Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وفاقی اور صوبائی وزراء چینی چینی کھیل رھے ھیں۔یہ چار سے چھ وزراء/ترجمان/مشیر روزانہ شام کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں۔ عوام کو چینی کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے۔
جو پیسے عوام کی جیبوں سے نکل گئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شھر اس وقت چینی سے کہیں بڑے مسائل کا شکار ھے۔ ایک طرف کراچی کے شھری بوند بوند پانی کو ترس رھے ہیں تو دوسری طرف ہائیڈرنٹس کے زریعے پورے شھر کو پانی کی فروخت جاری ھے۔ کوئ پوچھنے والا نہیں۔ پانی کی اس فروخت کا پیسہ خدا جانے کس کس کی جیب میں جاتا ھے۔ شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔
بجلی والوں کی بد معاشیاں اور زیادتیاں عروج پر ہیں۔ بلوں کی یہ حالت ھے کہ آدھا شھر تو صرف کراچی الیکٹرک کے بل ادا کرنے کے لیے ملازمت کر رہا ھے۔ لوگوں کی آدھی تنخواہ یا ان کی تنخواہ کا تیسرا حصہ بجلی کے بل ادا کرنے میں چلا جاتا ھے۔
کراچی الیکٹرک کی بد معاشی یہیں ختم نہیں ھو جاتی۔ ان کی مرضی ھے کس علاقے کو بجلی دینی ھے اور کس علاقے کو نہیں دینی۔ گھنٹوں گھنٹوں faults کے نام پر بجلی بند کر دی جاتی ھے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی بات کی کوئی justification نہیں۔ آپ نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ شکایت۔ شھر کا مسئلہ مہنگی چینی نہیں بجلی ھے۔ شھری بناء چینی کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء بجلی کے نہیں۔
اسی طرح شھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ کراچی کے شھری نجی ٹرانسپورٹ کے رحم وکرم پر ہیں۔ لوگ بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کے لیے سفر کرنا اور بھی مشکل ھے۔ گھنٹوں اپنی مطلوبہ گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ھے اور جب گاڑی آتی ھے تو زنانہ حصے میں بھی مرد حضرات موجود ھوتے ہیں اور یوں کام کرنے والی خواتین اور طالبات جس اذیت سے دوچار ھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ھے۔شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء مناسب ٹرانسپورٹ کے نہیں۔
کراچی کے عوام وفاقی اور صوبائی وزراء ، مشیروں اور ترجمانوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ ڈگڈگی کو ایک طرف رکھ کر چینی تماشہ ختم کیجیے اور عوام کو پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کیجیے۔ تمام واٹر ہائیڈرنٹس کو فوری طور پر بند کروایا جاۓ، بجلی کے محکمہ کو لگام دے۔اور شھر میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف کروایا جاۓ۔
وفاقی اور صوبائی وزراء چینی چینی کھیل رھے ھیں۔یہ چار سے چھ وزراء/ترجمان/مشیر روزانہ شام کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں۔ عوام کو چینی کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے۔
جو پیسے عوام کی جیبوں سے نکل گئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شھر اس وقت چینی سے کہیں بڑے مسائل کا شکار ھے۔ ایک طرف کراچی کے شھری بوند بوند پانی کو ترس رھے ہیں تو دوسری طرف ہائیڈرنٹس کے زریعے پورے شھر کو پانی کی فروخت جاری ھے۔ کوئ پوچھنے والا نہیں۔ پانی کی اس فروخت کا پیسہ خدا جانے کس کس کی جیب میں جاتا ھے۔ شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔
بجلی والوں کی بد معاشیاں اور زیادتیاں عروج پر ہیں۔ بلوں کی یہ حالت ھے کہ آدھا شھر تو صرف کراچی الیکٹرک کے بل ادا کرنے کے لیے ملازمت کر رہا ھے۔ لوگوں کی آدھی تنخواہ یا ان کی تنخواہ کا تیسرا حصہ بجلی کے بل ادا کرنے میں چلا جاتا ھے۔
کراچی الیکٹرک کی بد معاشی یہیں ختم نہیں ھو جاتی۔ ان کی مرضی ھے کس علاقے کو بجلی دینی ھے اور کس علاقے کو نہیں دینی۔ گھنٹوں گھنٹوں faults کے نام پر بجلی بند کر دی جاتی ھے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی بات کی کوئی justification نہیں۔ آپ نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ شکایت۔ شھر کا مسئلہ مہنگی چینی نہیں بجلی ھے۔ شھری بناء چینی کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء بجلی کے نہیں۔
اسی طرح شھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ کراچی کے شھری نجی ٹرانسپورٹ کے رحم وکرم پر ہیں۔ لوگ بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کے لیے سفر کرنا اور بھی مشکل ھے۔ گھنٹوں اپنی مطلوبہ گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ھے اور جب گاڑی آتی ھے تو زنانہ حصے میں بھی مرد حضرات موجود ھوتے ہیں اور یوں کام کرنے والی خواتین اور طالبات جس اذیت سے دوچار ھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ھے۔شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء مناسب ٹرانسپورٹ کے نہیں۔
کراچی کے عوام وفاقی اور صوبائی وزراء ، مشیروں اور ترجمانوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ ڈگڈگی کو ایک طرف رکھ کر چینی تماشہ ختم کیجیے اور عوام کو پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کیجیے۔ تمام واٹر ہائیڈرنٹس کو فوری طور پر بند کروایا جاۓ، بجلی کے محکمہ کو لگام دے۔اور شھر میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف کروایا جاۓ۔
وفاقی اور صوبائی وزراء چینی چینی کھیل رھے ھیں۔یہ چار سے چھ وزراء/ترجمان/مشیر روزانہ شام کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں۔ عوام کو چینی کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے۔
جو پیسے عوام کی جیبوں سے نکل گئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شھر اس وقت چینی سے کہیں بڑے مسائل کا شکار ھے۔ ایک طرف کراچی کے شھری بوند بوند پانی کو ترس رھے ہیں تو دوسری طرف ہائیڈرنٹس کے زریعے پورے شھر کو پانی کی فروخت جاری ھے۔ کوئ پوچھنے والا نہیں۔ پانی کی اس فروخت کا پیسہ خدا جانے کس کس کی جیب میں جاتا ھے۔ شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔
بجلی والوں کی بد معاشیاں اور زیادتیاں عروج پر ہیں۔ بلوں کی یہ حالت ھے کہ آدھا شھر تو صرف کراچی الیکٹرک کے بل ادا کرنے کے لیے ملازمت کر رہا ھے۔ لوگوں کی آدھی تنخواہ یا ان کی تنخواہ کا تیسرا حصہ بجلی کے بل ادا کرنے میں چلا جاتا ھے۔
کراچی الیکٹرک کی بد معاشی یہیں ختم نہیں ھو جاتی۔ ان کی مرضی ھے کس علاقے کو بجلی دینی ھے اور کس علاقے کو نہیں دینی۔ گھنٹوں گھنٹوں faults کے نام پر بجلی بند کر دی جاتی ھے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی بات کی کوئی justification نہیں۔ آپ نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ شکایت۔ شھر کا مسئلہ مہنگی چینی نہیں بجلی ھے۔ شھری بناء چینی کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء بجلی کے نہیں۔
اسی طرح شھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ کراچی کے شھری نجی ٹرانسپورٹ کے رحم وکرم پر ہیں۔ لوگ بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کے لیے سفر کرنا اور بھی مشکل ھے۔ گھنٹوں اپنی مطلوبہ گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ھے اور جب گاڑی آتی ھے تو زنانہ حصے میں بھی مرد حضرات موجود ھوتے ہیں اور یوں کام کرنے والی خواتین اور طالبات جس اذیت سے دوچار ھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ھے۔شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء مناسب ٹرانسپورٹ کے نہیں۔
کراچی کے عوام وفاقی اور صوبائی وزراء ، مشیروں اور ترجمانوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ ڈگڈگی کو ایک طرف رکھ کر چینی تماشہ ختم کیجیے اور عوام کو پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کیجیے۔ تمام واٹر ہائیڈرنٹس کو فوری طور پر بند کروایا جاۓ، بجلی کے محکمہ کو لگام دے۔اور شھر میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف کروایا جاۓ۔
وفاقی اور صوبائی وزراء چینی چینی کھیل رھے ھیں۔یہ چار سے چھ وزراء/ترجمان/مشیر روزانہ شام کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں۔ عوام کو چینی کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے۔
جو پیسے عوام کی جیبوں سے نکل گئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شھر اس وقت چینی سے کہیں بڑے مسائل کا شکار ھے۔ ایک طرف کراچی کے شھری بوند بوند پانی کو ترس رھے ہیں تو دوسری طرف ہائیڈرنٹس کے زریعے پورے شھر کو پانی کی فروخت جاری ھے۔ کوئ پوچھنے والا نہیں۔ پانی کی اس فروخت کا پیسہ خدا جانے کس کس کی جیب میں جاتا ھے۔ شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔
بجلی والوں کی بد معاشیاں اور زیادتیاں عروج پر ہیں۔ بلوں کی یہ حالت ھے کہ آدھا شھر تو صرف کراچی الیکٹرک کے بل ادا کرنے کے لیے ملازمت کر رہا ھے۔ لوگوں کی آدھی تنخواہ یا ان کی تنخواہ کا تیسرا حصہ بجلی کے بل ادا کرنے میں چلا جاتا ھے۔
کراچی الیکٹرک کی بد معاشی یہیں ختم نہیں ھو جاتی۔ ان کی مرضی ھے کس علاقے کو بجلی دینی ھے اور کس علاقے کو نہیں دینی۔ گھنٹوں گھنٹوں faults کے نام پر بجلی بند کر دی جاتی ھے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی بات کی کوئی justification نہیں۔ آپ نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ شکایت۔ شھر کا مسئلہ مہنگی چینی نہیں بجلی ھے۔ شھری بناء چینی کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء بجلی کے نہیں۔
اسی طرح شھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ کراچی کے شھری نجی ٹرانسپورٹ کے رحم وکرم پر ہیں۔ لوگ بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کے لیے سفر کرنا اور بھی مشکل ھے۔ گھنٹوں اپنی مطلوبہ گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ھے اور جب گاڑی آتی ھے تو زنانہ حصے میں بھی مرد حضرات موجود ھوتے ہیں اور یوں کام کرنے والی خواتین اور طالبات جس اذیت سے دوچار ھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ھے۔شھری بناء چینی کے تو گزارہ کر سکتے ہیں لیکن بناء مناسب ٹرانسپورٹ کے نہیں۔
کراچی کے عوام وفاقی اور صوبائی وزراء ، مشیروں اور ترجمانوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ ڈگڈگی کو ایک طرف رکھ کر چینی تماشہ ختم کیجیے اور عوام کو پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کیجیے۔ تمام واٹر ہائیڈرنٹس کو فوری طور پر بند کروایا جاۓ، بجلی کے محکمہ کو لگام دے۔اور شھر میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف کروایا جاۓ۔