وفاق اور صوبے کی لڑائ میں کراچی جل رہا ھے۔ نقصان صرف کراچی اور کراچی والوں کا ھو رہا ھے۔
عوام تو پہلے ہی بنیادی سہولتوں کا رونا رو رہے تھے لیکن اب کم وبیش تمام چھوٹے بڑے تاجر، ٹرانسپورٹرز اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اور ان کے اساتذہ کرام بھی صوبائی حکومت سے بیزار نظر آتے ھیں۔
یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ اٹھارویں ترمیم کا سب سے زیادہ نقصان کراچی کو ھواھے اور ھو رہا ھے۔وفاق سے صوبہ سندھ کو تو پیسے منتقل ھو رہےھیں لیکن وہ رقم نچلی سطح تک منتقلی نہیں ھو رہی اور ترقیاتی کام صفر ھیں ،یوں پورا صوبہ خاص طور پر کراچی مکمل تباہی سے دوچار ھے۔
سندھ کے حکمرانوں کا تعلق اندرون سندھ سے ھے اور وہ کراچی کا موازنہ مکلی ، مٹھی ، گھارو، سیہون، لاڑکانہ اور سندھ کے دیگر شھروں سے کرتے ھیں اور انھیں کراچی ان سب میں بہتر شھر نظر آتا ھے۔ حالانکہ کراچی ایک میٹروپولیٹن شھر ھے اور اس کا موازنہ سندھ کے چھوٹے شھروں سے کرنے کی بجاۓ دنیا کے دیگر میٹروپولیٹن شھروں سے کرنا چاہیۓ۔ اور اس شھر کو دور جدید کی تمام سہولتیں سے ہمکنار کرنا ھو گا۔
سندھ کے چند وزراء بادشاہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہیں کراچی سے کوئی غرض نہیں۔ یہ لوگ صرف نوٹ بنانے پر لگے ھوۓ ھیں۔
کراچی سے پی ٹی آئی ارکان کی ایک بڑی تعداد قومی اور صوبائ اسمبلیوں میں موجود ھیں۔ ملک کے صدر اور صوبے کے گورنر کا تعلق بھی اسی شھر سے ھے۔ اسی طرح PTI کی حریف جماعت MQM کے کئ صوبائ اور قومی ارکان اسمبلی بھی اسی شھر سے تعلق رکھتے ھیں۔ اتنی بڑی نمائندگی ھونے کے باوجود کراچی کا موہن جو دڑو میں تبدیل ھو جانا وفاقی حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ھے۔وفاقی حکومت کو چاہیۓ کہ فوری طور پر آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت کر کے ایک ایسا راستہ تلاش کیا جاۓ جس پر صوبائی حکومت کو بھی کوئی اعتراض نہ ھو اور جس سے کراچی کی تعمیر اور ترقی کا آغاز ھو سکے اور کراچی شھر کے باسیوں کے ساتھ ھونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ھو سکے۔