. چاندنی نے مٹی کی چادر اوڑھ رکھی ہو…….