Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آپ کو قصے کہانیوں سے بہت دلچسپی تھی تم کہانیوں میں یوں کھو جاتے کہ پھر “شہر زاد” ہی تمھاری انگلی پکڑ کر واپسی کی راہ دکھاتی تم نے موت کو بھی کچھ اس انداز سے گلے لگایا کہ اپنی زندگی کو ہی افسانہ بنا دیا۔
تم تو “دنیا زاد” تھے پھر خاک کا پیوند ہونے میں ایسی کیا جلدی تھی۔
آپ خود طبیب تھے اور اپنی والدہ کے مسلسل تیماردا بھی مگر خود یوں چپکے سے آخری سانس لی کہ سب سننے والے کچھ لمحوں کے لۓ ساکت ہو گۓ اکیلے ہسپتال میں آپ نے وہ رات کیسے گزاری ہو گی مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور اتنے بڑے آدمی کی میت بھی ہم کو ایک رات کے لۓ سرد خانے میں رکھنا پڑی۔
میں نے آپ کی موت کی خبر سن کر فوراً کشور ناہید کو فون کیا کشور آپا نے کہا عاصم ہمارے پاس آصف جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی کتنے تھے ہمارا ملک علمی حوالے سے مزید غریب ہو گیا موت پر طویل گفتگو کیونکر ممکن تھی سو انہوں نے روتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
ادب کے حوالے سے آپ کی کئ جہتیں تھیں تم مترجم تھے کہانی لکھتے مدون تھے دو زبانوں میں کالم لکھتے تنقید نگار تھے اور ایک شاندار ادبی پرچے کے مدیر تھے۔
آپ انتظار حسین کی رفاقتوں میں گزرے لمحوں پر نازاں رہتے اگر انتظار حسین زندہ ہوتے تو شائد وہ آپ کی موت کی خبر سننے کے بعد مر ہی جاتے اے کاش تم “سفر کے خوش نصیب” نہ بنتے اور اتنا جلد ہمیشہ کے لۓ انتظار حسین سے نہ مل پاتے کہ اہل زمیں کو ابھی تمھاری بہت ضرورت تھی۔
آپ کے حوالے سے سب یادیں عجب انداز سے گڈ مڈ ہو گئیں ہیں کہ آپ سے پہلی بار کب رابطہ ہوا اور پہلی ملاقات کہاں ہوئی کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں پڑتا مگر اکتوبر 2002 کا آپ کا میرے نام لکھا ہوا ایک خط سامنے ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے سے شناسا تھے۔
ابھی آپ کو آصف اسلم سے آصف فرخی تک کے سفر میں کئ سنگ میل عبور کرنے تھے آصف اسلم کے نام سے فروری 1982 میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نام لکھا ہوا آپ کا ایک خط بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
28 فروری 1982
مکرمی ڈاکٹر صاحب
آداب
آپ نے میری افسانوی کاوششوں میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے اور بعض کو “اوراق” میں اشاعت کے لۓ پسند بھی کیا ہے تو آپ کو اس خبر سے بھی خوشی ہو گی کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کر لیا ہے اور وہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جاۓ گا۔ اگر آپ میری کہانیوں کے متعلق چند الفاظ لکھ دیں جن کو میں فلیپ پر یا تعارفی بروشر میں شامل کر سکوں تو میری بہت عزت افزائی ہو گی۔ اور اگر آپ اس کام کے لۓ وقت نکال سکیں تو کتاب پھر ڈاک سے آپ کو بھیج دوں؟ شکریہ میں پچھلے دنوں دہلی گیا ہوا تھا وہاں کئ لوگوں سے،خاص طور پر بلراج کومل صاحب سے ملاقات میں آپ کا بہت ذکر رہا۔
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا
آصف اسلم
وہ جو جاننے کی لگن میں پاؤں چھالے کر لیتے ہیں “دنیازاد” ان کے لۓ مرہم کا سا کام کرتا تھا اب سیکھنے کی جستجو میں اہل ذوق “دنیا زاد” کے شماروں کی ورق گردانی کریں گے میرے پاس دنیا زاد کی مکمل فائل ہے کیا اس فائل میں صرف اب بیاد آصف کا اضافہ ہو گا ایسا سوچ کر ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کتاب تعزیت کی روایت آپ نے ہی ڈالی تھی یہ فرض آپ کے حوالے سے مجھ سے تو ادا نہ ہو گا۔
کتابِ تعزیت
بیادِ آصف
یہ سب کس قدر افسردہ کر دینے والی تحریریں ہوں گی ایک زندگی سے بھر پور ہنستا مسکراتا آدمی یوں چلا جاۓ گا کہ جس کو ابھی کئ کتابوں پر کام کرنا تھا آپ وبا کے دنوں میں لکھی جانے والی تحریروں پر کام کر رہے تھے مگر وبا سے بچنے کے باوجود موت سے ہار گۓ۔
ہماری شناسائی میں کئ پیچ و خم بھی آۓ برسوں پہلے میں نے ایک کہانی لکھ کر دنیا زاد میں اشاعت کے لۓ بھیجی تھی آپ نے کہانی پر سخت گرفت کرتے ہوۓ جوابی خط میں کہانی کو چھاپنے سے انکار کر دیا تھا میں کئ دنوں تک افسردہ رہا اور میں نے کہانی سمیت آپ کے خط کو ہی پھاڑ دیا تھا مگر جب آپ نے حال ہی میں دنیازاد میں کتاب الوداع کا اعلان کیا تو میں نے احباب خاطر ملال کے نام سے ایک مضمون لکھ کر ہم سب ہر چھپوا دیا مضمون پڑھنے کے بعد آپ نے فون کیا کہ اس نثری مرثیۓ پر تو ہمارا اولیں حق تھا تم نے اتنا اچھا مضمون کہیں اور چھپوا دیا میرے اندر کے کمینے انسان نے دھیمے سروں میں مسکراتے ہوۓ کہا برسوں پہلے کہانی نہ چھاپنے کی چبھن کو آج کچھ قرار سا آ گیا ہے مگر اس کی باوجود فہمیدہ ریاض پر آپ نے میرے مضمون کو دنیا زاد میں چھاپا۔
کچھ ماہ پہلے ہی تو آپ سے ریڈینگز کے چاۓ خانے پر ملاقات ہوئی تھی میں نے چاۓ خانے میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ رخسار پیارا کہاں ہے آپ نے عینک درست کرتے ہوۓ کہا کہ عاصم پیارے رخسار پیارا کہیں ادھر ہی گا پہلے ذرا ہمیں لے چلو کتابوں سے لدے پھندے ہوۓ آپ میں محمودالحسن اور فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا سنگ میل کے دفتر گۓ تھے سارے راستے آپ ویرتا کی گفتگو کو تحمل سے سنتے رہے اور ایک خاندان کے سربراہ کی طرح اسے دھیمے انداز سے مشورے دیتے رہے آپ فہمیدہ آپا کے انتقال پر کسی درجہ رنجیدہ تھے۔
لاہور میں گنگا جمنی تہذیب کے آخری نمائندے قاسم جعفری کے گھر رات کا کھانا تھا زہرا نگاہ،ضیامحی الدین، اکرام اللہٰ،مسعود اشعر جیسے صاحبانِ کمال کے علاوہ عارفہ سیدہ جیسی خوش گفتار شخصیت بھی اس محفل میں رونق افروز تھیں جبکہ اطہر مسعود صاحب خاموش بیٹھے انگلیوں پر کوئی تال گننے میں مصروف تھے محمود الحسن گفتگو کے دوران کسی بھولی بسری کتاب کا حوالہ دیتا ابھی فراق صاحب کی شاعری پر گفتگو جاری تھی کہ قاسم جعفری کی بیگم صاحبہ چاندی کے اوراق اور باداموں سے سجی گاجر کے حلوے کی طشتری بالائی سمیت میز پر سجانے لگیں گفتگو اہل لکھنُو کے دسترخوان کے بارے ہونے لگی لکھنُو کے پکوانوں سے بات داؤد رہبر کے خطوط اور احمد مشتاق کی شاعری تک جا پہنچی محفل کے اختتام پر رات گۓ میں اور محمود آپ کو چھوڑنے ماڈل ٹاؤن گے آپ جہاں مقیم تھے اس گھر کو جانے والے سب راستے بند تھے ہم عجب بھول بھلیوں سے گزرتے ہوۓ بڑی مشکل سے آپ کی جاۓ قیام تک پہنچے تھے پورے راستے آپ دنیا بھر کی زبانوں کے ادب اور کتابوں کے بارے بات کرتے رہے۔
آپ کے جانے کے بعد اب کتاب کے تقدس اور لفظوں کی حرمت کے بارے ہم کس سے کہانیاں سنے گے اب کون ہے جس کی زندگی کا محور کتاب اور صاحب کتاب ہیں ادبی میلے بھی آپ کے جانے سے ویران ہوۓ اور ادبی بیٹھکیں بھی کہ وہاں بیٹھنے والے اب خود ستائشی کی پھولچھڑیاں چھوڑیں گے اور غیبت پر مشتمل گفتگو ہو گی کتاب اور بالخصوص بین الاقوامی ادب پر آپ جیسی دسترس اب کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
* شہر زاد آصف صاحب کے اشاعتی ادارے کا نام تھا
* سفر کے خوش نصیب انتظار حسین کی رفاقت میں لندن کے بارے سفر نامے کا نام ہے
* دنیا زاد جیسے با اعتبار ادبی جریدے کے آصف صاحب بانی و مدیر تھے
آپ کو قصے کہانیوں سے بہت دلچسپی تھی تم کہانیوں میں یوں کھو جاتے کہ پھر “شہر زاد” ہی تمھاری انگلی پکڑ کر واپسی کی راہ دکھاتی تم نے موت کو بھی کچھ اس انداز سے گلے لگایا کہ اپنی زندگی کو ہی افسانہ بنا دیا۔
تم تو “دنیا زاد” تھے پھر خاک کا پیوند ہونے میں ایسی کیا جلدی تھی۔
آپ خود طبیب تھے اور اپنی والدہ کے مسلسل تیماردا بھی مگر خود یوں چپکے سے آخری سانس لی کہ سب سننے والے کچھ لمحوں کے لۓ ساکت ہو گۓ اکیلے ہسپتال میں آپ نے وہ رات کیسے گزاری ہو گی مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور اتنے بڑے آدمی کی میت بھی ہم کو ایک رات کے لۓ سرد خانے میں رکھنا پڑی۔
میں نے آپ کی موت کی خبر سن کر فوراً کشور ناہید کو فون کیا کشور آپا نے کہا عاصم ہمارے پاس آصف جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی کتنے تھے ہمارا ملک علمی حوالے سے مزید غریب ہو گیا موت پر طویل گفتگو کیونکر ممکن تھی سو انہوں نے روتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
ادب کے حوالے سے آپ کی کئ جہتیں تھیں تم مترجم تھے کہانی لکھتے مدون تھے دو زبانوں میں کالم لکھتے تنقید نگار تھے اور ایک شاندار ادبی پرچے کے مدیر تھے۔
آپ انتظار حسین کی رفاقتوں میں گزرے لمحوں پر نازاں رہتے اگر انتظار حسین زندہ ہوتے تو شائد وہ آپ کی موت کی خبر سننے کے بعد مر ہی جاتے اے کاش تم “سفر کے خوش نصیب” نہ بنتے اور اتنا جلد ہمیشہ کے لۓ انتظار حسین سے نہ مل پاتے کہ اہل زمیں کو ابھی تمھاری بہت ضرورت تھی۔
آپ کے حوالے سے سب یادیں عجب انداز سے گڈ مڈ ہو گئیں ہیں کہ آپ سے پہلی بار کب رابطہ ہوا اور پہلی ملاقات کہاں ہوئی کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں پڑتا مگر اکتوبر 2002 کا آپ کا میرے نام لکھا ہوا ایک خط سامنے ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے سے شناسا تھے۔
ابھی آپ کو آصف اسلم سے آصف فرخی تک کے سفر میں کئ سنگ میل عبور کرنے تھے آصف اسلم کے نام سے فروری 1982 میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نام لکھا ہوا آپ کا ایک خط بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
28 فروری 1982
مکرمی ڈاکٹر صاحب
آداب
آپ نے میری افسانوی کاوششوں میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے اور بعض کو “اوراق” میں اشاعت کے لۓ پسند بھی کیا ہے تو آپ کو اس خبر سے بھی خوشی ہو گی کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کر لیا ہے اور وہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جاۓ گا۔ اگر آپ میری کہانیوں کے متعلق چند الفاظ لکھ دیں جن کو میں فلیپ پر یا تعارفی بروشر میں شامل کر سکوں تو میری بہت عزت افزائی ہو گی۔ اور اگر آپ اس کام کے لۓ وقت نکال سکیں تو کتاب پھر ڈاک سے آپ کو بھیج دوں؟ شکریہ میں پچھلے دنوں دہلی گیا ہوا تھا وہاں کئ لوگوں سے،خاص طور پر بلراج کومل صاحب سے ملاقات میں آپ کا بہت ذکر رہا۔
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا
آصف اسلم
وہ جو جاننے کی لگن میں پاؤں چھالے کر لیتے ہیں “دنیازاد” ان کے لۓ مرہم کا سا کام کرتا تھا اب سیکھنے کی جستجو میں اہل ذوق “دنیا زاد” کے شماروں کی ورق گردانی کریں گے میرے پاس دنیا زاد کی مکمل فائل ہے کیا اس فائل میں صرف اب بیاد آصف کا اضافہ ہو گا ایسا سوچ کر ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کتاب تعزیت کی روایت آپ نے ہی ڈالی تھی یہ فرض آپ کے حوالے سے مجھ سے تو ادا نہ ہو گا۔
کتابِ تعزیت
بیادِ آصف
یہ سب کس قدر افسردہ کر دینے والی تحریریں ہوں گی ایک زندگی سے بھر پور ہنستا مسکراتا آدمی یوں چلا جاۓ گا کہ جس کو ابھی کئ کتابوں پر کام کرنا تھا آپ وبا کے دنوں میں لکھی جانے والی تحریروں پر کام کر رہے تھے مگر وبا سے بچنے کے باوجود موت سے ہار گۓ۔
ہماری شناسائی میں کئ پیچ و خم بھی آۓ برسوں پہلے میں نے ایک کہانی لکھ کر دنیا زاد میں اشاعت کے لۓ بھیجی تھی آپ نے کہانی پر سخت گرفت کرتے ہوۓ جوابی خط میں کہانی کو چھاپنے سے انکار کر دیا تھا میں کئ دنوں تک افسردہ رہا اور میں نے کہانی سمیت آپ کے خط کو ہی پھاڑ دیا تھا مگر جب آپ نے حال ہی میں دنیازاد میں کتاب الوداع کا اعلان کیا تو میں نے احباب خاطر ملال کے نام سے ایک مضمون لکھ کر ہم سب ہر چھپوا دیا مضمون پڑھنے کے بعد آپ نے فون کیا کہ اس نثری مرثیۓ پر تو ہمارا اولیں حق تھا تم نے اتنا اچھا مضمون کہیں اور چھپوا دیا میرے اندر کے کمینے انسان نے دھیمے سروں میں مسکراتے ہوۓ کہا برسوں پہلے کہانی نہ چھاپنے کی چبھن کو آج کچھ قرار سا آ گیا ہے مگر اس کی باوجود فہمیدہ ریاض پر آپ نے میرے مضمون کو دنیا زاد میں چھاپا۔
کچھ ماہ پہلے ہی تو آپ سے ریڈینگز کے چاۓ خانے پر ملاقات ہوئی تھی میں نے چاۓ خانے میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ رخسار پیارا کہاں ہے آپ نے عینک درست کرتے ہوۓ کہا کہ عاصم پیارے رخسار پیارا کہیں ادھر ہی گا پہلے ذرا ہمیں لے چلو کتابوں سے لدے پھندے ہوۓ آپ میں محمودالحسن اور فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا سنگ میل کے دفتر گۓ تھے سارے راستے آپ ویرتا کی گفتگو کو تحمل سے سنتے رہے اور ایک خاندان کے سربراہ کی طرح اسے دھیمے انداز سے مشورے دیتے رہے آپ فہمیدہ آپا کے انتقال پر کسی درجہ رنجیدہ تھے۔
لاہور میں گنگا جمنی تہذیب کے آخری نمائندے قاسم جعفری کے گھر رات کا کھانا تھا زہرا نگاہ،ضیامحی الدین، اکرام اللہٰ،مسعود اشعر جیسے صاحبانِ کمال کے علاوہ عارفہ سیدہ جیسی خوش گفتار شخصیت بھی اس محفل میں رونق افروز تھیں جبکہ اطہر مسعود صاحب خاموش بیٹھے انگلیوں پر کوئی تال گننے میں مصروف تھے محمود الحسن گفتگو کے دوران کسی بھولی بسری کتاب کا حوالہ دیتا ابھی فراق صاحب کی شاعری پر گفتگو جاری تھی کہ قاسم جعفری کی بیگم صاحبہ چاندی کے اوراق اور باداموں سے سجی گاجر کے حلوے کی طشتری بالائی سمیت میز پر سجانے لگیں گفتگو اہل لکھنُو کے دسترخوان کے بارے ہونے لگی لکھنُو کے پکوانوں سے بات داؤد رہبر کے خطوط اور احمد مشتاق کی شاعری تک جا پہنچی محفل کے اختتام پر رات گۓ میں اور محمود آپ کو چھوڑنے ماڈل ٹاؤن گے آپ جہاں مقیم تھے اس گھر کو جانے والے سب راستے بند تھے ہم عجب بھول بھلیوں سے گزرتے ہوۓ بڑی مشکل سے آپ کی جاۓ قیام تک پہنچے تھے پورے راستے آپ دنیا بھر کی زبانوں کے ادب اور کتابوں کے بارے بات کرتے رہے۔
آپ کے جانے کے بعد اب کتاب کے تقدس اور لفظوں کی حرمت کے بارے ہم کس سے کہانیاں سنے گے اب کون ہے جس کی زندگی کا محور کتاب اور صاحب کتاب ہیں ادبی میلے بھی آپ کے جانے سے ویران ہوۓ اور ادبی بیٹھکیں بھی کہ وہاں بیٹھنے والے اب خود ستائشی کی پھولچھڑیاں چھوڑیں گے اور غیبت پر مشتمل گفتگو ہو گی کتاب اور بالخصوص بین الاقوامی ادب پر آپ جیسی دسترس اب کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
* شہر زاد آصف صاحب کے اشاعتی ادارے کا نام تھا
* سفر کے خوش نصیب انتظار حسین کی رفاقت میں لندن کے بارے سفر نامے کا نام ہے
* دنیا زاد جیسے با اعتبار ادبی جریدے کے آصف صاحب بانی و مدیر تھے
آپ کو قصے کہانیوں سے بہت دلچسپی تھی تم کہانیوں میں یوں کھو جاتے کہ پھر “شہر زاد” ہی تمھاری انگلی پکڑ کر واپسی کی راہ دکھاتی تم نے موت کو بھی کچھ اس انداز سے گلے لگایا کہ اپنی زندگی کو ہی افسانہ بنا دیا۔
تم تو “دنیا زاد” تھے پھر خاک کا پیوند ہونے میں ایسی کیا جلدی تھی۔
آپ خود طبیب تھے اور اپنی والدہ کے مسلسل تیماردا بھی مگر خود یوں چپکے سے آخری سانس لی کہ سب سننے والے کچھ لمحوں کے لۓ ساکت ہو گۓ اکیلے ہسپتال میں آپ نے وہ رات کیسے گزاری ہو گی مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور اتنے بڑے آدمی کی میت بھی ہم کو ایک رات کے لۓ سرد خانے میں رکھنا پڑی۔
میں نے آپ کی موت کی خبر سن کر فوراً کشور ناہید کو فون کیا کشور آپا نے کہا عاصم ہمارے پاس آصف جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی کتنے تھے ہمارا ملک علمی حوالے سے مزید غریب ہو گیا موت پر طویل گفتگو کیونکر ممکن تھی سو انہوں نے روتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
ادب کے حوالے سے آپ کی کئ جہتیں تھیں تم مترجم تھے کہانی لکھتے مدون تھے دو زبانوں میں کالم لکھتے تنقید نگار تھے اور ایک شاندار ادبی پرچے کے مدیر تھے۔
آپ انتظار حسین کی رفاقتوں میں گزرے لمحوں پر نازاں رہتے اگر انتظار حسین زندہ ہوتے تو شائد وہ آپ کی موت کی خبر سننے کے بعد مر ہی جاتے اے کاش تم “سفر کے خوش نصیب” نہ بنتے اور اتنا جلد ہمیشہ کے لۓ انتظار حسین سے نہ مل پاتے کہ اہل زمیں کو ابھی تمھاری بہت ضرورت تھی۔
آپ کے حوالے سے سب یادیں عجب انداز سے گڈ مڈ ہو گئیں ہیں کہ آپ سے پہلی بار کب رابطہ ہوا اور پہلی ملاقات کہاں ہوئی کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں پڑتا مگر اکتوبر 2002 کا آپ کا میرے نام لکھا ہوا ایک خط سامنے ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے سے شناسا تھے۔
ابھی آپ کو آصف اسلم سے آصف فرخی تک کے سفر میں کئ سنگ میل عبور کرنے تھے آصف اسلم کے نام سے فروری 1982 میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نام لکھا ہوا آپ کا ایک خط بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
28 فروری 1982
مکرمی ڈاکٹر صاحب
آداب
آپ نے میری افسانوی کاوششوں میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے اور بعض کو “اوراق” میں اشاعت کے لۓ پسند بھی کیا ہے تو آپ کو اس خبر سے بھی خوشی ہو گی کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کر لیا ہے اور وہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جاۓ گا۔ اگر آپ میری کہانیوں کے متعلق چند الفاظ لکھ دیں جن کو میں فلیپ پر یا تعارفی بروشر میں شامل کر سکوں تو میری بہت عزت افزائی ہو گی۔ اور اگر آپ اس کام کے لۓ وقت نکال سکیں تو کتاب پھر ڈاک سے آپ کو بھیج دوں؟ شکریہ میں پچھلے دنوں دہلی گیا ہوا تھا وہاں کئ لوگوں سے،خاص طور پر بلراج کومل صاحب سے ملاقات میں آپ کا بہت ذکر رہا۔
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا
آصف اسلم
وہ جو جاننے کی لگن میں پاؤں چھالے کر لیتے ہیں “دنیازاد” ان کے لۓ مرہم کا سا کام کرتا تھا اب سیکھنے کی جستجو میں اہل ذوق “دنیا زاد” کے شماروں کی ورق گردانی کریں گے میرے پاس دنیا زاد کی مکمل فائل ہے کیا اس فائل میں صرف اب بیاد آصف کا اضافہ ہو گا ایسا سوچ کر ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کتاب تعزیت کی روایت آپ نے ہی ڈالی تھی یہ فرض آپ کے حوالے سے مجھ سے تو ادا نہ ہو گا۔
کتابِ تعزیت
بیادِ آصف
یہ سب کس قدر افسردہ کر دینے والی تحریریں ہوں گی ایک زندگی سے بھر پور ہنستا مسکراتا آدمی یوں چلا جاۓ گا کہ جس کو ابھی کئ کتابوں پر کام کرنا تھا آپ وبا کے دنوں میں لکھی جانے والی تحریروں پر کام کر رہے تھے مگر وبا سے بچنے کے باوجود موت سے ہار گۓ۔
ہماری شناسائی میں کئ پیچ و خم بھی آۓ برسوں پہلے میں نے ایک کہانی لکھ کر دنیا زاد میں اشاعت کے لۓ بھیجی تھی آپ نے کہانی پر سخت گرفت کرتے ہوۓ جوابی خط میں کہانی کو چھاپنے سے انکار کر دیا تھا میں کئ دنوں تک افسردہ رہا اور میں نے کہانی سمیت آپ کے خط کو ہی پھاڑ دیا تھا مگر جب آپ نے حال ہی میں دنیازاد میں کتاب الوداع کا اعلان کیا تو میں نے احباب خاطر ملال کے نام سے ایک مضمون لکھ کر ہم سب ہر چھپوا دیا مضمون پڑھنے کے بعد آپ نے فون کیا کہ اس نثری مرثیۓ پر تو ہمارا اولیں حق تھا تم نے اتنا اچھا مضمون کہیں اور چھپوا دیا میرے اندر کے کمینے انسان نے دھیمے سروں میں مسکراتے ہوۓ کہا برسوں پہلے کہانی نہ چھاپنے کی چبھن کو آج کچھ قرار سا آ گیا ہے مگر اس کی باوجود فہمیدہ ریاض پر آپ نے میرے مضمون کو دنیا زاد میں چھاپا۔
کچھ ماہ پہلے ہی تو آپ سے ریڈینگز کے چاۓ خانے پر ملاقات ہوئی تھی میں نے چاۓ خانے میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ رخسار پیارا کہاں ہے آپ نے عینک درست کرتے ہوۓ کہا کہ عاصم پیارے رخسار پیارا کہیں ادھر ہی گا پہلے ذرا ہمیں لے چلو کتابوں سے لدے پھندے ہوۓ آپ میں محمودالحسن اور فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا سنگ میل کے دفتر گۓ تھے سارے راستے آپ ویرتا کی گفتگو کو تحمل سے سنتے رہے اور ایک خاندان کے سربراہ کی طرح اسے دھیمے انداز سے مشورے دیتے رہے آپ فہمیدہ آپا کے انتقال پر کسی درجہ رنجیدہ تھے۔
لاہور میں گنگا جمنی تہذیب کے آخری نمائندے قاسم جعفری کے گھر رات کا کھانا تھا زہرا نگاہ،ضیامحی الدین، اکرام اللہٰ،مسعود اشعر جیسے صاحبانِ کمال کے علاوہ عارفہ سیدہ جیسی خوش گفتار شخصیت بھی اس محفل میں رونق افروز تھیں جبکہ اطہر مسعود صاحب خاموش بیٹھے انگلیوں پر کوئی تال گننے میں مصروف تھے محمود الحسن گفتگو کے دوران کسی بھولی بسری کتاب کا حوالہ دیتا ابھی فراق صاحب کی شاعری پر گفتگو جاری تھی کہ قاسم جعفری کی بیگم صاحبہ چاندی کے اوراق اور باداموں سے سجی گاجر کے حلوے کی طشتری بالائی سمیت میز پر سجانے لگیں گفتگو اہل لکھنُو کے دسترخوان کے بارے ہونے لگی لکھنُو کے پکوانوں سے بات داؤد رہبر کے خطوط اور احمد مشتاق کی شاعری تک جا پہنچی محفل کے اختتام پر رات گۓ میں اور محمود آپ کو چھوڑنے ماڈل ٹاؤن گے آپ جہاں مقیم تھے اس گھر کو جانے والے سب راستے بند تھے ہم عجب بھول بھلیوں سے گزرتے ہوۓ بڑی مشکل سے آپ کی جاۓ قیام تک پہنچے تھے پورے راستے آپ دنیا بھر کی زبانوں کے ادب اور کتابوں کے بارے بات کرتے رہے۔
آپ کے جانے کے بعد اب کتاب کے تقدس اور لفظوں کی حرمت کے بارے ہم کس سے کہانیاں سنے گے اب کون ہے جس کی زندگی کا محور کتاب اور صاحب کتاب ہیں ادبی میلے بھی آپ کے جانے سے ویران ہوۓ اور ادبی بیٹھکیں بھی کہ وہاں بیٹھنے والے اب خود ستائشی کی پھولچھڑیاں چھوڑیں گے اور غیبت پر مشتمل گفتگو ہو گی کتاب اور بالخصوص بین الاقوامی ادب پر آپ جیسی دسترس اب کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
* شہر زاد آصف صاحب کے اشاعتی ادارے کا نام تھا
* سفر کے خوش نصیب انتظار حسین کی رفاقت میں لندن کے بارے سفر نامے کا نام ہے
* دنیا زاد جیسے با اعتبار ادبی جریدے کے آصف صاحب بانی و مدیر تھے
آپ کو قصے کہانیوں سے بہت دلچسپی تھی تم کہانیوں میں یوں کھو جاتے کہ پھر “شہر زاد” ہی تمھاری انگلی پکڑ کر واپسی کی راہ دکھاتی تم نے موت کو بھی کچھ اس انداز سے گلے لگایا کہ اپنی زندگی کو ہی افسانہ بنا دیا۔
تم تو “دنیا زاد” تھے پھر خاک کا پیوند ہونے میں ایسی کیا جلدی تھی۔
آپ خود طبیب تھے اور اپنی والدہ کے مسلسل تیماردا بھی مگر خود یوں چپکے سے آخری سانس لی کہ سب سننے والے کچھ لمحوں کے لۓ ساکت ہو گۓ اکیلے ہسپتال میں آپ نے وہ رات کیسے گزاری ہو گی مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور اتنے بڑے آدمی کی میت بھی ہم کو ایک رات کے لۓ سرد خانے میں رکھنا پڑی۔
میں نے آپ کی موت کی خبر سن کر فوراً کشور ناہید کو فون کیا کشور آپا نے کہا عاصم ہمارے پاس آصف جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی کتنے تھے ہمارا ملک علمی حوالے سے مزید غریب ہو گیا موت پر طویل گفتگو کیونکر ممکن تھی سو انہوں نے روتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
ادب کے حوالے سے آپ کی کئ جہتیں تھیں تم مترجم تھے کہانی لکھتے مدون تھے دو زبانوں میں کالم لکھتے تنقید نگار تھے اور ایک شاندار ادبی پرچے کے مدیر تھے۔
آپ انتظار حسین کی رفاقتوں میں گزرے لمحوں پر نازاں رہتے اگر انتظار حسین زندہ ہوتے تو شائد وہ آپ کی موت کی خبر سننے کے بعد مر ہی جاتے اے کاش تم “سفر کے خوش نصیب” نہ بنتے اور اتنا جلد ہمیشہ کے لۓ انتظار حسین سے نہ مل پاتے کہ اہل زمیں کو ابھی تمھاری بہت ضرورت تھی۔
آپ کے حوالے سے سب یادیں عجب انداز سے گڈ مڈ ہو گئیں ہیں کہ آپ سے پہلی بار کب رابطہ ہوا اور پہلی ملاقات کہاں ہوئی کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں پڑتا مگر اکتوبر 2002 کا آپ کا میرے نام لکھا ہوا ایک خط سامنے ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے سے شناسا تھے۔
ابھی آپ کو آصف اسلم سے آصف فرخی تک کے سفر میں کئ سنگ میل عبور کرنے تھے آصف اسلم کے نام سے فروری 1982 میں ڈاکٹر وزیر آغا کے نام لکھا ہوا آپ کا ایک خط بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
28 فروری 1982
مکرمی ڈاکٹر صاحب
آداب
آپ نے میری افسانوی کاوششوں میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے اور بعض کو “اوراق” میں اشاعت کے لۓ پسند بھی کیا ہے تو آپ کو اس خبر سے بھی خوشی ہو گی کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کر لیا ہے اور وہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جاۓ گا۔ اگر آپ میری کہانیوں کے متعلق چند الفاظ لکھ دیں جن کو میں فلیپ پر یا تعارفی بروشر میں شامل کر سکوں تو میری بہت عزت افزائی ہو گی۔ اور اگر آپ اس کام کے لۓ وقت نکال سکیں تو کتاب پھر ڈاک سے آپ کو بھیج دوں؟ شکریہ میں پچھلے دنوں دہلی گیا ہوا تھا وہاں کئ لوگوں سے،خاص طور پر بلراج کومل صاحب سے ملاقات میں آپ کا بہت ذکر رہا۔
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا
آصف اسلم
وہ جو جاننے کی لگن میں پاؤں چھالے کر لیتے ہیں “دنیازاد” ان کے لۓ مرہم کا سا کام کرتا تھا اب سیکھنے کی جستجو میں اہل ذوق “دنیا زاد” کے شماروں کی ورق گردانی کریں گے میرے پاس دنیا زاد کی مکمل فائل ہے کیا اس فائل میں صرف اب بیاد آصف کا اضافہ ہو گا ایسا سوچ کر ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کتاب تعزیت کی روایت آپ نے ہی ڈالی تھی یہ فرض آپ کے حوالے سے مجھ سے تو ادا نہ ہو گا۔
کتابِ تعزیت
بیادِ آصف
یہ سب کس قدر افسردہ کر دینے والی تحریریں ہوں گی ایک زندگی سے بھر پور ہنستا مسکراتا آدمی یوں چلا جاۓ گا کہ جس کو ابھی کئ کتابوں پر کام کرنا تھا آپ وبا کے دنوں میں لکھی جانے والی تحریروں پر کام کر رہے تھے مگر وبا سے بچنے کے باوجود موت سے ہار گۓ۔
ہماری شناسائی میں کئ پیچ و خم بھی آۓ برسوں پہلے میں نے ایک کہانی لکھ کر دنیا زاد میں اشاعت کے لۓ بھیجی تھی آپ نے کہانی پر سخت گرفت کرتے ہوۓ جوابی خط میں کہانی کو چھاپنے سے انکار کر دیا تھا میں کئ دنوں تک افسردہ رہا اور میں نے کہانی سمیت آپ کے خط کو ہی پھاڑ دیا تھا مگر جب آپ نے حال ہی میں دنیازاد میں کتاب الوداع کا اعلان کیا تو میں نے احباب خاطر ملال کے نام سے ایک مضمون لکھ کر ہم سب ہر چھپوا دیا مضمون پڑھنے کے بعد آپ نے فون کیا کہ اس نثری مرثیۓ پر تو ہمارا اولیں حق تھا تم نے اتنا اچھا مضمون کہیں اور چھپوا دیا میرے اندر کے کمینے انسان نے دھیمے سروں میں مسکراتے ہوۓ کہا برسوں پہلے کہانی نہ چھاپنے کی چبھن کو آج کچھ قرار سا آ گیا ہے مگر اس کی باوجود فہمیدہ ریاض پر آپ نے میرے مضمون کو دنیا زاد میں چھاپا۔
کچھ ماہ پہلے ہی تو آپ سے ریڈینگز کے چاۓ خانے پر ملاقات ہوئی تھی میں نے چاۓ خانے میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ رخسار پیارا کہاں ہے آپ نے عینک درست کرتے ہوۓ کہا کہ عاصم پیارے رخسار پیارا کہیں ادھر ہی گا پہلے ذرا ہمیں لے چلو کتابوں سے لدے پھندے ہوۓ آپ میں محمودالحسن اور فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا سنگ میل کے دفتر گۓ تھے سارے راستے آپ ویرتا کی گفتگو کو تحمل سے سنتے رہے اور ایک خاندان کے سربراہ کی طرح اسے دھیمے انداز سے مشورے دیتے رہے آپ فہمیدہ آپا کے انتقال پر کسی درجہ رنجیدہ تھے۔
لاہور میں گنگا جمنی تہذیب کے آخری نمائندے قاسم جعفری کے گھر رات کا کھانا تھا زہرا نگاہ،ضیامحی الدین، اکرام اللہٰ،مسعود اشعر جیسے صاحبانِ کمال کے علاوہ عارفہ سیدہ جیسی خوش گفتار شخصیت بھی اس محفل میں رونق افروز تھیں جبکہ اطہر مسعود صاحب خاموش بیٹھے انگلیوں پر کوئی تال گننے میں مصروف تھے محمود الحسن گفتگو کے دوران کسی بھولی بسری کتاب کا حوالہ دیتا ابھی فراق صاحب کی شاعری پر گفتگو جاری تھی کہ قاسم جعفری کی بیگم صاحبہ چاندی کے اوراق اور باداموں سے سجی گاجر کے حلوے کی طشتری بالائی سمیت میز پر سجانے لگیں گفتگو اہل لکھنُو کے دسترخوان کے بارے ہونے لگی لکھنُو کے پکوانوں سے بات داؤد رہبر کے خطوط اور احمد مشتاق کی شاعری تک جا پہنچی محفل کے اختتام پر رات گۓ میں اور محمود آپ کو چھوڑنے ماڈل ٹاؤن گے آپ جہاں مقیم تھے اس گھر کو جانے والے سب راستے بند تھے ہم عجب بھول بھلیوں سے گزرتے ہوۓ بڑی مشکل سے آپ کی جاۓ قیام تک پہنچے تھے پورے راستے آپ دنیا بھر کی زبانوں کے ادب اور کتابوں کے بارے بات کرتے رہے۔
آپ کے جانے کے بعد اب کتاب کے تقدس اور لفظوں کی حرمت کے بارے ہم کس سے کہانیاں سنے گے اب کون ہے جس کی زندگی کا محور کتاب اور صاحب کتاب ہیں ادبی میلے بھی آپ کے جانے سے ویران ہوۓ اور ادبی بیٹھکیں بھی کہ وہاں بیٹھنے والے اب خود ستائشی کی پھولچھڑیاں چھوڑیں گے اور غیبت پر مشتمل گفتگو ہو گی کتاب اور بالخصوص بین الاقوامی ادب پر آپ جیسی دسترس اب کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
* شہر زاد آصف صاحب کے اشاعتی ادارے کا نام تھا
* سفر کے خوش نصیب انتظار حسین کی رفاقت میں لندن کے بارے سفر نامے کا نام ہے
* دنیا زاد جیسے با اعتبار ادبی جریدے کے آصف صاحب بانی و مدیر تھے