قلم بانس سے بنتا ہے اور بانس پر عشق کا سایہ ہے. بانس سے فنون لطیفہ کے دو معروف آلات بنتے ہیں.موسیقی کے لیے بانسری
اور خطاطی کے لیے قلم۔
مولانا روم رح نے اسی پس منظر میں. لکھا کہ جس طرح بانس کی کوئی شاخ اپنی جڑ سے جدا ہوتی ہے. تو ہوا لگنے پر وہ روتی ہے. چیختی ہے.
کہ اسے کیوں اپنی اصل سے جدا کیا گیا ہے.
شاخ کا یہ رونا اس کے هجر کا درد ہے.
اسی طرح انسان بھی جب دنیا کی گرم سرد ہواؤں میں روتا ہے، تو وہ بھی دراصل اپنے خدا سے جدا ہونے کا درد بیان کرتا ہے.
بانس اور انسان کی یہ کہانی، صرف ایک تشبیہ نہیں، بلکہ مولانا کی حکایت، حقیقتِ ازل کا راز محسوس ہوتی ہے.
اسی طرح جب بانس کا قلم لکھتا ہے، تو اس میں ایسی کمال کی جیؤمیٹری اور کشش پیدا ہوتی ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے.
بانس کے قلم سے لکھے الفاظ اور بانسری کی آواز میں یہ کشش کہاں سے آ گئی جو دلوں کو چیر کر رکھ دیتی ہے……
اس کا سبب پرکھنے کے لیے کچھ حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں.
بانس، جو درحقیقت درخت نہیں، بلکہ ماہر حیاتیات کے نزدیک گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے. اور گھاس اس کرہ ارض پر لاکھوں یا کروڑوں سال پرانی نہیں بلکہ تقریباً دو ارب سال سے موجود ہے. اور اس خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ بانس، ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 14 سے 15 کروڑ سال پرانا ہے.
اور یہ انتہائی تیزی سے نمو پانے والا پودا ہے. جس کی تقریباً 1300 کے قریب اقسام ہیں.
اس کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسے چین میں خوشی بختی و خوش حالی کی علامت سمجھتا جاتا ہے…..
اس کی مضبوطی و سخت جان ہونے کا اندازہ اس طر ح سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1945 میں ہیروشیما پر ہونے والے ایٹمی دھماکے میں سب جاندار اور درخت وغیرہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے اور زندگی کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہا تھا. لیکن بانس ایٹمی دھماکے کے خطر ناک شعاعوں کو بھی برداشت کر کے محفوظ رہا. جو کہ اب ہیرو شیما کے میوزیم میں رکھا گیا ہے. جسے ایٹمی دھماکے بھی تباہ نہ کر سکے ، وہ بانس کیسا سخت جان اور مضبوط ہوسکتا، اس کا اندازہ کوئی صاحبِ عشق ہی لگا سکتا ہے.
ایک عام درخت کے مقابلے میں بانس %35 زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے. جو کہ انسانی زندگی کی ضامن ہے. انسان کو شفاف ہوا میں بہترین سانس لے کر زندگی کو خوبصورت بنانے میں بانس یوں بھی معاون ہے.
انگریزی زبان میں اسے Bamboo کہا جاتا ہے ، جو دراصل ملائیشین زبان Mamboo سے ماخوذ ہے.
اور بہترین اقسام کے بانس بھی ملائیشیا میں. پیدا ہوتے ہیں.
خطاطی کے قلم کے لیے بھی بہترین قسم کا بانس، “جاوی” ملائیشیا میں پیدا ہوتا ہے. طواسین، ایرانی بانس بھی قلم کے لیے نہایت معیاری ہے.
قلم، بانس کی تراشی ہوئی شاخ، خطاط کے لیے آج اکیسویں صدی میں، اس لیے بھی سب سے زیادہ اہم ہے، کہ اس کی داستان نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ یہ شاخ آواز کا سُر بھی ہے، اور عشق کا درد بھی، انسان دوست بھی ہے، اور سخت جاں بھی…..
اس لیے درد عشق میں اس کا یوں سخت جاں ہونا، رومی کی بانسری بن کر انسان کی تمثیل بن جاتا ہے…..
اور
خطاط کے فن کا ایسا راز، جو سالوں کی ریاضیت کے بعد اسی بانس کی نوکِ قلم سے بیاں ہوتا ہے. اور بندے و خدا کے درمیان عشق کی سیڑھی بن کر اسے خدا کی بارگاہ میں مقبول بنا دیتا ہے.
سچ ہے، بانس پر عشق کا ہی نہیں، بلکہ عشقّ ازل کا سایہ ہے…..!
اسی لیے مالک کائنات بھی قلم کی یوں قسم اٹھاتا ہے…..
ن والقلم وما یسطرون……!