Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کرنل کی بیوی کی ویڈیوز اور ان پر تبصرے خوب گردش کرتے رہے ۔جس پر اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے نوٹس لینے کی بات بھی سامنے آئی۔یقینا ایسے واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے نا پسندیدہ واقعات کا سدباب ھو سکے۔لیکن میرے نزدیک یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ھے بلکہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ اور ھمارے معاشرتی کلچر کا ھے۔میں یہ مانتا ھوں کہ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا سے جنرل پرویز مشرف تک مکہ لہرانے کی عادت نے پاکستان کو 12 مئی جیسے بہت سے تلخ واقعات سے دوچار کیا لیکن پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی آ شکار ھوتی ھے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ھیں۔ اس مکے کا استعمال صرف ایک طبقے نے نہیں کیا بلکہ تمام طبقات اپنی اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے چلے آرھے ھیں۔اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے اپوزیشن کو ایف ایس ایف سے دبانے کی غیر جمہوری کوشش ھو یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے سپریم کورٹ پر حکمران سیاسی قیادت کی طرف سے کیا جانے والا حملہ۔ اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ پر بلڈوزر لیکر چڑھائی کرنے اور اسکی گرل پر شلواریں لٹکانے کا معاملہ ھو یاعدلیہ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے جیسے متنازعہ فیصلے ۔ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے رکن کی گاڑی کے تلے ٹریفک سارجنٹ کو کچلے جانے کا سانحہ ہو یا موجودہ خاتون اول کے سابق شوھر کی فیملی کو روکنے پر ڈی پی او پاکپتن کو مانیکا ڈیرہ پر جاکر معافی مانگنے کی ھدائت اور تعمیل نہ کر نے پر لائن حاضر ھونے کا حکم۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو وزیراعلی ھاؤس جی او ار جاتے ہوئے پولیس کے روک کر تصدیق کرنے پر اراکین کا متفقہ استحقاق مجروح ھونا اور آئی جی کو اسمبلی میں طلب کرنا یا جرنلسٹں کا موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر میڈیا کے سٹکر لگا کر، کارڈ دکھا کر اور شو کرتے ھوئے آ پے سے باہر اور ناجائز استحقاق کا حامل ھوجانا۔ وکلا کا مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر ججز اور ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے دل کے مریضوں پر چڑھائی کردینا۔وڈیروں، جاگیر داروں اور سرداروں کی طرف سے مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے جیسے انسانیت سوز فیصلےکرنا یا قانون نافذ کرنے والےاور حساس اداروں کی طرف سے ساھیوال جیسے واقعات کرکے ان کے حقائق کو دبادینا۔سندھ کی بڑی سیاسی شخصیت کے کاروباری پارٹنر کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو قتل کیس میں گرفتاری سے بچانے کیلئے جعلی دستاویزات پر دبئی فرار کرانے کا معاملہ ہو یا بلدیہ فیکٹری کراچی کا سانحہ ھو۔ مذھبی گروھوں کی طرف سے مذھبی کارڈ کا غیر منطقی اور غیر انسانی استعمال ھو یا سرکاری نمبر پلیٹس اور ھوٹر لگی گاڑیوں میں موجود افراد کا ایلیٹ کلاس رویہ۔ مہنگی گاڑیوں میں سرمایہ داروں بیوروکریٹس اور نودولتیوں کی مسلح اولادوں کے قانون سے بالاتر ھوجانےکے واقعات یا ڈاکٹروں کے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کرکے مریضوں کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔ اساتذہ کا ذاتی پسند ناپسند پر طلبہ وطالبات کو فائدہ یا نقصان پہنچانا یا کسی بااختیار کا کسی بھی وجہ سے میرٹ کے خلاف فیصلہ کرنا۔ یہ سب قانون و آ ئین کو مکہ دیکھانے کے مترادف ہے بس فرق یہ ہے کہ کہیں یہ مکہ کھلم کھلا دیکھایا جارہاہے اور کہیں خفیہ طور پر۔ ان چند مثالوں کے بعد یقیناً آپ کے ذہن میں اس طرح کی بے شمار مثالیں آرھی ہوں گی جو شائد میری دی گئی مثالوں سے زیادہ مناسب اور موثر بھی ہوں۔ کیونکہ پاکستانی تاریخ ان سے بھری پڑی ہے۔اور بات یہاں ھی ختم نہیں ھوتی میں آپ ھم سب جہاں زور اور داؤ چلتا ھے کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح قانون سے بالا تر ہوکر استحقاق حاصل کرنا چاھتے ھیں۔اس وقت تک لائن میں لگنا،میرٹ کوماننا اور ٹریفک سگنلز پر رکنا پسند نہیں کرتے جب تک ھمارے خلاف بھی کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح سوشل میڈیا یا لیگل میڈیا کمپین شروع نہ ھو جائے اور اسں عمل کے شروع ھونے پر بھی ھم قانون پسند بننے کے بجائے اس سے بچ نکلنے کے ناجائز راستے اور زرائع تلاش کرنا شروع کر دیتے ھیں۔اسی لئے میں نے آ پ سے شروع میں کہا تھاکہ یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ہے بلکہ ایک مائنڈ سیٹ اور معاشرتی کلچر کا ھے۔ اس حمام میں ھم سب اپنی اپنی جگہ پر کم یا ذیادہ ننگے ھیں۔لہٰذا اس معاشرتی بگاڑ اور مائنڈ سیٹ کی اصلاح بھی ھمیں مل کر ھی کرنا ھوگی۔دوسروں کے غلط روئیے پر ضرور انگلی اٹھائیے لیکن متعصب ھوکر نہیں اصلاح کے پہلو سے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کے عمل پر ضرور عمل کرلیجیۓ کیونکہ یہی مہذب لوگوں کا شعار اور پہچان ھوتی ھے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کرنل کی بیوی کی ویڈیوز اور ان پر تبصرے خوب گردش کرتے رہے ۔جس پر اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے نوٹس لینے کی بات بھی سامنے آئی۔یقینا ایسے واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے نا پسندیدہ واقعات کا سدباب ھو سکے۔لیکن میرے نزدیک یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ھے بلکہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ اور ھمارے معاشرتی کلچر کا ھے۔میں یہ مانتا ھوں کہ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا سے جنرل پرویز مشرف تک مکہ لہرانے کی عادت نے پاکستان کو 12 مئی جیسے بہت سے تلخ واقعات سے دوچار کیا لیکن پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی آ شکار ھوتی ھے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ھیں۔ اس مکے کا استعمال صرف ایک طبقے نے نہیں کیا بلکہ تمام طبقات اپنی اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے چلے آرھے ھیں۔اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے اپوزیشن کو ایف ایس ایف سے دبانے کی غیر جمہوری کوشش ھو یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے سپریم کورٹ پر حکمران سیاسی قیادت کی طرف سے کیا جانے والا حملہ۔ اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ پر بلڈوزر لیکر چڑھائی کرنے اور اسکی گرل پر شلواریں لٹکانے کا معاملہ ھو یاعدلیہ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے جیسے متنازعہ فیصلے ۔ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے رکن کی گاڑی کے تلے ٹریفک سارجنٹ کو کچلے جانے کا سانحہ ہو یا موجودہ خاتون اول کے سابق شوھر کی فیملی کو روکنے پر ڈی پی او پاکپتن کو مانیکا ڈیرہ پر جاکر معافی مانگنے کی ھدائت اور تعمیل نہ کر نے پر لائن حاضر ھونے کا حکم۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو وزیراعلی ھاؤس جی او ار جاتے ہوئے پولیس کے روک کر تصدیق کرنے پر اراکین کا متفقہ استحقاق مجروح ھونا اور آئی جی کو اسمبلی میں طلب کرنا یا جرنلسٹں کا موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر میڈیا کے سٹکر لگا کر، کارڈ دکھا کر اور شو کرتے ھوئے آ پے سے باہر اور ناجائز استحقاق کا حامل ھوجانا۔ وکلا کا مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر ججز اور ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے دل کے مریضوں پر چڑھائی کردینا۔وڈیروں، جاگیر داروں اور سرداروں کی طرف سے مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے جیسے انسانیت سوز فیصلےکرنا یا قانون نافذ کرنے والےاور حساس اداروں کی طرف سے ساھیوال جیسے واقعات کرکے ان کے حقائق کو دبادینا۔سندھ کی بڑی سیاسی شخصیت کے کاروباری پارٹنر کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو قتل کیس میں گرفتاری سے بچانے کیلئے جعلی دستاویزات پر دبئی فرار کرانے کا معاملہ ہو یا بلدیہ فیکٹری کراچی کا سانحہ ھو۔ مذھبی گروھوں کی طرف سے مذھبی کارڈ کا غیر منطقی اور غیر انسانی استعمال ھو یا سرکاری نمبر پلیٹس اور ھوٹر لگی گاڑیوں میں موجود افراد کا ایلیٹ کلاس رویہ۔ مہنگی گاڑیوں میں سرمایہ داروں بیوروکریٹس اور نودولتیوں کی مسلح اولادوں کے قانون سے بالاتر ھوجانےکے واقعات یا ڈاکٹروں کے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کرکے مریضوں کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔ اساتذہ کا ذاتی پسند ناپسند پر طلبہ وطالبات کو فائدہ یا نقصان پہنچانا یا کسی بااختیار کا کسی بھی وجہ سے میرٹ کے خلاف فیصلہ کرنا۔ یہ سب قانون و آ ئین کو مکہ دیکھانے کے مترادف ہے بس فرق یہ ہے کہ کہیں یہ مکہ کھلم کھلا دیکھایا جارہاہے اور کہیں خفیہ طور پر۔ ان چند مثالوں کے بعد یقیناً آپ کے ذہن میں اس طرح کی بے شمار مثالیں آرھی ہوں گی جو شائد میری دی گئی مثالوں سے زیادہ مناسب اور موثر بھی ہوں۔ کیونکہ پاکستانی تاریخ ان سے بھری پڑی ہے۔اور بات یہاں ھی ختم نہیں ھوتی میں آپ ھم سب جہاں زور اور داؤ چلتا ھے کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح قانون سے بالا تر ہوکر استحقاق حاصل کرنا چاھتے ھیں۔اس وقت تک لائن میں لگنا،میرٹ کوماننا اور ٹریفک سگنلز پر رکنا پسند نہیں کرتے جب تک ھمارے خلاف بھی کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح سوشل میڈیا یا لیگل میڈیا کمپین شروع نہ ھو جائے اور اسں عمل کے شروع ھونے پر بھی ھم قانون پسند بننے کے بجائے اس سے بچ نکلنے کے ناجائز راستے اور زرائع تلاش کرنا شروع کر دیتے ھیں۔اسی لئے میں نے آ پ سے شروع میں کہا تھاکہ یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ہے بلکہ ایک مائنڈ سیٹ اور معاشرتی کلچر کا ھے۔ اس حمام میں ھم سب اپنی اپنی جگہ پر کم یا ذیادہ ننگے ھیں۔لہٰذا اس معاشرتی بگاڑ اور مائنڈ سیٹ کی اصلاح بھی ھمیں مل کر ھی کرنا ھوگی۔دوسروں کے غلط روئیے پر ضرور انگلی اٹھائیے لیکن متعصب ھوکر نہیں اصلاح کے پہلو سے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کے عمل پر ضرور عمل کرلیجیۓ کیونکہ یہی مہذب لوگوں کا شعار اور پہچان ھوتی ھے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کرنل کی بیوی کی ویڈیوز اور ان پر تبصرے خوب گردش کرتے رہے ۔جس پر اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے نوٹس لینے کی بات بھی سامنے آئی۔یقینا ایسے واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے نا پسندیدہ واقعات کا سدباب ھو سکے۔لیکن میرے نزدیک یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ھے بلکہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ اور ھمارے معاشرتی کلچر کا ھے۔میں یہ مانتا ھوں کہ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا سے جنرل پرویز مشرف تک مکہ لہرانے کی عادت نے پاکستان کو 12 مئی جیسے بہت سے تلخ واقعات سے دوچار کیا لیکن پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی آ شکار ھوتی ھے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ھیں۔ اس مکے کا استعمال صرف ایک طبقے نے نہیں کیا بلکہ تمام طبقات اپنی اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے چلے آرھے ھیں۔اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے اپوزیشن کو ایف ایس ایف سے دبانے کی غیر جمہوری کوشش ھو یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے سپریم کورٹ پر حکمران سیاسی قیادت کی طرف سے کیا جانے والا حملہ۔ اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ پر بلڈوزر لیکر چڑھائی کرنے اور اسکی گرل پر شلواریں لٹکانے کا معاملہ ھو یاعدلیہ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے جیسے متنازعہ فیصلے ۔ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے رکن کی گاڑی کے تلے ٹریفک سارجنٹ کو کچلے جانے کا سانحہ ہو یا موجودہ خاتون اول کے سابق شوھر کی فیملی کو روکنے پر ڈی پی او پاکپتن کو مانیکا ڈیرہ پر جاکر معافی مانگنے کی ھدائت اور تعمیل نہ کر نے پر لائن حاضر ھونے کا حکم۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو وزیراعلی ھاؤس جی او ار جاتے ہوئے پولیس کے روک کر تصدیق کرنے پر اراکین کا متفقہ استحقاق مجروح ھونا اور آئی جی کو اسمبلی میں طلب کرنا یا جرنلسٹں کا موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر میڈیا کے سٹکر لگا کر، کارڈ دکھا کر اور شو کرتے ھوئے آ پے سے باہر اور ناجائز استحقاق کا حامل ھوجانا۔ وکلا کا مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر ججز اور ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے دل کے مریضوں پر چڑھائی کردینا۔وڈیروں، جاگیر داروں اور سرداروں کی طرف سے مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے جیسے انسانیت سوز فیصلےکرنا یا قانون نافذ کرنے والےاور حساس اداروں کی طرف سے ساھیوال جیسے واقعات کرکے ان کے حقائق کو دبادینا۔سندھ کی بڑی سیاسی شخصیت کے کاروباری پارٹنر کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو قتل کیس میں گرفتاری سے بچانے کیلئے جعلی دستاویزات پر دبئی فرار کرانے کا معاملہ ہو یا بلدیہ فیکٹری کراچی کا سانحہ ھو۔ مذھبی گروھوں کی طرف سے مذھبی کارڈ کا غیر منطقی اور غیر انسانی استعمال ھو یا سرکاری نمبر پلیٹس اور ھوٹر لگی گاڑیوں میں موجود افراد کا ایلیٹ کلاس رویہ۔ مہنگی گاڑیوں میں سرمایہ داروں بیوروکریٹس اور نودولتیوں کی مسلح اولادوں کے قانون سے بالاتر ھوجانےکے واقعات یا ڈاکٹروں کے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کرکے مریضوں کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔ اساتذہ کا ذاتی پسند ناپسند پر طلبہ وطالبات کو فائدہ یا نقصان پہنچانا یا کسی بااختیار کا کسی بھی وجہ سے میرٹ کے خلاف فیصلہ کرنا۔ یہ سب قانون و آ ئین کو مکہ دیکھانے کے مترادف ہے بس فرق یہ ہے کہ کہیں یہ مکہ کھلم کھلا دیکھایا جارہاہے اور کہیں خفیہ طور پر۔ ان چند مثالوں کے بعد یقیناً آپ کے ذہن میں اس طرح کی بے شمار مثالیں آرھی ہوں گی جو شائد میری دی گئی مثالوں سے زیادہ مناسب اور موثر بھی ہوں۔ کیونکہ پاکستانی تاریخ ان سے بھری پڑی ہے۔اور بات یہاں ھی ختم نہیں ھوتی میں آپ ھم سب جہاں زور اور داؤ چلتا ھے کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح قانون سے بالا تر ہوکر استحقاق حاصل کرنا چاھتے ھیں۔اس وقت تک لائن میں لگنا،میرٹ کوماننا اور ٹریفک سگنلز پر رکنا پسند نہیں کرتے جب تک ھمارے خلاف بھی کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح سوشل میڈیا یا لیگل میڈیا کمپین شروع نہ ھو جائے اور اسں عمل کے شروع ھونے پر بھی ھم قانون پسند بننے کے بجائے اس سے بچ نکلنے کے ناجائز راستے اور زرائع تلاش کرنا شروع کر دیتے ھیں۔اسی لئے میں نے آ پ سے شروع میں کہا تھاکہ یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ہے بلکہ ایک مائنڈ سیٹ اور معاشرتی کلچر کا ھے۔ اس حمام میں ھم سب اپنی اپنی جگہ پر کم یا ذیادہ ننگے ھیں۔لہٰذا اس معاشرتی بگاڑ اور مائنڈ سیٹ کی اصلاح بھی ھمیں مل کر ھی کرنا ھوگی۔دوسروں کے غلط روئیے پر ضرور انگلی اٹھائیے لیکن متعصب ھوکر نہیں اصلاح کے پہلو سے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کے عمل پر ضرور عمل کرلیجیۓ کیونکہ یہی مہذب لوگوں کا شعار اور پہچان ھوتی ھے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کرنل کی بیوی کی ویڈیوز اور ان پر تبصرے خوب گردش کرتے رہے ۔جس پر اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے نوٹس لینے کی بات بھی سامنے آئی۔یقینا ایسے واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے نا پسندیدہ واقعات کا سدباب ھو سکے۔لیکن میرے نزدیک یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ھے بلکہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ اور ھمارے معاشرتی کلچر کا ھے۔میں یہ مانتا ھوں کہ پاکستان میں جنرل سکندر مرزا سے جنرل پرویز مشرف تک مکہ لہرانے کی عادت نے پاکستان کو 12 مئی جیسے بہت سے تلخ واقعات سے دوچار کیا لیکن پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی آ شکار ھوتی ھے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ھیں۔ اس مکے کا استعمال صرف ایک طبقے نے نہیں کیا بلکہ تمام طبقات اپنی اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے چلے آرھے ھیں۔اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے اپوزیشن کو ایف ایس ایف سے دبانے کی غیر جمہوری کوشش ھو یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے سپریم کورٹ پر حکمران سیاسی قیادت کی طرف سے کیا جانے والا حملہ۔ اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ پر بلڈوزر لیکر چڑھائی کرنے اور اسکی گرل پر شلواریں لٹکانے کا معاملہ ھو یاعدلیہ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے جیسے متنازعہ فیصلے ۔ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے رکن کی گاڑی کے تلے ٹریفک سارجنٹ کو کچلے جانے کا سانحہ ہو یا موجودہ خاتون اول کے سابق شوھر کی فیملی کو روکنے پر ڈی پی او پاکپتن کو مانیکا ڈیرہ پر جاکر معافی مانگنے کی ھدائت اور تعمیل نہ کر نے پر لائن حاضر ھونے کا حکم۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو وزیراعلی ھاؤس جی او ار جاتے ہوئے پولیس کے روک کر تصدیق کرنے پر اراکین کا متفقہ استحقاق مجروح ھونا اور آئی جی کو اسمبلی میں طلب کرنا یا جرنلسٹں کا موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر میڈیا کے سٹکر لگا کر، کارڈ دکھا کر اور شو کرتے ھوئے آ پے سے باہر اور ناجائز استحقاق کا حامل ھوجانا۔ وکلا کا مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر ججز اور ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے دل کے مریضوں پر چڑھائی کردینا۔وڈیروں، جاگیر داروں اور سرداروں کی طرف سے مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے جیسے انسانیت سوز فیصلےکرنا یا قانون نافذ کرنے والےاور حساس اداروں کی طرف سے ساھیوال جیسے واقعات کرکے ان کے حقائق کو دبادینا۔سندھ کی بڑی سیاسی شخصیت کے کاروباری پارٹنر کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو قتل کیس میں گرفتاری سے بچانے کیلئے جعلی دستاویزات پر دبئی فرار کرانے کا معاملہ ہو یا بلدیہ فیکٹری کراچی کا سانحہ ھو۔ مذھبی گروھوں کی طرف سے مذھبی کارڈ کا غیر منطقی اور غیر انسانی استعمال ھو یا سرکاری نمبر پلیٹس اور ھوٹر لگی گاڑیوں میں موجود افراد کا ایلیٹ کلاس رویہ۔ مہنگی گاڑیوں میں سرمایہ داروں بیوروکریٹس اور نودولتیوں کی مسلح اولادوں کے قانون سے بالاتر ھوجانےکے واقعات یا ڈاکٹروں کے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کرکے مریضوں کو خدا کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔ اساتذہ کا ذاتی پسند ناپسند پر طلبہ وطالبات کو فائدہ یا نقصان پہنچانا یا کسی بااختیار کا کسی بھی وجہ سے میرٹ کے خلاف فیصلہ کرنا۔ یہ سب قانون و آ ئین کو مکہ دیکھانے کے مترادف ہے بس فرق یہ ہے کہ کہیں یہ مکہ کھلم کھلا دیکھایا جارہاہے اور کہیں خفیہ طور پر۔ ان چند مثالوں کے بعد یقیناً آپ کے ذہن میں اس طرح کی بے شمار مثالیں آرھی ہوں گی جو شائد میری دی گئی مثالوں سے زیادہ مناسب اور موثر بھی ہوں۔ کیونکہ پاکستانی تاریخ ان سے بھری پڑی ہے۔اور بات یہاں ھی ختم نہیں ھوتی میں آپ ھم سب جہاں زور اور داؤ چلتا ھے کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح قانون سے بالا تر ہوکر استحقاق حاصل کرنا چاھتے ھیں۔اس وقت تک لائن میں لگنا،میرٹ کوماننا اور ٹریفک سگنلز پر رکنا پسند نہیں کرتے جب تک ھمارے خلاف بھی کرنل اور کرنل کی بیوی کی طرح سوشل میڈیا یا لیگل میڈیا کمپین شروع نہ ھو جائے اور اسں عمل کے شروع ھونے پر بھی ھم قانون پسند بننے کے بجائے اس سے بچ نکلنے کے ناجائز راستے اور زرائع تلاش کرنا شروع کر دیتے ھیں۔اسی لئے میں نے آ پ سے شروع میں کہا تھاکہ یہ معاملہ صرف ایک کرنل اور اس کی بیوی کا نہیں ہے بلکہ ایک مائنڈ سیٹ اور معاشرتی کلچر کا ھے۔ اس حمام میں ھم سب اپنی اپنی جگہ پر کم یا ذیادہ ننگے ھیں۔لہٰذا اس معاشرتی بگاڑ اور مائنڈ سیٹ کی اصلاح بھی ھمیں مل کر ھی کرنا ھوگی۔دوسروں کے غلط روئیے پر ضرور انگلی اٹھائیے لیکن متعصب ھوکر نہیں اصلاح کے پہلو سے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کے عمل پر ضرور عمل کرلیجیۓ کیونکہ یہی مہذب لوگوں کا شعار اور پہچان ھوتی ھے۔