Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
خواتین جو کہ اس معاشرے کا لازمی جزو ہیں اور کسی بھی معاشرے میں ان کی اہمیت ثانوی نہیں ہو سکتی غلام عباس نے اپنے افسانوں میں عورت کو بہت خوب صورت اور سلجھے ہوئے انداز سے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ منٹو اور عصمت کی طرح کہیں بھی عورت کو کھول کر بیان نہیں کیا۔ عورت کا ذکر مشرقی شرم و حیا کو مدنظر رکھ کر گیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مشرقی حسن سے بھی نوازا۔ غلام عباس چونکہ عام آدمی کا افسانہ نگار ہے، اسی لیے عورت کی معاشرے میں عزت اور اس پر ہونے والے مظالم کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کی نفسیات اس پر ہونے والے ظلم وستم اور اس کے جنسی استحصال کو موضوع بنایا اور معاشرے کو حقیقی عکس دکھایا . وہ خاص کرداروں کی بجائے عام کرداروں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا . غلام عباس کے افسانوں میں ہمیں ہر قسم کے کردار نظر آتے ہیں خاص کر نسوانی کرداروں کی بات کی جائے تو طوائف کا حوالہ ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے شاید اس زمانے میں طوائف ایک عام اور اہم موضوع تھا مثال کے طور پر” ناک کاٹنے والے کی بالی” ,” آنندی کی بیسوائیں “, “اس کی بیوی” ,”کن رس کی لڑکیاں” , اور اس کے علاوہ غیر مطبوعہ افسانوں میں بھی مشہور طوائف کا ذکر آتا ہے غلام عباس کے افسانوں میں عورت چاہے طوائف ہے فحش روپ میں نظر نہیں آتی بلکہ دھیمے لہجے میں اس کے احوال کو بتایا گیا ہے
اس کی مجبوریاں بتائی گئی ہیں کن حالات میں وہ مجبور ہے اپنے آپ کو اس ظالم سماج کے حوالے کرنے کے لیے آنندی اس لحاظ سے قابل داد افسانہ ہے پہلےانھیں شہر بدر کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ تماش بین پھر نکال کے ان ہی کی بستی کی طرف رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری سوسائٹی کا المیہ ہے، بظاہر طوائف بری ہے لیکن اپنے مقاصد کے لیے ان کا استعمال جائز ہے لیکن کیوں؟ تب ان نام نہاد لوگوں کی عزت اور غیرت کہاں جاتی ہے؟ آنندی افسانے سے ہی ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عورت کا کیسا تصور اپنے ذہن میں رکھتے ہیں آنندی میں وہ طوائف کے ساتھ ساتھ تین اور بڑے کرداروں کی حقیقت بتاتے نظر آتے ہیں جو ان عورتوں کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں کیونکہ انسانی جبلت اور خواہشات کے راستے میں کوئی دیوار قائم نہیں رہ سکتی۔ میں سادہ الفاظ میں کہتی ہوں کہ انسان اپنے شوق کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو توڑ ڈالتا ہے۔ آنندی قابل داد افسانہ ہونے کے ساتھ معاشرے کی اس تلخ حقیقت پر گہری چوٹ ہے غلام عباس کے افسانوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ بھی ہے۔
انگارے کے مضامین اور ترقی پسند تحریک نےجس طرح عورت ہر کھل کر لکھنے کی ہمت دی تھی، وہ لکھ سکتے تھے منٹو کی پیروی کر سکتے تھے، اس جیسا موضوع شروع کر سکتے تھے لیکن وہ عورت کی ذات پر حملہ نہیں کرتے اور سلجھے ہوئے انداز میں اس کی مشکلات کو معاشرے کے سامنے لاتے ہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں شاید وہ دو شادیاں کرنے کے باوجود عورت کو جان نہ سکے لیکن میرے خیال میں وہ یہ جان چکے تھے کہ عورت حساس ہے اس کی ذات پر اوروں کی طرح حملہ نہیں کیا جاسکتا اور شرم وحیا کا عنصر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ افسانہ “اس کی بیوی” میں نوجوان کو فحش نہیں دکھایا گیا بلکہ وہ اس عورت میں بھی اپنی بیوی کا عکس دیکھتا ہے حمام میں , سیاہ و سفید ,سرخ گلاب , یہ تمام عورتوں پر لکھے گئے “غازی مرد کی اندھی بیوی ” “چراغ بی بی “ہمیں افسانوں میں دبی ہوئی عاجز اور مسکین نظر آتی ہیں اور حقیقت یہ کہ آج بھی معاشرہ چاہیے کتنا ہی ترقی یافتہ ہے عورت دبی ہوئی نظر آتی ہے.” اس کی بیوی” کی نسرین اس جگہ پوری عورت نظر آتی ہے جب وہ مرد کی داستان نہیں بلکہ سوتے ہوئے رونے کے باعث اسے اپنے دامن میں سمو لیتی ہے غلام عباس نے نسرین کے کرداد میں چھپی ہوئی محبت اور مامتا کو ہمارے سامنے لا کر اس اٹل حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محبت اور مامتا عورت کی وراثت اور جبلت ہے جو کسی صورت اس سے نہیں چھینی جا سکتی .” حمام میں ” کی فرخ بی بی بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو زندگی کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے مگر رزق کی فراہمی کا سہارا چھن جانے پر اسے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے وہ کام کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتی بے بس اور مجبور ہے اسی طرح افسانہ ” سیاہ و سفید” کی فرسٹریشن کی شکار عورت اور عارضی محبوبہ کا ایک اچھا اور کامیاب نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اپنے بد رنگ ماحول سے دور دہلی میں وہ اڑان کے لیے پرتولتی ہے لیکن ساتھ ہی مرد کے گھٹیا پن اور پھر خود اس کی سطح پر آجانے سے اپنے سستے ہوجانے کا احساس بھی ہوتا ہے یوں اس کے خواب کانچ کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔
غلام عباس سچے اور کھرے ہیں وہ بات کو طول نہیں دیتے۔ معاشرے میں جو جیسا ہے ویسا ہی دکھاتے ہیں۔ غلام عباس کے افسانوں میں چاہیے عورت کو ثانوی درجہ حاصل ہے لیکن عورت کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ہی کہتے ہیں کہ عورت چاہتی ہے کہ اس سے پیار کیا جائے اور اسے تحفظ کا احساس دلایا جائے یہ مشرقی روایات کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے قاری دلچسپی کا عنصر نہیں کھوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تازگی اور شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی بنا پر وہ اردو کے اولین حقیقت پسند افسانہ نگار کہلائے۔ طوائف معاشرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے اور اس داغ کو ہم خود ہی پروان چڑھاتے ہیں۔ طوائف پیدا نہیں ہوتی بلکہ اسے معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ غلام عباس طوائف کو ہرگز پسند نہیں کرتے لیکن اس سے نفرت بھی نہیں کرتے بلکہ اس سے ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ مسئلہ آج بھی جوں کا تو ہے اور ایسا ہی رہے گا کیونکہ فساد کی جڑ تو وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے اس گند کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتے۔ غلام عباس نے اپنے افسانے آنندی میں حقیقت نگاری کو اردو افسانے میں نقطہ عروج پر پہنچا دیا ہے۔