Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میری Kogarah میں آوارہ گردی اور ملازمت کی تلاش
طویل سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے بہت اچھی نیند آئی آنکھ کھلی، گھڑی دیکھی تو صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے سورج کی روشنی کمرے میں داخل ھو رہی تھی۔کھڑکی سے باہر جھانکا تو ذندگی رواں دواں تھی۔ یہ Rockhampton شھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجان علاقہ تھا۔ اورمجھے لگا کہ میں کسی گاؤں سے شھر آگیا ھوں۔نرملہ نے بتایا کہ سریش اپنی job پر جا چکا ہے۔وہ کسی فیکٹری میں process worker کے طور پر کام کرتا تھا۔ ملازمت کے اوقات صبح 8 سے شام 5 تھے اور ھفتہ اور اتوار کو چھٹی ھوتی تھی۔
نرملہ میرے لیے ناشتہ لے کر آئی۔اس نے مجھ سے تفصیل سے بات چیت کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ مجھے خود پیسے کما کر اپنی تعلیم مکمل کرنی ھےاور اس کے لیے job میری اولین ترجیح ھے۔ نرملا نے مجھے یقین دلاتے ھوۓ کہا کہ میں بالکل بھی فکر نہ کروں، بھگوان سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ وہ ایک بہت مہربان خاتون تھی۔
نرملا نے جمعہ کا اخبار کھنگالا ، لیکن کسی مناسب job کا اشتھار نہ ملا۔ اس نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کے اخبارات jobs کے اشتھارات سے بھرے ھوتے ہیں۔جمعہ کا دن میں نے Kogarah میں آوارہ گردی کر کے گزارہ۔ یہاں کے اسکول دیکھے، لائبریری دیکھی، ٹاؤن ہال اور مختلف پارک وغیرہ کی سیر کی۔ کافی دیر تک ادھر ادھر پیدل گھومتا رہا۔
اسٹیشن سے سریش کا گھر صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مجھے اندازہ ھو گیا کہ گزشتہ رات ٹیکسی والا مجھے محض بل کے چکر میں پندرہ منٹ گھماتا رہا۔
شام کو سریش job سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں Beer کا پورا carton تھا۔ دراصل آج last working day یعنی جمعہ تھا۔ آسٹریلیا میں ہر پانچویں دن یعنی جمعہ کو آپ کی تنخواہ آپ کے اکاؤنٹ میں Transfer کر دی جاتی ھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو گلاس ، Beer اور خشک میوہ جات لے آیا۔ اس نے میرے گلاس میں Beer انڈیلنا چاہی لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں کوک یا جوس پیوں گا۔ اس نے ایک پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے گلاس میں جوس ڈالا اور ایسا لگا جیسے کہہ رہا ھو ابھی آسٹریلیا میں نئے نیۓ ھو کچھ دنوں بعد سب کچھ پینا شروع کر دو گے۔
اس سے کافی گپ شپ ھوئی۔ سریش نے بتایا کہ اس کے کئی دوست مسلمان ہیں۔اس نے بتایا کہ ان کے باپ دادا نے India سے Fiji ہجرت کی تھی اور بہتر زندگی کی خاطر یہ لوگ Fiji سے Australia آ گۓھیں۔ سریش نےایک واقعہ سنایا کہ اس کے ایک مسلمان دوست نے اسے کیسے دھوکہ دیا تھا۔
اس نے انتہائی رنجیدہ ھو کر بتایا کے ایک one Dish پارٹی میں اس کا ایک مسلم دوست اس کے لیے ایک ڈش لے کر آیا اور کہا کہ یہ بہت لذیذ اور ذائقہ دار ڈش اس کے لیے ھے۔ سریش نے کہا ، میں نے وہ ڈش بہت مزے لے لے کر کھائی ۔جاتے ھوۓ میرے دوست نے مجھے کہا کہ پتہ ھے وہ ڈش گاۓ کی کلیجی سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد سریش باقاعدہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اور کہنے لگا اس ظالم نے مجھے میری ماں کا کلیجہ کھلا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اچھے اور برے لوگ ہر قوم اور ہر مذہب میں موجود ھیں۔ وہ واقعہ سن کر مجھے بھی دلی رنج ھوا۔ اور سوچنے لگا کہ سریش کے دوست نے اس کے ساتھ کتنا غلط کیا۔
اگلا دن ہفتہ کا تھا۔ میں جلدی اٹھ گیا۔نرملا کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور jobs کے ایسے اشتھارات پر نشان لگانے لگی جو مجھے سوٹ کرتی تھیں۔ اس میں وہ ایسی jobs دیکھ رہی تھی جو مستقل ھوتیں، قریب ھوتیں، آسان ھوتیں اور جن میں مناسب معاوضہ ھوتا۔
آخر میں اس نے 2 اشتھارات کو فائنل کیا اور مجھ سے پوچھا کہ carpenter اور kitchen hand کی jobs میں سے میں کس کو ترجیح دوں گا۔ میرے لیے دونوں jobs ایک جیسی تھیں کیونکہ مجھے دونوں کا تجربہ نہ تھا۔ خیر ، میں نے انھیں کہا کہ میں پہلے Kitchen hand والی job کو دیکھنا چاھوں گا۔اس نے فون اٹھایا اور متعلقہ فرد سے معلومات لیں اور دوپہر کا appointment لے لیا۔
یہ job ایک ریسٹورنٹ کی تھی اور Kogarah سےصرف ایک اسٹیشن کے فاصلے پر تھی۔ نرملا نے مجھے مکمل طور پر guide کر دیا تھا۔مجھے Kogarah سے بذریعہ ٹرین اگلے اسٹیشن Carlton پہنچنا تھا۔ اور اسٹیشن سے دس منٹ پیدل چل کر Red Rooster نامی ریسٹورنٹ جانا تھا۔
مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچا۔ ریسٹورنٹ کے فرنٹ گیٹ سے اندر داخل ھوا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو اپنے Appointment کے بارے میں بتایا تو اس نے Intercom کے ذریعے مینیجر کو مطلع کیا۔ کچھ دیر بعد مینیجر نے مجھے اندر اپنے کمرے میں بلا لیا۔
(جاری ھے)
میری Kogarah میں آوارہ گردی اور ملازمت کی تلاش
طویل سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے بہت اچھی نیند آئی آنکھ کھلی، گھڑی دیکھی تو صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے سورج کی روشنی کمرے میں داخل ھو رہی تھی۔کھڑکی سے باہر جھانکا تو ذندگی رواں دواں تھی۔ یہ Rockhampton شھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجان علاقہ تھا۔ اورمجھے لگا کہ میں کسی گاؤں سے شھر آگیا ھوں۔نرملہ نے بتایا کہ سریش اپنی job پر جا چکا ہے۔وہ کسی فیکٹری میں process worker کے طور پر کام کرتا تھا۔ ملازمت کے اوقات صبح 8 سے شام 5 تھے اور ھفتہ اور اتوار کو چھٹی ھوتی تھی۔
نرملہ میرے لیے ناشتہ لے کر آئی۔اس نے مجھ سے تفصیل سے بات چیت کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ مجھے خود پیسے کما کر اپنی تعلیم مکمل کرنی ھےاور اس کے لیے job میری اولین ترجیح ھے۔ نرملا نے مجھے یقین دلاتے ھوۓ کہا کہ میں بالکل بھی فکر نہ کروں، بھگوان سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ وہ ایک بہت مہربان خاتون تھی۔
نرملا نے جمعہ کا اخبار کھنگالا ، لیکن کسی مناسب job کا اشتھار نہ ملا۔ اس نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کے اخبارات jobs کے اشتھارات سے بھرے ھوتے ہیں۔جمعہ کا دن میں نے Kogarah میں آوارہ گردی کر کے گزارہ۔ یہاں کے اسکول دیکھے، لائبریری دیکھی، ٹاؤن ہال اور مختلف پارک وغیرہ کی سیر کی۔ کافی دیر تک ادھر ادھر پیدل گھومتا رہا۔
اسٹیشن سے سریش کا گھر صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مجھے اندازہ ھو گیا کہ گزشتہ رات ٹیکسی والا مجھے محض بل کے چکر میں پندرہ منٹ گھماتا رہا۔
شام کو سریش job سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں Beer کا پورا carton تھا۔ دراصل آج last working day یعنی جمعہ تھا۔ آسٹریلیا میں ہر پانچویں دن یعنی جمعہ کو آپ کی تنخواہ آپ کے اکاؤنٹ میں Transfer کر دی جاتی ھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو گلاس ، Beer اور خشک میوہ جات لے آیا۔ اس نے میرے گلاس میں Beer انڈیلنا چاہی لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں کوک یا جوس پیوں گا۔ اس نے ایک پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے گلاس میں جوس ڈالا اور ایسا لگا جیسے کہہ رہا ھو ابھی آسٹریلیا میں نئے نیۓ ھو کچھ دنوں بعد سب کچھ پینا شروع کر دو گے۔
اس سے کافی گپ شپ ھوئی۔ سریش نے بتایا کہ اس کے کئی دوست مسلمان ہیں۔اس نے بتایا کہ ان کے باپ دادا نے India سے Fiji ہجرت کی تھی اور بہتر زندگی کی خاطر یہ لوگ Fiji سے Australia آ گۓھیں۔ سریش نےایک واقعہ سنایا کہ اس کے ایک مسلمان دوست نے اسے کیسے دھوکہ دیا تھا۔
اس نے انتہائی رنجیدہ ھو کر بتایا کے ایک one Dish پارٹی میں اس کا ایک مسلم دوست اس کے لیے ایک ڈش لے کر آیا اور کہا کہ یہ بہت لذیذ اور ذائقہ دار ڈش اس کے لیے ھے۔ سریش نے کہا ، میں نے وہ ڈش بہت مزے لے لے کر کھائی ۔جاتے ھوۓ میرے دوست نے مجھے کہا کہ پتہ ھے وہ ڈش گاۓ کی کلیجی سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد سریش باقاعدہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اور کہنے لگا اس ظالم نے مجھے میری ماں کا کلیجہ کھلا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اچھے اور برے لوگ ہر قوم اور ہر مذہب میں موجود ھیں۔ وہ واقعہ سن کر مجھے بھی دلی رنج ھوا۔ اور سوچنے لگا کہ سریش کے دوست نے اس کے ساتھ کتنا غلط کیا۔
اگلا دن ہفتہ کا تھا۔ میں جلدی اٹھ گیا۔نرملا کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور jobs کے ایسے اشتھارات پر نشان لگانے لگی جو مجھے سوٹ کرتی تھیں۔ اس میں وہ ایسی jobs دیکھ رہی تھی جو مستقل ھوتیں، قریب ھوتیں، آسان ھوتیں اور جن میں مناسب معاوضہ ھوتا۔
آخر میں اس نے 2 اشتھارات کو فائنل کیا اور مجھ سے پوچھا کہ carpenter اور kitchen hand کی jobs میں سے میں کس کو ترجیح دوں گا۔ میرے لیے دونوں jobs ایک جیسی تھیں کیونکہ مجھے دونوں کا تجربہ نہ تھا۔ خیر ، میں نے انھیں کہا کہ میں پہلے Kitchen hand والی job کو دیکھنا چاھوں گا۔اس نے فون اٹھایا اور متعلقہ فرد سے معلومات لیں اور دوپہر کا appointment لے لیا۔
یہ job ایک ریسٹورنٹ کی تھی اور Kogarah سےصرف ایک اسٹیشن کے فاصلے پر تھی۔ نرملا نے مجھے مکمل طور پر guide کر دیا تھا۔مجھے Kogarah سے بذریعہ ٹرین اگلے اسٹیشن Carlton پہنچنا تھا۔ اور اسٹیشن سے دس منٹ پیدل چل کر Red Rooster نامی ریسٹورنٹ جانا تھا۔
مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچا۔ ریسٹورنٹ کے فرنٹ گیٹ سے اندر داخل ھوا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو اپنے Appointment کے بارے میں بتایا تو اس نے Intercom کے ذریعے مینیجر کو مطلع کیا۔ کچھ دیر بعد مینیجر نے مجھے اندر اپنے کمرے میں بلا لیا۔
(جاری ھے)
میری Kogarah میں آوارہ گردی اور ملازمت کی تلاش
طویل سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے بہت اچھی نیند آئی آنکھ کھلی، گھڑی دیکھی تو صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے سورج کی روشنی کمرے میں داخل ھو رہی تھی۔کھڑکی سے باہر جھانکا تو ذندگی رواں دواں تھی۔ یہ Rockhampton شھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجان علاقہ تھا۔ اورمجھے لگا کہ میں کسی گاؤں سے شھر آگیا ھوں۔نرملہ نے بتایا کہ سریش اپنی job پر جا چکا ہے۔وہ کسی فیکٹری میں process worker کے طور پر کام کرتا تھا۔ ملازمت کے اوقات صبح 8 سے شام 5 تھے اور ھفتہ اور اتوار کو چھٹی ھوتی تھی۔
نرملہ میرے لیے ناشتہ لے کر آئی۔اس نے مجھ سے تفصیل سے بات چیت کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ مجھے خود پیسے کما کر اپنی تعلیم مکمل کرنی ھےاور اس کے لیے job میری اولین ترجیح ھے۔ نرملا نے مجھے یقین دلاتے ھوۓ کہا کہ میں بالکل بھی فکر نہ کروں، بھگوان سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ وہ ایک بہت مہربان خاتون تھی۔
نرملا نے جمعہ کا اخبار کھنگالا ، لیکن کسی مناسب job کا اشتھار نہ ملا۔ اس نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کے اخبارات jobs کے اشتھارات سے بھرے ھوتے ہیں۔جمعہ کا دن میں نے Kogarah میں آوارہ گردی کر کے گزارہ۔ یہاں کے اسکول دیکھے، لائبریری دیکھی، ٹاؤن ہال اور مختلف پارک وغیرہ کی سیر کی۔ کافی دیر تک ادھر ادھر پیدل گھومتا رہا۔
اسٹیشن سے سریش کا گھر صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مجھے اندازہ ھو گیا کہ گزشتہ رات ٹیکسی والا مجھے محض بل کے چکر میں پندرہ منٹ گھماتا رہا۔
شام کو سریش job سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں Beer کا پورا carton تھا۔ دراصل آج last working day یعنی جمعہ تھا۔ آسٹریلیا میں ہر پانچویں دن یعنی جمعہ کو آپ کی تنخواہ آپ کے اکاؤنٹ میں Transfer کر دی جاتی ھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو گلاس ، Beer اور خشک میوہ جات لے آیا۔ اس نے میرے گلاس میں Beer انڈیلنا چاہی لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں کوک یا جوس پیوں گا۔ اس نے ایک پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے گلاس میں جوس ڈالا اور ایسا لگا جیسے کہہ رہا ھو ابھی آسٹریلیا میں نئے نیۓ ھو کچھ دنوں بعد سب کچھ پینا شروع کر دو گے۔
اس سے کافی گپ شپ ھوئی۔ سریش نے بتایا کہ اس کے کئی دوست مسلمان ہیں۔اس نے بتایا کہ ان کے باپ دادا نے India سے Fiji ہجرت کی تھی اور بہتر زندگی کی خاطر یہ لوگ Fiji سے Australia آ گۓھیں۔ سریش نےایک واقعہ سنایا کہ اس کے ایک مسلمان دوست نے اسے کیسے دھوکہ دیا تھا۔
اس نے انتہائی رنجیدہ ھو کر بتایا کے ایک one Dish پارٹی میں اس کا ایک مسلم دوست اس کے لیے ایک ڈش لے کر آیا اور کہا کہ یہ بہت لذیذ اور ذائقہ دار ڈش اس کے لیے ھے۔ سریش نے کہا ، میں نے وہ ڈش بہت مزے لے لے کر کھائی ۔جاتے ھوۓ میرے دوست نے مجھے کہا کہ پتہ ھے وہ ڈش گاۓ کی کلیجی سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد سریش باقاعدہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اور کہنے لگا اس ظالم نے مجھے میری ماں کا کلیجہ کھلا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اچھے اور برے لوگ ہر قوم اور ہر مذہب میں موجود ھیں۔ وہ واقعہ سن کر مجھے بھی دلی رنج ھوا۔ اور سوچنے لگا کہ سریش کے دوست نے اس کے ساتھ کتنا غلط کیا۔
اگلا دن ہفتہ کا تھا۔ میں جلدی اٹھ گیا۔نرملا کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور jobs کے ایسے اشتھارات پر نشان لگانے لگی جو مجھے سوٹ کرتی تھیں۔ اس میں وہ ایسی jobs دیکھ رہی تھی جو مستقل ھوتیں، قریب ھوتیں، آسان ھوتیں اور جن میں مناسب معاوضہ ھوتا۔
آخر میں اس نے 2 اشتھارات کو فائنل کیا اور مجھ سے پوچھا کہ carpenter اور kitchen hand کی jobs میں سے میں کس کو ترجیح دوں گا۔ میرے لیے دونوں jobs ایک جیسی تھیں کیونکہ مجھے دونوں کا تجربہ نہ تھا۔ خیر ، میں نے انھیں کہا کہ میں پہلے Kitchen hand والی job کو دیکھنا چاھوں گا۔اس نے فون اٹھایا اور متعلقہ فرد سے معلومات لیں اور دوپہر کا appointment لے لیا۔
یہ job ایک ریسٹورنٹ کی تھی اور Kogarah سےصرف ایک اسٹیشن کے فاصلے پر تھی۔ نرملا نے مجھے مکمل طور پر guide کر دیا تھا۔مجھے Kogarah سے بذریعہ ٹرین اگلے اسٹیشن Carlton پہنچنا تھا۔ اور اسٹیشن سے دس منٹ پیدل چل کر Red Rooster نامی ریسٹورنٹ جانا تھا۔
مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچا۔ ریسٹورنٹ کے فرنٹ گیٹ سے اندر داخل ھوا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو اپنے Appointment کے بارے میں بتایا تو اس نے Intercom کے ذریعے مینیجر کو مطلع کیا۔ کچھ دیر بعد مینیجر نے مجھے اندر اپنے کمرے میں بلا لیا۔
(جاری ھے)
میری Kogarah میں آوارہ گردی اور ملازمت کی تلاش
طویل سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے بہت اچھی نیند آئی آنکھ کھلی، گھڑی دیکھی تو صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے سورج کی روشنی کمرے میں داخل ھو رہی تھی۔کھڑکی سے باہر جھانکا تو ذندگی رواں دواں تھی۔ یہ Rockhampton شھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجان علاقہ تھا۔ اورمجھے لگا کہ میں کسی گاؤں سے شھر آگیا ھوں۔نرملہ نے بتایا کہ سریش اپنی job پر جا چکا ہے۔وہ کسی فیکٹری میں process worker کے طور پر کام کرتا تھا۔ ملازمت کے اوقات صبح 8 سے شام 5 تھے اور ھفتہ اور اتوار کو چھٹی ھوتی تھی۔
نرملہ میرے لیے ناشتہ لے کر آئی۔اس نے مجھ سے تفصیل سے بات چیت کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ مجھے خود پیسے کما کر اپنی تعلیم مکمل کرنی ھےاور اس کے لیے job میری اولین ترجیح ھے۔ نرملا نے مجھے یقین دلاتے ھوۓ کہا کہ میں بالکل بھی فکر نہ کروں، بھگوان سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ وہ ایک بہت مہربان خاتون تھی۔
نرملا نے جمعہ کا اخبار کھنگالا ، لیکن کسی مناسب job کا اشتھار نہ ملا۔ اس نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کے اخبارات jobs کے اشتھارات سے بھرے ھوتے ہیں۔جمعہ کا دن میں نے Kogarah میں آوارہ گردی کر کے گزارہ۔ یہاں کے اسکول دیکھے، لائبریری دیکھی، ٹاؤن ہال اور مختلف پارک وغیرہ کی سیر کی۔ کافی دیر تک ادھر ادھر پیدل گھومتا رہا۔
اسٹیشن سے سریش کا گھر صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مجھے اندازہ ھو گیا کہ گزشتہ رات ٹیکسی والا مجھے محض بل کے چکر میں پندرہ منٹ گھماتا رہا۔
شام کو سریش job سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں Beer کا پورا carton تھا۔ دراصل آج last working day یعنی جمعہ تھا۔ آسٹریلیا میں ہر پانچویں دن یعنی جمعہ کو آپ کی تنخواہ آپ کے اکاؤنٹ میں Transfer کر دی جاتی ھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو گلاس ، Beer اور خشک میوہ جات لے آیا۔ اس نے میرے گلاس میں Beer انڈیلنا چاہی لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں کوک یا جوس پیوں گا۔ اس نے ایک پر معنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے گلاس میں جوس ڈالا اور ایسا لگا جیسے کہہ رہا ھو ابھی آسٹریلیا میں نئے نیۓ ھو کچھ دنوں بعد سب کچھ پینا شروع کر دو گے۔
اس سے کافی گپ شپ ھوئی۔ سریش نے بتایا کہ اس کے کئی دوست مسلمان ہیں۔اس نے بتایا کہ ان کے باپ دادا نے India سے Fiji ہجرت کی تھی اور بہتر زندگی کی خاطر یہ لوگ Fiji سے Australia آ گۓھیں۔ سریش نےایک واقعہ سنایا کہ اس کے ایک مسلمان دوست نے اسے کیسے دھوکہ دیا تھا۔
اس نے انتہائی رنجیدہ ھو کر بتایا کے ایک one Dish پارٹی میں اس کا ایک مسلم دوست اس کے لیے ایک ڈش لے کر آیا اور کہا کہ یہ بہت لذیذ اور ذائقہ دار ڈش اس کے لیے ھے۔ سریش نے کہا ، میں نے وہ ڈش بہت مزے لے لے کر کھائی ۔جاتے ھوۓ میرے دوست نے مجھے کہا کہ پتہ ھے وہ ڈش گاۓ کی کلیجی سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد سریش باقاعدہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اور کہنے لگا اس ظالم نے مجھے میری ماں کا کلیجہ کھلا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اچھے اور برے لوگ ہر قوم اور ہر مذہب میں موجود ھیں۔ وہ واقعہ سن کر مجھے بھی دلی رنج ھوا۔ اور سوچنے لگا کہ سریش کے دوست نے اس کے ساتھ کتنا غلط کیا۔
اگلا دن ہفتہ کا تھا۔ میں جلدی اٹھ گیا۔نرملا کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور jobs کے ایسے اشتھارات پر نشان لگانے لگی جو مجھے سوٹ کرتی تھیں۔ اس میں وہ ایسی jobs دیکھ رہی تھی جو مستقل ھوتیں، قریب ھوتیں، آسان ھوتیں اور جن میں مناسب معاوضہ ھوتا۔
آخر میں اس نے 2 اشتھارات کو فائنل کیا اور مجھ سے پوچھا کہ carpenter اور kitchen hand کی jobs میں سے میں کس کو ترجیح دوں گا۔ میرے لیے دونوں jobs ایک جیسی تھیں کیونکہ مجھے دونوں کا تجربہ نہ تھا۔ خیر ، میں نے انھیں کہا کہ میں پہلے Kitchen hand والی job کو دیکھنا چاھوں گا۔اس نے فون اٹھایا اور متعلقہ فرد سے معلومات لیں اور دوپہر کا appointment لے لیا۔
یہ job ایک ریسٹورنٹ کی تھی اور Kogarah سےصرف ایک اسٹیشن کے فاصلے پر تھی۔ نرملا نے مجھے مکمل طور پر guide کر دیا تھا۔مجھے Kogarah سے بذریعہ ٹرین اگلے اسٹیشن Carlton پہنچنا تھا۔ اور اسٹیشن سے دس منٹ پیدل چل کر Red Rooster نامی ریسٹورنٹ جانا تھا۔
مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچا۔ ریسٹورنٹ کے فرنٹ گیٹ سے اندر داخل ھوا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو اپنے Appointment کے بارے میں بتایا تو اس نے Intercom کے ذریعے مینیجر کو مطلع کیا۔ کچھ دیر بعد مینیجر نے مجھے اندر اپنے کمرے میں بلا لیا۔
(جاری ھے)