• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home کتاب اور صاحب کتاب

غلام عباس کے افسانوں کی عورت

اقراانجم

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
June 6, 2020
in کتاب اور صاحب کتاب
0
غلام عباس کے افسانوں کی عورت
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

خواتین جو کہ اس معاشرے کا لازمی جزو ہیں اور کسی بھی معاشرے میں ان کی اہمیت ثانوی نہیں ہو سکتی غلام عباس نے اپنے افسانوں میں عورت کو بہت خوب صورت اور سلجھے ہوئے انداز سے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ منٹو اور عصمت کی طرح کہیں بھی عورت کو کھول کر بیان نہیں کیا۔ عورت کا ذکر مشرقی شرم و حیا کو مدنظر رکھ کر گیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مشرقی حسن سے بھی نوازا۔ غلام عباس چونکہ عام آدمی کا افسانہ نگار ہے، اسی لیے عورت کی معاشرے میں عزت اور اس پر ہونے والے مظالم کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کی نفسیات اس پر ہونے والے ظلم وستم اور اس کے جنسی استحصال کو موضوع بنایا اور معاشرے کو حقیقی عکس دکھایا . وہ خاص کرداروں کی بجائے عام کرداروں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا . غلام عباس کے افسانوں میں ہمیں ہر قسم کے کردار نظر آتے ہیں خاص کر نسوانی کرداروں کی بات کی جائے تو طوائف کا حوالہ ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے شاید اس زمانے میں طوائف ایک عام اور اہم موضوع تھا مثال کے طور پر” ناک کاٹنے والے کی بالی” ,” آنندی کی بیسوائیں “, “اس کی بیوی” ,”کن رس کی لڑکیاں” , اور اس کے علاوہ غیر مطبوعہ افسانوں میں بھی مشہور طوائف کا ذکر آتا ہے غلام عباس کے افسانوں میں عورت چاہے طوائف ہے فحش روپ میں نظر نہیں آتی بلکہ دھیمے لہجے میں اس کے احوال کو بتایا گیا ہے
اس کی مجبوریاں بتائی گئی ہیں کن حالات میں وہ مجبور ہے اپنے آپ کو اس ظالم سماج کے حوالے کرنے کے لیے آنندی اس لحاظ سے قابل داد افسانہ ہے پہلےانھیں شہر بدر کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ تماش بین پھر نکال کے ان ہی کی بستی کی طرف رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری سوسائٹی کا المیہ ہے، بظاہر طوائف بری ہے لیکن اپنے مقاصد کے لیے ان کا استعمال جائز ہے لیکن کیوں؟ تب ان نام نہاد لوگوں کی عزت اور غیرت کہاں جاتی ہے؟ آنندی افسانے سے ہی ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عورت کا کیسا تصور اپنے ذہن میں رکھتے ہیں آنندی میں وہ طوائف کے ساتھ ساتھ تین اور بڑے کرداروں کی حقیقت بتاتے نظر آتے ہیں جو ان عورتوں کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں کیونکہ انسانی جبلت اور خواہشات کے راستے میں کوئی دیوار قائم نہیں رہ سکتی۔ میں سادہ الفاظ میں کہتی ہوں کہ انسان اپنے شوق کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو توڑ ڈالتا ہے۔ آنندی قابل داد افسانہ ہونے کے ساتھ معاشرے کی اس تلخ حقیقت پر گہری چوٹ ہے غلام عباس کے افسانوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ بھی ہے۔

انگارے کے مضامین اور ترقی پسند تحریک نےجس طرح عورت ہر کھل کر لکھنے کی ہمت دی تھی، وہ لکھ سکتے تھے منٹو کی پیروی کر سکتے تھے، اس جیسا موضوع شروع کر سکتے تھے لیکن وہ عورت کی ذات پر حملہ نہیں کرتے اور سلجھے ہوئے انداز میں اس کی مشکلات کو معاشرے کے سامنے لاتے ہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں شاید وہ دو شادیاں کرنے کے باوجود عورت کو جان نہ سکے لیکن میرے خیال میں وہ یہ جان چکے تھے کہ عورت حساس ہے اس کی ذات پر اوروں کی طرح حملہ نہیں کیا جاسکتا اور شرم وحیا کا عنصر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔  افسانہ “اس کی بیوی” میں نوجوان کو فحش نہیں دکھایا گیا بلکہ وہ اس عورت میں بھی اپنی بیوی کا عکس دیکھتا ہے حمام میں , سیاہ و سفید ,سرخ گلاب , یہ تمام عورتوں پر لکھے گئے “غازی مرد کی اندھی بیوی ” “چراغ بی بی “ہمیں افسانوں میں دبی ہوئی عاجز اور مسکین نظر آتی ہیں اور حقیقت یہ کہ آج بھی معاشرہ چاہیے کتنا ہی ترقی یافتہ ہے عورت دبی ہوئی نظر آتی ہے.” اس کی بیوی” کی نسرین اس جگہ پوری عورت نظر آتی ہے جب وہ مرد کی داستان نہیں بلکہ سوتے ہوئے رونے کے باعث اسے اپنے دامن میں سمو لیتی ہے غلام عباس نے نسرین کے کرداد میں چھپی ہوئی محبت اور مامتا کو ہمارے سامنے لا کر اس اٹل حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محبت اور مامتا عورت کی وراثت اور جبلت ہے جو کسی صورت اس سے نہیں چھینی جا سکتی .” حمام میں ” کی فرخ بی بی بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو زندگی کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے مگر رزق کی فراہمی کا سہارا چھن جانے پر اسے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے وہ کام کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتی بے بس اور مجبور ہے اسی طرح افسانہ ” سیاہ و سفید” کی فرسٹریشن کی شکار عورت اور عارضی محبوبہ کا ایک اچھا اور کامیاب نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اپنے بد رنگ ماحول سے دور دہلی میں وہ اڑان کے لیے پرتولتی ہے لیکن ساتھ ہی مرد کے گھٹیا پن اور پھر خود اس کی سطح پر آجانے سے اپنے سستے ہوجانے کا احساس بھی ہوتا ہے یوں اس کے خواب کانچ کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

غلام عباس سچے اور کھرے ہیں وہ بات کو طول نہیں دیتے۔ معاشرے میں جو جیسا ہے ویسا ہی دکھاتے ہیں۔ غلام عباس کے افسانوں میں چاہیے عورت کو ثانوی درجہ حاصل ہے لیکن عورت کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ہی کہتے ہیں کہ عورت چاہتی ہے کہ اس سے پیار کیا جائے اور اسے تحفظ کا احساس دلایا جائے یہ مشرقی روایات کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے قاری دلچسپی کا عنصر نہیں کھوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تازگی اور شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی بنا پر وہ اردو کے اولین حقیقت پسند افسانہ نگار کہلائے۔ طوائف معاشرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے اور اس داغ کو ہم خود ہی پروان چڑھاتے ہیں۔ طوائف پیدا نہیں ہوتی بلکہ اسے معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ غلام عباس طوائف کو ہرگز پسند نہیں کرتے لیکن اس سے نفرت بھی نہیں کرتے بلکہ اس سے ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ مسئلہ آج بھی جوں کا تو ہے اور ایسا ہی رہے گا کیونکہ فساد کی جڑ تو وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے اس گند کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتے۔ غلام عباس نے اپنے افسانے آنندی میں حقیقت نگاری کو  اردو افسانے میں  نقطہ عروج  پر پہنچا دیا ہے۔

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: افسانہحقیقت نگاریدبطوائفعروتغلام عباس
Previous Post

فوج نے بھارتی جاسوس طیارہ مار گرایا

Next Post

ہم بھی ڈاکٹر کیری ہیں؟

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
فطرت کا اصول اور کورونا

ہم بھی ڈاکٹر کیری ہیں؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions