علامہ ضمیر اختر نقوی المعروف لڈن جعفری اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ کل من علیہا فان۔ ہر ذی روح کو بالکل ہی ان ہی کی طرح اپنے عمل کا حساب لے کر اللہ کے کے دربار میں پہنچ جانا ہے، اس کے بعد وہ جانیں یا انھیں زندگی اور موت سے سرفراز کرنے والا۔ پیچھے رہ جانے والے کون ہوتے ہیں جو مرنے والے کے گناہ و ثواب کا حساب کریں۔
علامہ صاحب کس مزاج کے بزرگ تھے؟ نیپال کے جنگلات میں میں معجزے انھیں کیسے دکھائی دے جاتے تھے یا صحابہ کے ذکر پر ان کے دل کی کیفیت کیا ہو جاتی تھی؟ یہ جاننا اہم نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ افراد معاشرہ اپنے قرب و جوار میں رونما ہونے والے کسی واقعے کو اپنے درمیان اتحاد اور اتفاق کے فروغ کا ذریعہ بناتے ہیں یا اسے بنیاد بنا کر پہلے سے ہی اختلافات کے جہنم میں جلتے ہوئے معاشرے کی تپش میں کچھ اور اضافہ کر دیتے ہیں۔
علامہ صاحب کے انتقال پر مختلف محافل اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارموں پر کچھ ایسے تبصرے ہی سامنے آ رہے ہیں۔ دل آزار تبصرے اور کچھ ایسے تاریخی حوالے جن سے معاشرے میں عدم برداشت، عدم رواداری کو فروغ اختلاف اور آداب اختلاف کی ایسی خوبیوں کے خاتمے میں مدد ملتی ہے جو اچھے بھلے خوش و خرم معاشرے کو جہنم میں تبدیل کردینے کی قدرت رکھتی ہے۔
بہت اچھا ہو کہ شیعہ برادری کے غم کے اس موقع پر ان کاغم بانٹا جائے۔اگر کوئی ان کے دکھ میں شریک نہیں ہو سکتا تو خاموشی اختیار کرے۔ پاکستانی معاشرے کو اپنی تنگ نظری اور کم ظرفی سے جہنم زار بنا دینے والے یہ عناصر اگر از خود اپنی زبانیں بند نہیں کرتے تو ان کے بزرگ بروئے کار آئیں اور ان کی زبانیں بند کرائیں۔ اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو ریاست خواب غفلت سے جاگے اور فتنہ و فساد پھیلائے والوں کی گرفت کرے۔ یہ بھی اگر نہیں ہوتا اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اکثر نہیں ہوتا تو معاشرہ حرکت میں آئے اور ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کر دے۔ مہذب اور متمدن قومیں سماج میں رونما ہونے والے واقعات کو اتحاد، اتفاق اور ہم آہنگی کو فروغ کا ذریعہ بناتی ہیں نہ کہ فتنہ و فساد کی بنیاد، اس لیے علامہ ضمیر اختر نقوی کے سانحہ ارتحال پر سوقیانہ پروپیگنڈا فی الفور بند ہو جانا چاہئے۔