Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
شیخ سعدی شیرازی اپنی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے غلام کے ساتھ کشتی میں بحری سفر کر رہا تھا اچانک سفر کے دوران سمندر میں طوفان آگیا تو ایسے میں غلام نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے غلام کو بہت سمجھایا مگر وہ سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ تب کشتی میں سوار ایک سپاہی نے بادشاہ سے کہا جناب آپ کا حکم ہو تو میں کچھ کروں۔بادشاہ نے اجازت دے دی۔ اس سپاہی نے اس غلام کو پانی میں پھینک دیا۔ اور کچھ دیر بعد باہر نکل لیا۔ اب غلام اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا۔ اس پر سپاہی نے کہا کہ “انسان کو مصبیت سے تحفظ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا ہے جب تک اس سے دو چار نہ ہو”
پاکستان میں ایک ہومیو پیتھک لاک ڈاؤن جو شاندار طریقے سے ناکام ہو گیانے مرض کے پھیلاؤ کا تو کچھ نہیں بگاڑا دوسری طرف غریب مزدور اور سفید پوش طبقات کو بھکاریوں کی فہرست میں شامل کردیا۔نتیجہ عوام کے بے حد دباؤ پر حکومت کو بھی سجدہ سہو کرنا ہی پڑا۔
یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ آبادی کو ابھی تک اس مرض کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے، اور حکومت پر اعتماد بھی نہیں، اوپر سے آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے پنڈت جنہوں نے کورونا کے ایک مریض کو دیکھا بھی نہیں ہوگا اور بڑے اعتماد سے اسے جھوٹ و دھوکہ قرار دے رہے ہیں۔ رہی سہی کسر کل یوم علی کے موقعے پر کی ہوئی احمقانہ دو عملی کے مظاہرے نے بھی حکومت کے اعتماد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔
اس صورت میں کنفیوز عوام کیسے اپنی زندگی کو معطل کرکے گھروں میں طویل عرصے کے لئے مقید ہونا قبول کرلیں ۔ باقی بھوک غربت ایک حقیقت ہے اور کسی چیز پر عمل نہ کرنے کا بہانہ بھی۔
جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے اور اس حکایت کے غلام کی طرح اپنی آنکھوں سے اس مرض کے شکاروں کو دیکھیں گے یا خود اپنے گھروں میں بھگتیں گے تب ہی شاید گھروں میں رہنے کی عافیت کی قدر سمجھ میں آئے گی۔ تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔
لاک ڈاؤن جسے پوری دنیا میں سوائے چند ممالک کے کورونا کو ختم تو نہیں لیکن اسکی رفتار کو کم کر کے محدود کرنے کا بہتر ترین حل سمجھا گیا تھا۔
– اسی کی بدولت ہانگ کانگ میں صرف 1048 مریض اور چار اموات کے ساتھ پُرسکون ہے۔
– شاید ویت نام بھی۔
– سنگاپور میں بھی واضح طور پر حالات کی بہتری کی طرف جارہے ہیں۔لیکن یہاں کی حکومت نے لاک ڈاؤن اُٹھانے کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن ساتھ میں تنبیہ بھی کردی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد انفیکشن میں اضافہ ہو گا۔
– بھارت نے بھی سختی سے لاک ڈاؤن نافذ کرکے مرض کی رفتار کو آہستہ کرتو لیا ہے،
– لیکن یہ وبا موج در موج حملہ کرتی ہے پہلی موج کو کامیابی سے نمٹنے کے مطلب صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ اگلی اور بڑی موج کا انتظار۔
لاک ڈاؤن کی تیز دوا بار بار نہیں دی جاسکتی ۔یہ بھی اینٹی بائیوٹک کی طرح ہے اگر درست طرح سے استعمال نہ کی جائے تو مریض میں اس کے خلاف امیونٹی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد مزید طاقتور ایٹی بائیوٹک ادویات ۔۔
جب لاک ڈاؤن ناکام ہو جائے تو اگلا مرحلہ ہرڈ امیونٹی (ریوڑانہ مدافعت ) پر آجاتی ہے اب یہ ریوڑانہ مدافعت کیا ہے۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں پھر بھی متعلقہ اقتباس دوبارہ پیش کرتا ہوں۔
“بنیادی طور پر ہرڈ امیونٹی پیدا کرنے کے لئے عوام کو مرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ان میں سے کمزور اور ضعیف مرض کے ہاتھوں بیماری و موت کا شکار ہو جائیں گے۔
باقی بچنے والے مضبوط و قوی افراد قدرتی طور پر اپنے اندر اس مرض کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیں گے۔ بظاہر نیم دلانا لاک ڈاؤن اور اسکے بعد کے اقدامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس معاملے کو ہرڈ امیونٹی اور غزرائیل علیہ السلام کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔آخر میں جتنی آبادی بچ جائے ان میں یہ وائرس قدرتی طور پر بے اثر ہوجائے گا۔
واضع رہے یہ ابھی تک صرف تھیوری ہے کہ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے کورونا کے بارے میں ہرڈ امیونٹی حاصل نہیں کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرڈ امیونٹی کے لئے ۶۰ سے ۸۰ فیصد آبادی کو وائرس سے متاثر ہونا لازمی بھی ہے اور یہ بھی صرف اندازہ ہے۔ حقیقی صورتحال کچھ بھی ہو سکتی ہے۔”
درحقیقت لاک ڈاؤن ہو یا ہرڈ امیونٹی یا کچھ اور یہ سب تدابیر ہیں جنہیں حسب ضرورت اپنے حالات کے لحاظ مناسب تبدیلیوں کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں (بشرطیہ حسب منشاء نتائج حاصل ہو سکیں)۔ لیکن پوری دنیا کی اجتماعی دانش کو مسترد کر کے نئے راستے تلاش کرنے کے بعد نتائج و عواقب کی ذمہ داری اور (اگر کامیابی کی صورت میں)سہرا بھی ارباب اختیار کے سر پر بندھے گا۔
اسوقت ہم مکمل لاک ڈاؤن سے آگے بڑھ چکے ہیں اور کسی انتہائی بڑے سانحے سے پہلے واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اور اللہ سے اس کے بارے میں پناہ مانگتے رہیں۔اس لئے ہرڈ امیونٹی اور سیلیکٹڈ لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی نیا راستہ نظر نہیں آرہا ۔ یقیناً حکومت و ماہرین سر جوڑ کر کوئی قابل عمل یا کم نقصان دہ راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ارباب اختیار متبادل یعنی ہرڈ امیونٹی کے بارے میں بھی عوام کو واشگاف انداز سے بتائیں۔ ہمارے ماہرین و حکومت اسکے لئے واضح طریقہ کار وضع کرکے عوام کو اس سے آگہی فراہم کی جائے تاکہ کم از کم نقصان میں اس مصیبت سے جان چھڑائی یا اسکے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھا جاسکے۔
زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ اس مرض کا شکار تو ہر عمر کے افراد ہوتے ہیں لیکن موت کی شرح ضعیف افراد میں زیادہ ہے۔ ویسے تو مرنے والوں کی عمر کے بارے میں زیادہ ڈیٹا نہیں مل رہا لیکن جستہ جستہ معلومات سامنے آئی ہیں انکے مطابق۔
1. اٹلی کے 31000سے زائد اموات میں صرف 1340 افراد ساٹھ سال سے کم عمر تھے۔ بلکہ پچاس سے کم تو تقریباً 300 ہی تھے۔
2. اسپین کے تقریباً 65 فیصد اموات ساٹھ سے زائد العمر افراد کی ہوئی۔
3. فرانس میں ایک دن میں ہونے والی ساڑھے تین ہزار اموات میں سے 84% 70سال سے زائد العمر تھے۔
4. میرے وطن ثانی سنگاپور میں 26 ہزار سے زاید مریضوں کے ساتھ صرف 22 اموات ہوئی ہیں ان میں صرف ایک مریض 58 سال (صرف ایک ہی باقی 60 سال سے زیادہ ہی تھے) 90 سال تک کی عمریں شامل تھیں۔
ویسے تو وطن عزیز میں کورونا سے ۳۰ سالہ جوان سے لیکر ۷۰ سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی اموات سامنے آئی ہیں ، لیکن بین القوامی شماریات (جتنا بھی ڈیٹا میرے سامنے آیا) کے مطابق اصل خطرہ ۶۰ سے زاید العمر افراد کو ہے۔اور ۷۰ سے اوپر والے تو انتہائی خطرے میں ہوتے ہیں۔
اس صورتحال میں ہرڈ امیونٹی ہو یا نہیں اموات کے تناظر میں عمومی طور پر پچاس سال سے اوپر خطرے کی لکیر شروع ہو جاتی ہے ، ۶۰ سال کی عمر کے لوگوں بزرگوں کو آیسولیٹ کرنے کے مطلب صرف انہیں گھر میں بند کرنا نہیں ہے۔
بلکہ انکا گھر کے دیگر افراد جو باہر نکلتے ہیں یا وہ افراد جو باہر نکلنے والوں سے ملتے جلتے رہتے ہیں سے رابطہ مکمل ختم کرنا ہو گا۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہو گی کہ ضعیف العمر ریٹائیر افراد جیتے ہی اپنے بچّوں اور انکی اولاد ہی کو دیکھ کر جیتے ہیں اور شدید تنہائی بذات خود نفسیاتی اور صحت کے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔
چند ہفتوں پہلے میں نے ایک ملائشین ڈاکٹر کی داستان لکھی تھی ۔ چونکہ و کورونا کے مریضوں کو ڈیل کررہا تھا اسنے اپنا کمرہ الگ کر لیا تھا۔ دوسرا یہ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود اپنے والدین سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔
میں نے کچھ لوگوں کو جو کراچی میں ملازمتیں کرتے ہیں کو اس معاملے کی ابتدا ہی میں تلقین کی تھی کہ تمہاری تو شاید ملازمت کی مجبوری ہے۔ لیکن بچّوں اور بوڑہے والدین کو گاؤں بھیج دو تاکہ کم از کم انکے بیرونی رابطے کم ہو جائیں۔ لیکن کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا۔
ایک بار پھر ماہرین و حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ ہم اپنی قوم کے عمومی رویوں کو جانتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن شاید کسی بھی صورت میں کبھی بھی نافذ کرنے میں کامیاب نہ سکیں ۔
اس صورت میں گھروں میں رہنے والے 60 سال سے زائد العمر بزرگوں کے لئے کوئی مناسب پروٹوکول بنا ئے بھر پور تشہیر کرے تاکہ ہماری آبادی کے اس اہم ترین طبقے کی جس نے اپنی عمریں اپنی اولاد اور ملک و قوم کو دی ہیں کی کماحقہ حفاظت کی جاسکے۔
ایک بات یہ ہے کہ صرف شدید بیماروں جو کہ عمومی طور پر پانچ فیصد سے کم ہی ہوتے ہیں لیکن ہم جیسے کمزور نظام صحت والے ممالک میں باآسانی 10/15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورت میں وینٹیلیٹرز کی شدید ضرورت ہوتی ہے جسے امریکہ و یوروپ جیسے دولتمند ممالک بھی پوری نہیں کرسکے ہیں۔
بلکہ اس بات کا گمان بھی کیا جاسکتا ہے کہ وینٹیلیٹرز کی قلت کی بناء پر ڈاکٹر حضرات وسائل کو اشد ضروری مریضوں پر استعمال کرنے مجبور ہوئے اور ایک لحاظ سے انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ کس مریض کو بچانا ہے اور کسی مرنے کے لئے چھوڑ دینا ہے۔
شاید یہ بھی یوروپ میں ضعیف افراد کی اموات انتہائئ زیادہ تناسب کی وجہ ہو۔ کہ ضعیف ایک تو ریٹائیرڈ ہونے کی وجہ سے نظام صحت پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں دوسرے یہ بھی کہ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض کے شکار بچنے کے امکانات محدود ہوتے ہیں اس لئے انہیں انکے حال پر چھوڑ کرتوجہ معاشی طور پر فائدہ مند اور جسمانی طور پر قوی افراد کو ترجیحی طور پر وینٹیلیٹرز اور آئی سی یو فراہم کیے گئے۔
اسوقت جب مرض اپنی انتہا پر نہیں پہنچا ہے پہلے ہی وینٹیلیٹرز کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ دنیا میں بہت سی حکومتوں نے اپنی دیگر صنعتوں کو پیداوار بند کرکے ہنگامی طور پر وینٹیلیٹرز بنانے کا حُکم دیا ہے جس میں کار انڈسٹری سرفہرست ہے۔ شاید ہم بھی اپنی آٹو موبائل انڈسٹری کو اس طرف متوجہ کرسکیں۔
اسکے علاوہ کل ایک دلچسپ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ دنیا کی موقر ترین یونیورسٹی MIT نے ہنگامی طور پر سسستا ترین وینٹیلیٹر ڈیزائن کیا ہے جوکہ چند سو ڈالرز کی مالیت سے بنایا جاسکتا ہے۔ غریب ممالک کی مدد کے لئے MIT نے اسکا ڈیزائن اوپن سورس کردیا ہے۔ یعنی دنیامیں جس ملک میں ضرورت ہو اسے استعمال کرکے اپنے وینٹیلیٹر بنا سکتا ہے۔
میں نے کچھ دوستوں کو اسکی ابتدائی اطلاعات فارورڈ بھی کردی ہیں کہ ہمارے انجینئروں کو اسے دیکھ کر ممکنہ طور پر اسپر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہم اس معاملے کا مقامی حل نکال سکیں۔
کارپوریٹ شوشل ریسپانسیبلٹی
آخری بات چاہے وینٹیلیٹروں کی فراہمی ہو یا دیگر سہولیات کی فراہمی کارپوریٹ شوشل ریسپانسیبلٹی کے تحت ہمارے کاروباری اداروں کو اس آفت ناگہانی کے مقابلے کے لئے اپنے وسائل ملک و قوم کے حوالے کردینے چاہیں۔تاکہ ہماری پوری قوم مل کر اس آفت ناگہانی سے مقابلہ کر سکے۔
کیا ہماری کارساز و دیگر انڈسٹریاں خود کو وینٹیلیٹر کی تیاری کے لئے پیش کر سکتی ہیں؟ کیا ہماری یوٹیلٹی کمپنیاں بلخصوص کے الیکٹرک اور سوئی گیس فراہم کنندگان مخصوص رفاحی اداروں جو مفت علاج فراہم کررہے ہیں (کمرشیل نہیں) و ہسپتال (الخدمت، انڈس ہسپتال ، اوجھا )جو اس جنگ کے صف اوّل پر ہیں کے گیس و بجلی کے بل چند ماہ ہی کے لئے سہی معاف کرکے اس جنگ میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے؟
اب یہ پوری قوم کی مصیبت ہے اس وباء سے جنگ میں ہر شخص ہر ادارہ کو حصہ ڈالنا ہے ہے۔ قوم سلامت رہےکھانے کمانے کے مواقعے آہی جائیں گے۔ان شاء اللہ
شیخ سعدی شیرازی اپنی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے غلام کے ساتھ کشتی میں بحری سفر کر رہا تھا اچانک سفر کے دوران سمندر میں طوفان آگیا تو ایسے میں غلام نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے غلام کو بہت سمجھایا مگر وہ سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ تب کشتی میں سوار ایک سپاہی نے بادشاہ سے کہا جناب آپ کا حکم ہو تو میں کچھ کروں۔بادشاہ نے اجازت دے دی۔ اس سپاہی نے اس غلام کو پانی میں پھینک دیا۔ اور کچھ دیر بعد باہر نکل لیا۔ اب غلام اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا۔ اس پر سپاہی نے کہا کہ “انسان کو مصبیت سے تحفظ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا ہے جب تک اس سے دو چار نہ ہو”
پاکستان میں ایک ہومیو پیتھک لاک ڈاؤن جو شاندار طریقے سے ناکام ہو گیانے مرض کے پھیلاؤ کا تو کچھ نہیں بگاڑا دوسری طرف غریب مزدور اور سفید پوش طبقات کو بھکاریوں کی فہرست میں شامل کردیا۔نتیجہ عوام کے بے حد دباؤ پر حکومت کو بھی سجدہ سہو کرنا ہی پڑا۔
یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ آبادی کو ابھی تک اس مرض کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے، اور حکومت پر اعتماد بھی نہیں، اوپر سے آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے پنڈت جنہوں نے کورونا کے ایک مریض کو دیکھا بھی نہیں ہوگا اور بڑے اعتماد سے اسے جھوٹ و دھوکہ قرار دے رہے ہیں۔ رہی سہی کسر کل یوم علی کے موقعے پر کی ہوئی احمقانہ دو عملی کے مظاہرے نے بھی حکومت کے اعتماد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔
اس صورت میں کنفیوز عوام کیسے اپنی زندگی کو معطل کرکے گھروں میں طویل عرصے کے لئے مقید ہونا قبول کرلیں ۔ باقی بھوک غربت ایک حقیقت ہے اور کسی چیز پر عمل نہ کرنے کا بہانہ بھی۔
جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے اور اس حکایت کے غلام کی طرح اپنی آنکھوں سے اس مرض کے شکاروں کو دیکھیں گے یا خود اپنے گھروں میں بھگتیں گے تب ہی شاید گھروں میں رہنے کی عافیت کی قدر سمجھ میں آئے گی۔ تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔
لاک ڈاؤن جسے پوری دنیا میں سوائے چند ممالک کے کورونا کو ختم تو نہیں لیکن اسکی رفتار کو کم کر کے محدود کرنے کا بہتر ترین حل سمجھا گیا تھا۔
– اسی کی بدولت ہانگ کانگ میں صرف 1048 مریض اور چار اموات کے ساتھ پُرسکون ہے۔
– شاید ویت نام بھی۔
– سنگاپور میں بھی واضح طور پر حالات کی بہتری کی طرف جارہے ہیں۔لیکن یہاں کی حکومت نے لاک ڈاؤن اُٹھانے کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن ساتھ میں تنبیہ بھی کردی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد انفیکشن میں اضافہ ہو گا۔
– بھارت نے بھی سختی سے لاک ڈاؤن نافذ کرکے مرض کی رفتار کو آہستہ کرتو لیا ہے،
– لیکن یہ وبا موج در موج حملہ کرتی ہے پہلی موج کو کامیابی سے نمٹنے کے مطلب صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ اگلی اور بڑی موج کا انتظار۔
لاک ڈاؤن کی تیز دوا بار بار نہیں دی جاسکتی ۔یہ بھی اینٹی بائیوٹک کی طرح ہے اگر درست طرح سے استعمال نہ کی جائے تو مریض میں اس کے خلاف امیونٹی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد مزید طاقتور ایٹی بائیوٹک ادویات ۔۔
جب لاک ڈاؤن ناکام ہو جائے تو اگلا مرحلہ ہرڈ امیونٹی (ریوڑانہ مدافعت ) پر آجاتی ہے اب یہ ریوڑانہ مدافعت کیا ہے۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں پھر بھی متعلقہ اقتباس دوبارہ پیش کرتا ہوں۔
“بنیادی طور پر ہرڈ امیونٹی پیدا کرنے کے لئے عوام کو مرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ان میں سے کمزور اور ضعیف مرض کے ہاتھوں بیماری و موت کا شکار ہو جائیں گے۔
باقی بچنے والے مضبوط و قوی افراد قدرتی طور پر اپنے اندر اس مرض کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیں گے۔ بظاہر نیم دلانا لاک ڈاؤن اور اسکے بعد کے اقدامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس معاملے کو ہرڈ امیونٹی اور غزرائیل علیہ السلام کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔آخر میں جتنی آبادی بچ جائے ان میں یہ وائرس قدرتی طور پر بے اثر ہوجائے گا۔
واضع رہے یہ ابھی تک صرف تھیوری ہے کہ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے کورونا کے بارے میں ہرڈ امیونٹی حاصل نہیں کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرڈ امیونٹی کے لئے ۶۰ سے ۸۰ فیصد آبادی کو وائرس سے متاثر ہونا لازمی بھی ہے اور یہ بھی صرف اندازہ ہے۔ حقیقی صورتحال کچھ بھی ہو سکتی ہے۔”
درحقیقت لاک ڈاؤن ہو یا ہرڈ امیونٹی یا کچھ اور یہ سب تدابیر ہیں جنہیں حسب ضرورت اپنے حالات کے لحاظ مناسب تبدیلیوں کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں (بشرطیہ حسب منشاء نتائج حاصل ہو سکیں)۔ لیکن پوری دنیا کی اجتماعی دانش کو مسترد کر کے نئے راستے تلاش کرنے کے بعد نتائج و عواقب کی ذمہ داری اور (اگر کامیابی کی صورت میں)سہرا بھی ارباب اختیار کے سر پر بندھے گا۔
اسوقت ہم مکمل لاک ڈاؤن سے آگے بڑھ چکے ہیں اور کسی انتہائی بڑے سانحے سے پہلے واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اور اللہ سے اس کے بارے میں پناہ مانگتے رہیں۔اس لئے ہرڈ امیونٹی اور سیلیکٹڈ لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی نیا راستہ نظر نہیں آرہا ۔ یقیناً حکومت و ماہرین سر جوڑ کر کوئی قابل عمل یا کم نقصان دہ راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ارباب اختیار متبادل یعنی ہرڈ امیونٹی کے بارے میں بھی عوام کو واشگاف انداز سے بتائیں۔ ہمارے ماہرین و حکومت اسکے لئے واضح طریقہ کار وضع کرکے عوام کو اس سے آگہی فراہم کی جائے تاکہ کم از کم نقصان میں اس مصیبت سے جان چھڑائی یا اسکے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھا جاسکے۔
زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ اس مرض کا شکار تو ہر عمر کے افراد ہوتے ہیں لیکن موت کی شرح ضعیف افراد میں زیادہ ہے۔ ویسے تو مرنے والوں کی عمر کے بارے میں زیادہ ڈیٹا نہیں مل رہا لیکن جستہ جستہ معلومات سامنے آئی ہیں انکے مطابق۔
1. اٹلی کے 31000سے زائد اموات میں صرف 1340 افراد ساٹھ سال سے کم عمر تھے۔ بلکہ پچاس سے کم تو تقریباً 300 ہی تھے۔
2. اسپین کے تقریباً 65 فیصد اموات ساٹھ سے زائد العمر افراد کی ہوئی۔
3. فرانس میں ایک دن میں ہونے والی ساڑھے تین ہزار اموات میں سے 84% 70سال سے زائد العمر تھے۔
4. میرے وطن ثانی سنگاپور میں 26 ہزار سے زاید مریضوں کے ساتھ صرف 22 اموات ہوئی ہیں ان میں صرف ایک مریض 58 سال (صرف ایک ہی باقی 60 سال سے زیادہ ہی تھے) 90 سال تک کی عمریں شامل تھیں۔
ویسے تو وطن عزیز میں کورونا سے ۳۰ سالہ جوان سے لیکر ۷۰ سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی اموات سامنے آئی ہیں ، لیکن بین القوامی شماریات (جتنا بھی ڈیٹا میرے سامنے آیا) کے مطابق اصل خطرہ ۶۰ سے زاید العمر افراد کو ہے۔اور ۷۰ سے اوپر والے تو انتہائی خطرے میں ہوتے ہیں۔
اس صورتحال میں ہرڈ امیونٹی ہو یا نہیں اموات کے تناظر میں عمومی طور پر پچاس سال سے اوپر خطرے کی لکیر شروع ہو جاتی ہے ، ۶۰ سال کی عمر کے لوگوں بزرگوں کو آیسولیٹ کرنے کے مطلب صرف انہیں گھر میں بند کرنا نہیں ہے۔
بلکہ انکا گھر کے دیگر افراد جو باہر نکلتے ہیں یا وہ افراد جو باہر نکلنے والوں سے ملتے جلتے رہتے ہیں سے رابطہ مکمل ختم کرنا ہو گا۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہو گی کہ ضعیف العمر ریٹائیر افراد جیتے ہی اپنے بچّوں اور انکی اولاد ہی کو دیکھ کر جیتے ہیں اور شدید تنہائی بذات خود نفسیاتی اور صحت کے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔
چند ہفتوں پہلے میں نے ایک ملائشین ڈاکٹر کی داستان لکھی تھی ۔ چونکہ و کورونا کے مریضوں کو ڈیل کررہا تھا اسنے اپنا کمرہ الگ کر لیا تھا۔ دوسرا یہ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود اپنے والدین سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔
میں نے کچھ لوگوں کو جو کراچی میں ملازمتیں کرتے ہیں کو اس معاملے کی ابتدا ہی میں تلقین کی تھی کہ تمہاری تو شاید ملازمت کی مجبوری ہے۔ لیکن بچّوں اور بوڑہے والدین کو گاؤں بھیج دو تاکہ کم از کم انکے بیرونی رابطے کم ہو جائیں۔ لیکن کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا۔
ایک بار پھر ماہرین و حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ ہم اپنی قوم کے عمومی رویوں کو جانتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن شاید کسی بھی صورت میں کبھی بھی نافذ کرنے میں کامیاب نہ سکیں ۔
اس صورت میں گھروں میں رہنے والے 60 سال سے زائد العمر بزرگوں کے لئے کوئی مناسب پروٹوکول بنا ئے بھر پور تشہیر کرے تاکہ ہماری آبادی کے اس اہم ترین طبقے کی جس نے اپنی عمریں اپنی اولاد اور ملک و قوم کو دی ہیں کی کماحقہ حفاظت کی جاسکے۔
ایک بات یہ ہے کہ صرف شدید بیماروں جو کہ عمومی طور پر پانچ فیصد سے کم ہی ہوتے ہیں لیکن ہم جیسے کمزور نظام صحت والے ممالک میں باآسانی 10/15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورت میں وینٹیلیٹرز کی شدید ضرورت ہوتی ہے جسے امریکہ و یوروپ جیسے دولتمند ممالک بھی پوری نہیں کرسکے ہیں۔
بلکہ اس بات کا گمان بھی کیا جاسکتا ہے کہ وینٹیلیٹرز کی قلت کی بناء پر ڈاکٹر حضرات وسائل کو اشد ضروری مریضوں پر استعمال کرنے مجبور ہوئے اور ایک لحاظ سے انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ کس مریض کو بچانا ہے اور کسی مرنے کے لئے چھوڑ دینا ہے۔
شاید یہ بھی یوروپ میں ضعیف افراد کی اموات انتہائئ زیادہ تناسب کی وجہ ہو۔ کہ ضعیف ایک تو ریٹائیرڈ ہونے کی وجہ سے نظام صحت پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں دوسرے یہ بھی کہ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض کے شکار بچنے کے امکانات محدود ہوتے ہیں اس لئے انہیں انکے حال پر چھوڑ کرتوجہ معاشی طور پر فائدہ مند اور جسمانی طور پر قوی افراد کو ترجیحی طور پر وینٹیلیٹرز اور آئی سی یو فراہم کیے گئے۔
اسوقت جب مرض اپنی انتہا پر نہیں پہنچا ہے پہلے ہی وینٹیلیٹرز کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ دنیا میں بہت سی حکومتوں نے اپنی دیگر صنعتوں کو پیداوار بند کرکے ہنگامی طور پر وینٹیلیٹرز بنانے کا حُکم دیا ہے جس میں کار انڈسٹری سرفہرست ہے۔ شاید ہم بھی اپنی آٹو موبائل انڈسٹری کو اس طرف متوجہ کرسکیں۔
اسکے علاوہ کل ایک دلچسپ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ دنیا کی موقر ترین یونیورسٹی MIT نے ہنگامی طور پر سسستا ترین وینٹیلیٹر ڈیزائن کیا ہے جوکہ چند سو ڈالرز کی مالیت سے بنایا جاسکتا ہے۔ غریب ممالک کی مدد کے لئے MIT نے اسکا ڈیزائن اوپن سورس کردیا ہے۔ یعنی دنیامیں جس ملک میں ضرورت ہو اسے استعمال کرکے اپنے وینٹیلیٹر بنا سکتا ہے۔
میں نے کچھ دوستوں کو اسکی ابتدائی اطلاعات فارورڈ بھی کردی ہیں کہ ہمارے انجینئروں کو اسے دیکھ کر ممکنہ طور پر اسپر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہم اس معاملے کا مقامی حل نکال سکیں۔
کارپوریٹ شوشل ریسپانسیبلٹی
آخری بات چاہے وینٹیلیٹروں کی فراہمی ہو یا دیگر سہولیات کی فراہمی کارپوریٹ شوشل ریسپانسیبلٹی کے تحت ہمارے کاروباری اداروں کو اس آفت ناگہانی کے مقابلے کے لئے اپنے وسائل ملک و قوم کے حوالے کردینے چاہیں۔تاکہ ہماری پوری قوم مل کر اس آفت ناگہانی سے مقابلہ کر سکے۔
کیا ہماری کارساز و دیگر انڈسٹریاں خود کو وینٹیلیٹر کی تیاری کے لئے پیش کر سکتی ہیں؟ کیا ہماری یوٹیلٹی کمپنیاں بلخصوص کے الیکٹرک اور سوئی گیس فراہم کنندگان مخصوص رفاحی اداروں جو مفت علاج فراہم کررہے ہیں (کمرشیل نہیں) و ہسپتال (الخدمت، انڈس ہسپتال ، اوجھا )جو اس جنگ کے صف اوّل پر ہیں کے گیس و بجلی کے بل چند ماہ ہی کے لئے سہی معاف کرکے اس جنگ میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے؟
اب یہ پوری قوم کی مصیبت ہے اس وباء سے جنگ میں ہر شخص ہر ادارہ کو حصہ ڈالنا ہے ہے۔ قوم سلامت رہےکھانے کمانے کے مواقعے آہی جائیں گے۔ان شاء اللہ