Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہم ڈرامے نہیں دیکھتے، یعنی وہ ڈرامے نہیں دیکھتے جو ٹی وی چینلوں سے دکھائے جاتے ہیں، سیاست کا ناٹک اور حکومت کا تھیٹر دیکھنے کے بعد کوئی ڈراما دل کو بھاتا ہی نہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے مقابلے میں سیاسی اور سرکاری ڈرامے کہیں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ ڈرامے بس نشر ہوتے ہیں، یہ ڈرامے تو عوام اور ملک کا حشرنشر کردیتے ہیں۔ اُن ڈراموں کے آخر میں ”دانش“ مرجاتا ہے، انِ ڈراموں کے شروع میں ”دانش“ مرجاتی ہے۔
ٹی وی ڈراموں کے لیے کمپنیاں اشتہار دیتی ہیں اور سیاسی ڈراموں کے لے پوری کی پوری ”بریگیڈ“ اور ”رجمنٹیں“ ماحول سازگار کرکے دیتی ہیں۔ خیر اس وقت ہمیں دونوں طرح کے ڈراموں کا موازنہ نہیں کرنا، ہمیں ذکر کرنا تھا پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل سے دکھائے جانے والے تُرک ڈرامے ”ارطغرل“ کا۔ ”ارطغرل“ ایک تاریخی ڈراما ہے۔ اب آپ یہ کہہ کر ہمارا مذاق اُڑائیں گے کہ ”واہ واہ، بالکل نئی بات بتائی، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ تاریخی ڈراما ہے“ بھیا! بات یہ ہے کہ ہم نے یہ کُلیہ اپنے وزیراعظم سے سیکھا ہے کہ ”لوگوں کو ہمیشہ وہی بات بتاﺅ جو انھیں پہلے سے معلوم ہو، یوں جب انھیں کوئی بات دوبارہ معلوم ہوتی ہے تو اسے ہی علم میں اضافہ ہونا کہتے ہیں۔“ اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو بتایا تھا،”کورونا ایک وائرس ہے۔“ تو پھر جان لیں کہ ارطغرل ایک تاریخی ڈراما ہے اور دوسرا انکشاف یہ کہ یہ ڈراما پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تاریخ سے کتنی دل چسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے کی بیسیویں تاریخ سے ہی تمام ملازمت پیشہ پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ”آج کیا تاریخ ہے؟“،”پہلی تاریخ میں کتنے دن رہ گئے؟“۔
ہمارے نوجوانوں کو اپنی تاریخ طے ہونے کا انتظار رہتا ہے، اور جب یہ طے شدہ تاریخ گزر جاتی ہے تب وہ تاریخ سے یہ سبق سیکھتے ہیں کہ اس تاریخ کے دوبارہ آنے پر یہ تاریخ یاد رکھنی ہے ورنہ دشمن (ساس) کے بچے کو پڑھاتے ہوئے وہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے باجود کچھ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور ایک بار پھر تاریخ طے کرکے تاریخ دہرا دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں کو تو تاریخ سے اس قدر لگاﺅ ہے کہ محض تاریخ پر تاریخ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کردیتے ہیں۔ عوام کی تاریخ سے دل چسپی ہی تو ہے جس کے باعث جب بھی کوئی سیاست داں جلسہ کرنے کی ٹھانتا ہے دیواروں اور پوسٹروں پر یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ موصوف تاریخی خطاب فرمائیں گے۔ اب جو قوم تاریخ پر یوں فدا ہو اسے تاریخی ڈرامے کیوں نہ بھائیں۔ اور اس ڈرامے کی مشہوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پاکستانی نوجوان یہ ڈراما دیکھیں۔ اس سے وزیراعظم کی تاریخ اور ڈراموں سے دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ”ڈراموں کے ذریعے“ نوجوانوں اور قوم وملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
خیر یہ تو ہمیں ارطغرل کے بارے میں ان کے اظہارخیال سے پہلے بھی معلوم تھا۔ رہی تاریخ سے محبت تو اس کا نظارہ ہم خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے انتخابات کی تاریخ کھینچ کر قریب لانے کی کوششوں کی صورت میں کرچکے ہیں۔ ویسے نوازشریف صاحب، عمران خان سے کہیں زیادہ تاریخ سے محبت کرتے ہیں، چناں چہ انھوں نے پُل اور سڑکیں بنائیں یا مستعفی ہونے کی تاریخ بنائی۔ اب لگتا ہے کہ ”رانجھا رانجھا کردی ہُن میں آپے رانجھا ہوئی“ کے مصداق خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ البتہ آصف زرداری صاحب کا میلان تاریخ سے کہیں زیادہ جغرافیے کی طرف ہے، ارضی تبدیلیوں کی بابت جاننے کے لیے وہ ”اراضیوں“ پر نظر رکھتے ہیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ارض زیرتصرف ہو تاکہ اس پر مسلسل نظر رکھی جاسکے۔
تاریخ کے بعد ارطغرل کی پاکستان میں مقبولیت کی دوسری وجہ گھوڑے ہیں۔ اس ڈرامے میں انسانوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے، اس لیے ایسے مناظر سے پاکستانیوں کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ایک مدت سے گھوڑوں کی سواری بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گھوڑے ہیں جن میں سے ہر ایک ”ہارس ٹریڈنگ“ کی بہ دولت سوا لاکھ کے مرے ہوئے ہاتھی سے کہیں مہنگا ہے۔ گھوڑے چارا کھاتے ہیں، مگر یہ گھوڑے چارہ گر کا روپ دھار کر عوام کو بے چارہ کردیتے ہیں۔
اس ڈرامے کے مقبول ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے یہ ایک ایسے عظیم تُرک سردار ارطغرل کی کہانی پر مبنی ہے جو دشمنوں سے جنگ لڑکے تلوار کے ذریعے انھیں تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ ہم پاکستانی یہ سب دیکھ کر حیران ہیں کہ دفاع گانے بنائے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے! جارحیت کا جواب ”اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی“ جیسے دبنگ بیانات دیے بغیر بھی دیا جاسکتا ہے!
یہ تو ہوئے ڈرامے کی مقبولیت کے اسباب، اب تذکرہ کرتے ہیں ان کا جنھیں یہ ڈراما ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ ان میں سے کچھ لوگ ”ارطغرل“ کی کاسٹ میں شامل اداکاروں کی نجی زندگی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے یہ ڈرامے پسند کرنے والوں کو کو ان کے ہیروز کے بے حیا ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ دراصل یہ نقاد بہت باحیا اور شرم والے ہیں، ہالی وڈ کی فلم دیکھتے ہوئے ذرا کسی کردار کا لباس سرکتا ہے اور یہ ”اوئی اللہ بے شرم“ کہہ کر اِدھر اُدھر سرک جاتے ہیں، کسی فلم میں زیادہ ہی بے باکی ہو تو سنیما میں دیکھتے وقت یہ اگلی سیٹ کے پیچھے منہ چھپا کر نیچے بیٹھ جاتے اور ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں تو ٹی وی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، اور فلم دیکھنے کے بہ جائے صرف سماعت پر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اب ایسے حیاداروں کے جذبات کی لاج رکھتے ہوئے ”ارطغرل“ میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر ان اداکاروں کو کاسٹ کرنا چاہیے تھا جو تنہائی میں بھی ڈھیلے ڈھالے چُغے پہنتے ہوں اور جنھیں چُغہ ہٹا کر پنڈلی کھجانا ہو تو شرماتے ہوئے چُھنگلی کا اشارہ کرکے محفل سے اٹھیں اور واش روم کی راہ لیں۔ اسی طرح ہم نے پہلی بار دیکھا کہ جو لوگ علمائے دین پر کفر کے فتوے دینے کا الزام لگاتے ہیں وہ ارطغرل کو ان کی وفات کے صدیوں بعد دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے تاریخ کی کتابیں کھوجی گئیں، اور گرد جھاڑ کر خوب گرد اُڑائی گئی، قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، مگر ان حضرات کو جہاں بھی ارطغرل کے مسلمان نہ ہونے کا شک ہوا، اس کا فائدہ خود اٹھانے لگے۔ بہ ہر حال، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ ”ارطغرل“ پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ایک غیرملکی ڈراما ملک کے سرکاری چینل سے کیوں دکھایا جارہا ہے۔ یہ وہ بابو اور بی بیاں ہیں جو ”Be pakistani Buy pakistani“ پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی تصور کے تحت جب بھی موقع ملے انھیں پاکستان کو ”بائے“ کہنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خواتین وحضرات سُپرمین کی فلموں پر ”مولاجٹ“ کو ترجیح دیتے اور ”ریمبو“ سیریز کے بجائے ”ٹوپک زماں قانون“ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہوں گے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اتنا تو کیا ہی جاسکتا تھا کہ اس ڈراما سیریل اور مرکزی کردار کا نام بدل کر ”تُرک دا کھڑاک“، ”وحشی تُرک“، ”اللہ دِتا“،”ارطغرل گُجر“ رکھ دیا جاتا۔ بہ ہر حال، اب تو جو ہونا تھا ہوگیا، امید ہے آئندہ کسی غیرملکی ڈرامے کی ڈبنگ کرتے ہوئے ہماری تجویز پر عمل کیا جائے گا۔
ہم ڈرامے نہیں دیکھتے، یعنی وہ ڈرامے نہیں دیکھتے جو ٹی وی چینلوں سے دکھائے جاتے ہیں، سیاست کا ناٹک اور حکومت کا تھیٹر دیکھنے کے بعد کوئی ڈراما دل کو بھاتا ہی نہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے مقابلے میں سیاسی اور سرکاری ڈرامے کہیں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ ڈرامے بس نشر ہوتے ہیں، یہ ڈرامے تو عوام اور ملک کا حشرنشر کردیتے ہیں۔ اُن ڈراموں کے آخر میں ”دانش“ مرجاتا ہے، انِ ڈراموں کے شروع میں ”دانش“ مرجاتی ہے۔
ٹی وی ڈراموں کے لیے کمپنیاں اشتہار دیتی ہیں اور سیاسی ڈراموں کے لے پوری کی پوری ”بریگیڈ“ اور ”رجمنٹیں“ ماحول سازگار کرکے دیتی ہیں۔ خیر اس وقت ہمیں دونوں طرح کے ڈراموں کا موازنہ نہیں کرنا، ہمیں ذکر کرنا تھا پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل سے دکھائے جانے والے تُرک ڈرامے ”ارطغرل“ کا۔ ”ارطغرل“ ایک تاریخی ڈراما ہے۔ اب آپ یہ کہہ کر ہمارا مذاق اُڑائیں گے کہ ”واہ واہ، بالکل نئی بات بتائی، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ تاریخی ڈراما ہے“ بھیا! بات یہ ہے کہ ہم نے یہ کُلیہ اپنے وزیراعظم سے سیکھا ہے کہ ”لوگوں کو ہمیشہ وہی بات بتاﺅ جو انھیں پہلے سے معلوم ہو، یوں جب انھیں کوئی بات دوبارہ معلوم ہوتی ہے تو اسے ہی علم میں اضافہ ہونا کہتے ہیں۔“ اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو بتایا تھا،”کورونا ایک وائرس ہے۔“ تو پھر جان لیں کہ ارطغرل ایک تاریخی ڈراما ہے اور دوسرا انکشاف یہ کہ یہ ڈراما پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تاریخ سے کتنی دل چسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے کی بیسیویں تاریخ سے ہی تمام ملازمت پیشہ پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ”آج کیا تاریخ ہے؟“،”پہلی تاریخ میں کتنے دن رہ گئے؟“۔
ہمارے نوجوانوں کو اپنی تاریخ طے ہونے کا انتظار رہتا ہے، اور جب یہ طے شدہ تاریخ گزر جاتی ہے تب وہ تاریخ سے یہ سبق سیکھتے ہیں کہ اس تاریخ کے دوبارہ آنے پر یہ تاریخ یاد رکھنی ہے ورنہ دشمن (ساس) کے بچے کو پڑھاتے ہوئے وہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے باجود کچھ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور ایک بار پھر تاریخ طے کرکے تاریخ دہرا دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں کو تو تاریخ سے اس قدر لگاﺅ ہے کہ محض تاریخ پر تاریخ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کردیتے ہیں۔ عوام کی تاریخ سے دل چسپی ہی تو ہے جس کے باعث جب بھی کوئی سیاست داں جلسہ کرنے کی ٹھانتا ہے دیواروں اور پوسٹروں پر یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ موصوف تاریخی خطاب فرمائیں گے۔ اب جو قوم تاریخ پر یوں فدا ہو اسے تاریخی ڈرامے کیوں نہ بھائیں۔ اور اس ڈرامے کی مشہوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پاکستانی نوجوان یہ ڈراما دیکھیں۔ اس سے وزیراعظم کی تاریخ اور ڈراموں سے دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ”ڈراموں کے ذریعے“ نوجوانوں اور قوم وملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
خیر یہ تو ہمیں ارطغرل کے بارے میں ان کے اظہارخیال سے پہلے بھی معلوم تھا۔ رہی تاریخ سے محبت تو اس کا نظارہ ہم خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے انتخابات کی تاریخ کھینچ کر قریب لانے کی کوششوں کی صورت میں کرچکے ہیں۔ ویسے نوازشریف صاحب، عمران خان سے کہیں زیادہ تاریخ سے محبت کرتے ہیں، چناں چہ انھوں نے پُل اور سڑکیں بنائیں یا مستعفی ہونے کی تاریخ بنائی۔ اب لگتا ہے کہ ”رانجھا رانجھا کردی ہُن میں آپے رانجھا ہوئی“ کے مصداق خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ البتہ آصف زرداری صاحب کا میلان تاریخ سے کہیں زیادہ جغرافیے کی طرف ہے، ارضی تبدیلیوں کی بابت جاننے کے لیے وہ ”اراضیوں“ پر نظر رکھتے ہیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ارض زیرتصرف ہو تاکہ اس پر مسلسل نظر رکھی جاسکے۔
تاریخ کے بعد ارطغرل کی پاکستان میں مقبولیت کی دوسری وجہ گھوڑے ہیں۔ اس ڈرامے میں انسانوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے، اس لیے ایسے مناظر سے پاکستانیوں کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ایک مدت سے گھوڑوں کی سواری بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گھوڑے ہیں جن میں سے ہر ایک ”ہارس ٹریڈنگ“ کی بہ دولت سوا لاکھ کے مرے ہوئے ہاتھی سے کہیں مہنگا ہے۔ گھوڑے چارا کھاتے ہیں، مگر یہ گھوڑے چارہ گر کا روپ دھار کر عوام کو بے چارہ کردیتے ہیں۔
اس ڈرامے کے مقبول ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے یہ ایک ایسے عظیم تُرک سردار ارطغرل کی کہانی پر مبنی ہے جو دشمنوں سے جنگ لڑکے تلوار کے ذریعے انھیں تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ ہم پاکستانی یہ سب دیکھ کر حیران ہیں کہ دفاع گانے بنائے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے! جارحیت کا جواب ”اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی“ جیسے دبنگ بیانات دیے بغیر بھی دیا جاسکتا ہے!
یہ تو ہوئے ڈرامے کی مقبولیت کے اسباب، اب تذکرہ کرتے ہیں ان کا جنھیں یہ ڈراما ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ ان میں سے کچھ لوگ ”ارطغرل“ کی کاسٹ میں شامل اداکاروں کی نجی زندگی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے یہ ڈرامے پسند کرنے والوں کو کو ان کے ہیروز کے بے حیا ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ دراصل یہ نقاد بہت باحیا اور شرم والے ہیں، ہالی وڈ کی فلم دیکھتے ہوئے ذرا کسی کردار کا لباس سرکتا ہے اور یہ ”اوئی اللہ بے شرم“ کہہ کر اِدھر اُدھر سرک جاتے ہیں، کسی فلم میں زیادہ ہی بے باکی ہو تو سنیما میں دیکھتے وقت یہ اگلی سیٹ کے پیچھے منہ چھپا کر نیچے بیٹھ جاتے اور ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں تو ٹی وی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، اور فلم دیکھنے کے بہ جائے صرف سماعت پر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اب ایسے حیاداروں کے جذبات کی لاج رکھتے ہوئے ”ارطغرل“ میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر ان اداکاروں کو کاسٹ کرنا چاہیے تھا جو تنہائی میں بھی ڈھیلے ڈھالے چُغے پہنتے ہوں اور جنھیں چُغہ ہٹا کر پنڈلی کھجانا ہو تو شرماتے ہوئے چُھنگلی کا اشارہ کرکے محفل سے اٹھیں اور واش روم کی راہ لیں۔ اسی طرح ہم نے پہلی بار دیکھا کہ جو لوگ علمائے دین پر کفر کے فتوے دینے کا الزام لگاتے ہیں وہ ارطغرل کو ان کی وفات کے صدیوں بعد دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے تاریخ کی کتابیں کھوجی گئیں، اور گرد جھاڑ کر خوب گرد اُڑائی گئی، قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، مگر ان حضرات کو جہاں بھی ارطغرل کے مسلمان نہ ہونے کا شک ہوا، اس کا فائدہ خود اٹھانے لگے۔ بہ ہر حال، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ ”ارطغرل“ پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ایک غیرملکی ڈراما ملک کے سرکاری چینل سے کیوں دکھایا جارہا ہے۔ یہ وہ بابو اور بی بیاں ہیں جو ”Be pakistani Buy pakistani“ پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی تصور کے تحت جب بھی موقع ملے انھیں پاکستان کو ”بائے“ کہنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خواتین وحضرات سُپرمین کی فلموں پر ”مولاجٹ“ کو ترجیح دیتے اور ”ریمبو“ سیریز کے بجائے ”ٹوپک زماں قانون“ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہوں گے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اتنا تو کیا ہی جاسکتا تھا کہ اس ڈراما سیریل اور مرکزی کردار کا نام بدل کر ”تُرک دا کھڑاک“، ”وحشی تُرک“، ”اللہ دِتا“،”ارطغرل گُجر“ رکھ دیا جاتا۔ بہ ہر حال، اب تو جو ہونا تھا ہوگیا، امید ہے آئندہ کسی غیرملکی ڈرامے کی ڈبنگ کرتے ہوئے ہماری تجویز پر عمل کیا جائے گا۔
ہم ڈرامے نہیں دیکھتے، یعنی وہ ڈرامے نہیں دیکھتے جو ٹی وی چینلوں سے دکھائے جاتے ہیں، سیاست کا ناٹک اور حکومت کا تھیٹر دیکھنے کے بعد کوئی ڈراما دل کو بھاتا ہی نہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے مقابلے میں سیاسی اور سرکاری ڈرامے کہیں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ ڈرامے بس نشر ہوتے ہیں، یہ ڈرامے تو عوام اور ملک کا حشرنشر کردیتے ہیں۔ اُن ڈراموں کے آخر میں ”دانش“ مرجاتا ہے، انِ ڈراموں کے شروع میں ”دانش“ مرجاتی ہے۔
ٹی وی ڈراموں کے لیے کمپنیاں اشتہار دیتی ہیں اور سیاسی ڈراموں کے لے پوری کی پوری ”بریگیڈ“ اور ”رجمنٹیں“ ماحول سازگار کرکے دیتی ہیں۔ خیر اس وقت ہمیں دونوں طرح کے ڈراموں کا موازنہ نہیں کرنا، ہمیں ذکر کرنا تھا پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل سے دکھائے جانے والے تُرک ڈرامے ”ارطغرل“ کا۔ ”ارطغرل“ ایک تاریخی ڈراما ہے۔ اب آپ یہ کہہ کر ہمارا مذاق اُڑائیں گے کہ ”واہ واہ، بالکل نئی بات بتائی، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ تاریخی ڈراما ہے“ بھیا! بات یہ ہے کہ ہم نے یہ کُلیہ اپنے وزیراعظم سے سیکھا ہے کہ ”لوگوں کو ہمیشہ وہی بات بتاﺅ جو انھیں پہلے سے معلوم ہو، یوں جب انھیں کوئی بات دوبارہ معلوم ہوتی ہے تو اسے ہی علم میں اضافہ ہونا کہتے ہیں۔“ اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو بتایا تھا،”کورونا ایک وائرس ہے۔“ تو پھر جان لیں کہ ارطغرل ایک تاریخی ڈراما ہے اور دوسرا انکشاف یہ کہ یہ ڈراما پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تاریخ سے کتنی دل چسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے کی بیسیویں تاریخ سے ہی تمام ملازمت پیشہ پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ”آج کیا تاریخ ہے؟“،”پہلی تاریخ میں کتنے دن رہ گئے؟“۔
ہمارے نوجوانوں کو اپنی تاریخ طے ہونے کا انتظار رہتا ہے، اور جب یہ طے شدہ تاریخ گزر جاتی ہے تب وہ تاریخ سے یہ سبق سیکھتے ہیں کہ اس تاریخ کے دوبارہ آنے پر یہ تاریخ یاد رکھنی ہے ورنہ دشمن (ساس) کے بچے کو پڑھاتے ہوئے وہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے باجود کچھ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور ایک بار پھر تاریخ طے کرکے تاریخ دہرا دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں کو تو تاریخ سے اس قدر لگاﺅ ہے کہ محض تاریخ پر تاریخ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کردیتے ہیں۔ عوام کی تاریخ سے دل چسپی ہی تو ہے جس کے باعث جب بھی کوئی سیاست داں جلسہ کرنے کی ٹھانتا ہے دیواروں اور پوسٹروں پر یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ موصوف تاریخی خطاب فرمائیں گے۔ اب جو قوم تاریخ پر یوں فدا ہو اسے تاریخی ڈرامے کیوں نہ بھائیں۔ اور اس ڈرامے کی مشہوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پاکستانی نوجوان یہ ڈراما دیکھیں۔ اس سے وزیراعظم کی تاریخ اور ڈراموں سے دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ”ڈراموں کے ذریعے“ نوجوانوں اور قوم وملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
خیر یہ تو ہمیں ارطغرل کے بارے میں ان کے اظہارخیال سے پہلے بھی معلوم تھا۔ رہی تاریخ سے محبت تو اس کا نظارہ ہم خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے انتخابات کی تاریخ کھینچ کر قریب لانے کی کوششوں کی صورت میں کرچکے ہیں۔ ویسے نوازشریف صاحب، عمران خان سے کہیں زیادہ تاریخ سے محبت کرتے ہیں، چناں چہ انھوں نے پُل اور سڑکیں بنائیں یا مستعفی ہونے کی تاریخ بنائی۔ اب لگتا ہے کہ ”رانجھا رانجھا کردی ہُن میں آپے رانجھا ہوئی“ کے مصداق خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ البتہ آصف زرداری صاحب کا میلان تاریخ سے کہیں زیادہ جغرافیے کی طرف ہے، ارضی تبدیلیوں کی بابت جاننے کے لیے وہ ”اراضیوں“ پر نظر رکھتے ہیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ارض زیرتصرف ہو تاکہ اس پر مسلسل نظر رکھی جاسکے۔
تاریخ کے بعد ارطغرل کی پاکستان میں مقبولیت کی دوسری وجہ گھوڑے ہیں۔ اس ڈرامے میں انسانوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے، اس لیے ایسے مناظر سے پاکستانیوں کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ایک مدت سے گھوڑوں کی سواری بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گھوڑے ہیں جن میں سے ہر ایک ”ہارس ٹریڈنگ“ کی بہ دولت سوا لاکھ کے مرے ہوئے ہاتھی سے کہیں مہنگا ہے۔ گھوڑے چارا کھاتے ہیں، مگر یہ گھوڑے چارہ گر کا روپ دھار کر عوام کو بے چارہ کردیتے ہیں۔
اس ڈرامے کے مقبول ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے یہ ایک ایسے عظیم تُرک سردار ارطغرل کی کہانی پر مبنی ہے جو دشمنوں سے جنگ لڑکے تلوار کے ذریعے انھیں تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ ہم پاکستانی یہ سب دیکھ کر حیران ہیں کہ دفاع گانے بنائے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے! جارحیت کا جواب ”اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی“ جیسے دبنگ بیانات دیے بغیر بھی دیا جاسکتا ہے!
یہ تو ہوئے ڈرامے کی مقبولیت کے اسباب، اب تذکرہ کرتے ہیں ان کا جنھیں یہ ڈراما ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ ان میں سے کچھ لوگ ”ارطغرل“ کی کاسٹ میں شامل اداکاروں کی نجی زندگی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے یہ ڈرامے پسند کرنے والوں کو کو ان کے ہیروز کے بے حیا ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ دراصل یہ نقاد بہت باحیا اور شرم والے ہیں، ہالی وڈ کی فلم دیکھتے ہوئے ذرا کسی کردار کا لباس سرکتا ہے اور یہ ”اوئی اللہ بے شرم“ کہہ کر اِدھر اُدھر سرک جاتے ہیں، کسی فلم میں زیادہ ہی بے باکی ہو تو سنیما میں دیکھتے وقت یہ اگلی سیٹ کے پیچھے منہ چھپا کر نیچے بیٹھ جاتے اور ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں تو ٹی وی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، اور فلم دیکھنے کے بہ جائے صرف سماعت پر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اب ایسے حیاداروں کے جذبات کی لاج رکھتے ہوئے ”ارطغرل“ میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر ان اداکاروں کو کاسٹ کرنا چاہیے تھا جو تنہائی میں بھی ڈھیلے ڈھالے چُغے پہنتے ہوں اور جنھیں چُغہ ہٹا کر پنڈلی کھجانا ہو تو شرماتے ہوئے چُھنگلی کا اشارہ کرکے محفل سے اٹھیں اور واش روم کی راہ لیں۔ اسی طرح ہم نے پہلی بار دیکھا کہ جو لوگ علمائے دین پر کفر کے فتوے دینے کا الزام لگاتے ہیں وہ ارطغرل کو ان کی وفات کے صدیوں بعد دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے تاریخ کی کتابیں کھوجی گئیں، اور گرد جھاڑ کر خوب گرد اُڑائی گئی، قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، مگر ان حضرات کو جہاں بھی ارطغرل کے مسلمان نہ ہونے کا شک ہوا، اس کا فائدہ خود اٹھانے لگے۔ بہ ہر حال، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ ”ارطغرل“ پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ایک غیرملکی ڈراما ملک کے سرکاری چینل سے کیوں دکھایا جارہا ہے۔ یہ وہ بابو اور بی بیاں ہیں جو ”Be pakistani Buy pakistani“ پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی تصور کے تحت جب بھی موقع ملے انھیں پاکستان کو ”بائے“ کہنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خواتین وحضرات سُپرمین کی فلموں پر ”مولاجٹ“ کو ترجیح دیتے اور ”ریمبو“ سیریز کے بجائے ”ٹوپک زماں قانون“ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہوں گے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اتنا تو کیا ہی جاسکتا تھا کہ اس ڈراما سیریل اور مرکزی کردار کا نام بدل کر ”تُرک دا کھڑاک“، ”وحشی تُرک“، ”اللہ دِتا“،”ارطغرل گُجر“ رکھ دیا جاتا۔ بہ ہر حال، اب تو جو ہونا تھا ہوگیا، امید ہے آئندہ کسی غیرملکی ڈرامے کی ڈبنگ کرتے ہوئے ہماری تجویز پر عمل کیا جائے گا۔
ہم ڈرامے نہیں دیکھتے، یعنی وہ ڈرامے نہیں دیکھتے جو ٹی وی چینلوں سے دکھائے جاتے ہیں، سیاست کا ناٹک اور حکومت کا تھیٹر دیکھنے کے بعد کوئی ڈراما دل کو بھاتا ہی نہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے مقابلے میں سیاسی اور سرکاری ڈرامے کہیں زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ ڈرامے بس نشر ہوتے ہیں، یہ ڈرامے تو عوام اور ملک کا حشرنشر کردیتے ہیں۔ اُن ڈراموں کے آخر میں ”دانش“ مرجاتا ہے، انِ ڈراموں کے شروع میں ”دانش“ مرجاتی ہے۔
ٹی وی ڈراموں کے لیے کمپنیاں اشتہار دیتی ہیں اور سیاسی ڈراموں کے لے پوری کی پوری ”بریگیڈ“ اور ”رجمنٹیں“ ماحول سازگار کرکے دیتی ہیں۔ خیر اس وقت ہمیں دونوں طرح کے ڈراموں کا موازنہ نہیں کرنا، ہمیں ذکر کرنا تھا پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل سے دکھائے جانے والے تُرک ڈرامے ”ارطغرل“ کا۔ ”ارطغرل“ ایک تاریخی ڈراما ہے۔ اب آپ یہ کہہ کر ہمارا مذاق اُڑائیں گے کہ ”واہ واہ، بالکل نئی بات بتائی، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ تاریخی ڈراما ہے“ بھیا! بات یہ ہے کہ ہم نے یہ کُلیہ اپنے وزیراعظم سے سیکھا ہے کہ ”لوگوں کو ہمیشہ وہی بات بتاﺅ جو انھیں پہلے سے معلوم ہو، یوں جب انھیں کوئی بات دوبارہ معلوم ہوتی ہے تو اسے ہی علم میں اضافہ ہونا کہتے ہیں۔“ اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو بتایا تھا،”کورونا ایک وائرس ہے۔“ تو پھر جان لیں کہ ارطغرل ایک تاریخی ڈراما ہے اور دوسرا انکشاف یہ کہ یہ ڈراما پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تاریخ سے کتنی دل چسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے کی بیسیویں تاریخ سے ہی تمام ملازمت پیشہ پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ”آج کیا تاریخ ہے؟“،”پہلی تاریخ میں کتنے دن رہ گئے؟“۔
ہمارے نوجوانوں کو اپنی تاریخ طے ہونے کا انتظار رہتا ہے، اور جب یہ طے شدہ تاریخ گزر جاتی ہے تب وہ تاریخ سے یہ سبق سیکھتے ہیں کہ اس تاریخ کے دوبارہ آنے پر یہ تاریخ یاد رکھنی ہے ورنہ دشمن (ساس) کے بچے کو پڑھاتے ہوئے وہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے باجود کچھ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور ایک بار پھر تاریخ طے کرکے تاریخ دہرا دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں کو تو تاریخ سے اس قدر لگاﺅ ہے کہ محض تاریخ پر تاریخ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کردیتے ہیں۔ عوام کی تاریخ سے دل چسپی ہی تو ہے جس کے باعث جب بھی کوئی سیاست داں جلسہ کرنے کی ٹھانتا ہے دیواروں اور پوسٹروں پر یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ موصوف تاریخی خطاب فرمائیں گے۔ اب جو قوم تاریخ پر یوں فدا ہو اسے تاریخی ڈرامے کیوں نہ بھائیں۔ اور اس ڈرامے کی مشہوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پاکستانی نوجوان یہ ڈراما دیکھیں۔ اس سے وزیراعظم کی تاریخ اور ڈراموں سے دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ”ڈراموں کے ذریعے“ نوجوانوں اور قوم وملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
خیر یہ تو ہمیں ارطغرل کے بارے میں ان کے اظہارخیال سے پہلے بھی معلوم تھا۔ رہی تاریخ سے محبت تو اس کا نظارہ ہم خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے انتخابات کی تاریخ کھینچ کر قریب لانے کی کوششوں کی صورت میں کرچکے ہیں۔ ویسے نوازشریف صاحب، عمران خان سے کہیں زیادہ تاریخ سے محبت کرتے ہیں، چناں چہ انھوں نے پُل اور سڑکیں بنائیں یا مستعفی ہونے کی تاریخ بنائی۔ اب لگتا ہے کہ ”رانجھا رانجھا کردی ہُن میں آپے رانجھا ہوئی“ کے مصداق خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ البتہ آصف زرداری صاحب کا میلان تاریخ سے کہیں زیادہ جغرافیے کی طرف ہے، ارضی تبدیلیوں کی بابت جاننے کے لیے وہ ”اراضیوں“ پر نظر رکھتے ہیں، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ارض زیرتصرف ہو تاکہ اس پر مسلسل نظر رکھی جاسکے۔
تاریخ کے بعد ارطغرل کی پاکستان میں مقبولیت کی دوسری وجہ گھوڑے ہیں۔ اس ڈرامے میں انسانوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے، اس لیے ایسے مناظر سے پاکستانیوں کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ایک مدت سے گھوڑوں کی سواری بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گھوڑے ہیں جن میں سے ہر ایک ”ہارس ٹریڈنگ“ کی بہ دولت سوا لاکھ کے مرے ہوئے ہاتھی سے کہیں مہنگا ہے۔ گھوڑے چارا کھاتے ہیں، مگر یہ گھوڑے چارہ گر کا روپ دھار کر عوام کو بے چارہ کردیتے ہیں۔
اس ڈرامے کے مقبول ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے یہ ایک ایسے عظیم تُرک سردار ارطغرل کی کہانی پر مبنی ہے جو دشمنوں سے جنگ لڑکے تلوار کے ذریعے انھیں تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ ہم پاکستانی یہ سب دیکھ کر حیران ہیں کہ دفاع گانے بنائے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے! جارحیت کا جواب ”اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی“ جیسے دبنگ بیانات دیے بغیر بھی دیا جاسکتا ہے!
یہ تو ہوئے ڈرامے کی مقبولیت کے اسباب، اب تذکرہ کرتے ہیں ان کا جنھیں یہ ڈراما ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ ان میں سے کچھ لوگ ”ارطغرل“ کی کاسٹ میں شامل اداکاروں کی نجی زندگی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے یہ ڈرامے پسند کرنے والوں کو کو ان کے ہیروز کے بے حیا ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ دراصل یہ نقاد بہت باحیا اور شرم والے ہیں، ہالی وڈ کی فلم دیکھتے ہوئے ذرا کسی کردار کا لباس سرکتا ہے اور یہ ”اوئی اللہ بے شرم“ کہہ کر اِدھر اُدھر سرک جاتے ہیں، کسی فلم میں زیادہ ہی بے باکی ہو تو سنیما میں دیکھتے وقت یہ اگلی سیٹ کے پیچھے منہ چھپا کر نیچے بیٹھ جاتے اور ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں تو ٹی وی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، اور فلم دیکھنے کے بہ جائے صرف سماعت پر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اب ایسے حیاداروں کے جذبات کی لاج رکھتے ہوئے ”ارطغرل“ میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر ان اداکاروں کو کاسٹ کرنا چاہیے تھا جو تنہائی میں بھی ڈھیلے ڈھالے چُغے پہنتے ہوں اور جنھیں چُغہ ہٹا کر پنڈلی کھجانا ہو تو شرماتے ہوئے چُھنگلی کا اشارہ کرکے محفل سے اٹھیں اور واش روم کی راہ لیں۔ اسی طرح ہم نے پہلی بار دیکھا کہ جو لوگ علمائے دین پر کفر کے فتوے دینے کا الزام لگاتے ہیں وہ ارطغرل کو ان کی وفات کے صدیوں بعد دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے تاریخ کی کتابیں کھوجی گئیں، اور گرد جھاڑ کر خوب گرد اُڑائی گئی، قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، مگر ان حضرات کو جہاں بھی ارطغرل کے مسلمان نہ ہونے کا شک ہوا، اس کا فائدہ خود اٹھانے لگے۔ بہ ہر حال، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ ”ارطغرل“ پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ایک غیرملکی ڈراما ملک کے سرکاری چینل سے کیوں دکھایا جارہا ہے۔ یہ وہ بابو اور بی بیاں ہیں جو ”Be pakistani Buy pakistani“ پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی تصور کے تحت جب بھی موقع ملے انھیں پاکستان کو ”بائے“ کہنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خواتین وحضرات سُپرمین کی فلموں پر ”مولاجٹ“ کو ترجیح دیتے اور ”ریمبو“ سیریز کے بجائے ”ٹوپک زماں قانون“ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہوں گے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اتنا تو کیا ہی جاسکتا تھا کہ اس ڈراما سیریل اور مرکزی کردار کا نام بدل کر ”تُرک دا کھڑاک“، ”وحشی تُرک“، ”اللہ دِتا“،”ارطغرل گُجر“ رکھ دیا جاتا۔ بہ ہر حال، اب تو جو ہونا تھا ہوگیا، امید ہے آئندہ کسی غیرملکی ڈرامے کی ڈبنگ کرتے ہوئے ہماری تجویز پر عمل کیا جائے گا۔