Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نہ تو ہر موت کو شہادت کا درجہ دے کر فراموش کیاجائے گا نہ ہر حادثے کو منشائے الہی بتا کر فائلوں میں دبا دیا جائے گا یہ جو حادثہ ہوا ہے جو اتنے لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیراعظم، وزیر ہوابازی، سول ایوی ایشن اتھارٹی یا چیرمین PIA ایر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ جن کوسندھ ہائیکورٹ نے چیئرمین پی آئی اے کے طور پر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا؟
سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔فروری2020میں آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کےمطابق ارشدملک مطلوبہ عہدےکیلئےموزوں نہیں۔آڈیٹرجنرل نےان کی بدانتظامی پرکئی صفحات کالےکئے۔مگرعدالت نےان کوعہدےپربحال کردیا۔ایساکیوں ہوا؟
یہ کہنا بڑا آسان ہوتا ہے کہ شہید ہوگئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے، اور یہ کہ موت کا وقت متعین ہے اور جہاز کے حادثے کا وقت مقررہ تھا اور جو مرے ان کا وقت آگیا تھا، بے شک ہمارا ایمان ہے کہ ان کا وقت آگیا تھا لیکن کبھی وہ وقت ان حکام کا بھی آئے گا جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان حادثوں کی توجیہات پیش کرتے ہیں.ہم سب کو یقین ہے کہ اللہ ان سب کی مغفرت فرمادے گا جو اس حادثے میں اس کے پاس لوٹ گئے ہیں لیکن جو اس دنیا میں اس حادثے کے ذمہ دار ہیں انکو کٹھرے میں کب لایا جائے گا ۔
وہ وزیر ہوابازی غلام سرور کب استعفی دیں گے جو کنٹینر پر ناچ ناچ کر استعفی مانگا کرتے تھے جو ہر حادثے کے ذمہ دار کے طور پر اس وقت کے وزیراعظم سے استعفی مانگتے تھے، آج وزیر ہوابازی کہاں منہ چھپا رہے ہیں، P I A کے چیرمین ارشد ملک کے جو جاں بحق افراد کے لواحقین کو PIA کے ہوٹلز میں ٹھرانے کی بات کررہے ہیں وہ کب استعفی دیں گے، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر وہ بتارہے ہیں کہ طیارہ مکمل طور پر فٹ ٹھا پائیلٹ کی گفتگو ہم سب نے سنی ہے ایئر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ کہہ رہا ہے کہ لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہا ۔بات کو گھمائیں مت حساب دیں، ان تمام جانوں کا آپ اس کے ذمہ دار ہیں لیکن آپ سے اس ملک کے کمی کمین کیسے حساب لے سکتے ہیں؟
ہر حادثے کو بڑے بڑے جملے بول کر گلیمرائز کردو کہ یہ موت شہادت کی موت ہوئی ہے اس طیارے کا وقت آگیا تھا وہ سب درست ہے لیکن یہ بھی تو بتائو کہ ذمےدار کون ہے اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ طیارہ کیوں حادثے کا شکار ہوا۔
ویب سائٹ سے پتا چلتا ہے کہ یہ 14 سال پرانا جہاز ہے اس کی عمر کوئی زیادہ نہیں ہے لیکن ریپیر میں پرزوں میں، معیار میں، کہاں ڈنڈی ماری گئی ہے ۔وزیراعظم جو دو سال پہلے تک یورپ اور امریکہ کی بات کرتے تھے، میرٹ کی بات کرتے تھے، ایسے واقعات پر اہل اقتدار سے استعفیٰ مانگ لیا کرتے تھے، کیا استعفیٰ کا اصول ماضی کی کہانی تھی یا اس کا اطلاق اس دور میں بھی ہوتا ہے؟
نہ تو ہر موت کو شہادت کا درجہ دے کر فراموش کیاجائے گا نہ ہر حادثے کو منشائے الہی بتا کر فائلوں میں دبا دیا جائے گا یہ جو حادثہ ہوا ہے جو اتنے لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیراعظم، وزیر ہوابازی، سول ایوی ایشن اتھارٹی یا چیرمین PIA ایر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ جن کوسندھ ہائیکورٹ نے چیئرمین پی آئی اے کے طور پر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا؟
سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔فروری2020میں آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کےمطابق ارشدملک مطلوبہ عہدےکیلئےموزوں نہیں۔آڈیٹرجنرل نےان کی بدانتظامی پرکئی صفحات کالےکئے۔مگرعدالت نےان کوعہدےپربحال کردیا۔ایساکیوں ہوا؟
یہ کہنا بڑا آسان ہوتا ہے کہ شہید ہوگئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے، اور یہ کہ موت کا وقت متعین ہے اور جہاز کے حادثے کا وقت مقررہ تھا اور جو مرے ان کا وقت آگیا تھا، بے شک ہمارا ایمان ہے کہ ان کا وقت آگیا تھا لیکن کبھی وہ وقت ان حکام کا بھی آئے گا جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان حادثوں کی توجیہات پیش کرتے ہیں.ہم سب کو یقین ہے کہ اللہ ان سب کی مغفرت فرمادے گا جو اس حادثے میں اس کے پاس لوٹ گئے ہیں لیکن جو اس دنیا میں اس حادثے کے ذمہ دار ہیں انکو کٹھرے میں کب لایا جائے گا ۔
وہ وزیر ہوابازی غلام سرور کب استعفی دیں گے جو کنٹینر پر ناچ ناچ کر استعفی مانگا کرتے تھے جو ہر حادثے کے ذمہ دار کے طور پر اس وقت کے وزیراعظم سے استعفی مانگتے تھے، آج وزیر ہوابازی کہاں منہ چھپا رہے ہیں، P I A کے چیرمین ارشد ملک کے جو جاں بحق افراد کے لواحقین کو PIA کے ہوٹلز میں ٹھرانے کی بات کررہے ہیں وہ کب استعفی دیں گے، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر وہ بتارہے ہیں کہ طیارہ مکمل طور پر فٹ ٹھا پائیلٹ کی گفتگو ہم سب نے سنی ہے ایئر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ کہہ رہا ہے کہ لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہا ۔بات کو گھمائیں مت حساب دیں، ان تمام جانوں کا آپ اس کے ذمہ دار ہیں لیکن آپ سے اس ملک کے کمی کمین کیسے حساب لے سکتے ہیں؟
ہر حادثے کو بڑے بڑے جملے بول کر گلیمرائز کردو کہ یہ موت شہادت کی موت ہوئی ہے اس طیارے کا وقت آگیا تھا وہ سب درست ہے لیکن یہ بھی تو بتائو کہ ذمےدار کون ہے اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ طیارہ کیوں حادثے کا شکار ہوا۔
ویب سائٹ سے پتا چلتا ہے کہ یہ 14 سال پرانا جہاز ہے اس کی عمر کوئی زیادہ نہیں ہے لیکن ریپیر میں پرزوں میں، معیار میں، کہاں ڈنڈی ماری گئی ہے ۔وزیراعظم جو دو سال پہلے تک یورپ اور امریکہ کی بات کرتے تھے، میرٹ کی بات کرتے تھے، ایسے واقعات پر اہل اقتدار سے استعفیٰ مانگ لیا کرتے تھے، کیا استعفیٰ کا اصول ماضی کی کہانی تھی یا اس کا اطلاق اس دور میں بھی ہوتا ہے؟
نہ تو ہر موت کو شہادت کا درجہ دے کر فراموش کیاجائے گا نہ ہر حادثے کو منشائے الہی بتا کر فائلوں میں دبا دیا جائے گا یہ جو حادثہ ہوا ہے جو اتنے لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیراعظم، وزیر ہوابازی، سول ایوی ایشن اتھارٹی یا چیرمین PIA ایر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ جن کوسندھ ہائیکورٹ نے چیئرمین پی آئی اے کے طور پر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا؟
سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔فروری2020میں آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کےمطابق ارشدملک مطلوبہ عہدےکیلئےموزوں نہیں۔آڈیٹرجنرل نےان کی بدانتظامی پرکئی صفحات کالےکئے۔مگرعدالت نےان کوعہدےپربحال کردیا۔ایساکیوں ہوا؟
یہ کہنا بڑا آسان ہوتا ہے کہ شہید ہوگئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے، اور یہ کہ موت کا وقت متعین ہے اور جہاز کے حادثے کا وقت مقررہ تھا اور جو مرے ان کا وقت آگیا تھا، بے شک ہمارا ایمان ہے کہ ان کا وقت آگیا تھا لیکن کبھی وہ وقت ان حکام کا بھی آئے گا جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان حادثوں کی توجیہات پیش کرتے ہیں.ہم سب کو یقین ہے کہ اللہ ان سب کی مغفرت فرمادے گا جو اس حادثے میں اس کے پاس لوٹ گئے ہیں لیکن جو اس دنیا میں اس حادثے کے ذمہ دار ہیں انکو کٹھرے میں کب لایا جائے گا ۔
وہ وزیر ہوابازی غلام سرور کب استعفی دیں گے جو کنٹینر پر ناچ ناچ کر استعفی مانگا کرتے تھے جو ہر حادثے کے ذمہ دار کے طور پر اس وقت کے وزیراعظم سے استعفی مانگتے تھے، آج وزیر ہوابازی کہاں منہ چھپا رہے ہیں، P I A کے چیرمین ارشد ملک کے جو جاں بحق افراد کے لواحقین کو PIA کے ہوٹلز میں ٹھرانے کی بات کررہے ہیں وہ کب استعفی دیں گے، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر وہ بتارہے ہیں کہ طیارہ مکمل طور پر فٹ ٹھا پائیلٹ کی گفتگو ہم سب نے سنی ہے ایئر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ کہہ رہا ہے کہ لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہا ۔بات کو گھمائیں مت حساب دیں، ان تمام جانوں کا آپ اس کے ذمہ دار ہیں لیکن آپ سے اس ملک کے کمی کمین کیسے حساب لے سکتے ہیں؟
ہر حادثے کو بڑے بڑے جملے بول کر گلیمرائز کردو کہ یہ موت شہادت کی موت ہوئی ہے اس طیارے کا وقت آگیا تھا وہ سب درست ہے لیکن یہ بھی تو بتائو کہ ذمےدار کون ہے اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ طیارہ کیوں حادثے کا شکار ہوا۔
ویب سائٹ سے پتا چلتا ہے کہ یہ 14 سال پرانا جہاز ہے اس کی عمر کوئی زیادہ نہیں ہے لیکن ریپیر میں پرزوں میں، معیار میں، کہاں ڈنڈی ماری گئی ہے ۔وزیراعظم جو دو سال پہلے تک یورپ اور امریکہ کی بات کرتے تھے، میرٹ کی بات کرتے تھے، ایسے واقعات پر اہل اقتدار سے استعفیٰ مانگ لیا کرتے تھے، کیا استعفیٰ کا اصول ماضی کی کہانی تھی یا اس کا اطلاق اس دور میں بھی ہوتا ہے؟
نہ تو ہر موت کو شہادت کا درجہ دے کر فراموش کیاجائے گا نہ ہر حادثے کو منشائے الہی بتا کر فائلوں میں دبا دیا جائے گا یہ جو حادثہ ہوا ہے جو اتنے لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیراعظم، وزیر ہوابازی، سول ایوی ایشن اتھارٹی یا چیرمین PIA ایر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ جن کوسندھ ہائیکورٹ نے چیئرمین پی آئی اے کے طور پر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا؟
سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔فروری2020میں آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کےمطابق ارشدملک مطلوبہ عہدےکیلئےموزوں نہیں۔آڈیٹرجنرل نےان کی بدانتظامی پرکئی صفحات کالےکئے۔مگرعدالت نےان کوعہدےپربحال کردیا۔ایساکیوں ہوا؟
یہ کہنا بڑا آسان ہوتا ہے کہ شہید ہوگئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے، اور یہ کہ موت کا وقت متعین ہے اور جہاز کے حادثے کا وقت مقررہ تھا اور جو مرے ان کا وقت آگیا تھا، بے شک ہمارا ایمان ہے کہ ان کا وقت آگیا تھا لیکن کبھی وہ وقت ان حکام کا بھی آئے گا جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان حادثوں کی توجیہات پیش کرتے ہیں.ہم سب کو یقین ہے کہ اللہ ان سب کی مغفرت فرمادے گا جو اس حادثے میں اس کے پاس لوٹ گئے ہیں لیکن جو اس دنیا میں اس حادثے کے ذمہ دار ہیں انکو کٹھرے میں کب لایا جائے گا ۔
وہ وزیر ہوابازی غلام سرور کب استعفی دیں گے جو کنٹینر پر ناچ ناچ کر استعفی مانگا کرتے تھے جو ہر حادثے کے ذمہ دار کے طور پر اس وقت کے وزیراعظم سے استعفی مانگتے تھے، آج وزیر ہوابازی کہاں منہ چھپا رہے ہیں، P I A کے چیرمین ارشد ملک کے جو جاں بحق افراد کے لواحقین کو PIA کے ہوٹلز میں ٹھرانے کی بات کررہے ہیں وہ کب استعفی دیں گے، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر وہ بتارہے ہیں کہ طیارہ مکمل طور پر فٹ ٹھا پائیلٹ کی گفتگو ہم سب نے سنی ہے ایئر مارشل ارشد ملکہ صاحب وہ کہہ رہا ہے کہ لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہا ۔بات کو گھمائیں مت حساب دیں، ان تمام جانوں کا آپ اس کے ذمہ دار ہیں لیکن آپ سے اس ملک کے کمی کمین کیسے حساب لے سکتے ہیں؟
ہر حادثے کو بڑے بڑے جملے بول کر گلیمرائز کردو کہ یہ موت شہادت کی موت ہوئی ہے اس طیارے کا وقت آگیا تھا وہ سب درست ہے لیکن یہ بھی تو بتائو کہ ذمےدار کون ہے اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ طیارہ کیوں حادثے کا شکار ہوا۔
ویب سائٹ سے پتا چلتا ہے کہ یہ 14 سال پرانا جہاز ہے اس کی عمر کوئی زیادہ نہیں ہے لیکن ریپیر میں پرزوں میں، معیار میں، کہاں ڈنڈی ماری گئی ہے ۔وزیراعظم جو دو سال پہلے تک یورپ اور امریکہ کی بات کرتے تھے، میرٹ کی بات کرتے تھے، ایسے واقعات پر اہل اقتدار سے استعفیٰ مانگ لیا کرتے تھے، کیا استعفیٰ کا اصول ماضی کی کہانی تھی یا اس کا اطلاق اس دور میں بھی ہوتا ہے؟