پنجاب بھر کے کالجز تدریسی عملے کے حوالے سے عدم توازن کا شکار ہیں. قانون کے مطابق ایک مضمون کے ہر تیس طالبعلموں پر ایک استاد ہونا چاہیے. اس طرح استاد کو روز چارکلاسز پڑھانا ہوتی ہیں. اس اصول کے مطابق ہر ایک سو بیس طلبہ پر ایک استاد ہونا چاہیے. اگر طلبہ کی تعداد ایک سو اکیس ہوجائے تو وہاں فوری طور پر اس مضمون کا دوسرا استاد تعینات کیا جائے گا. طلبہ اور اساتذہ کی اس نسبت کو ایس ٹی آر کہا جاتا ہے. اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کہیں تو چار چار سو طلبہ کے لیے ایک استاد ہے اور کہیں دس طلبہ کے لیے چار چار اساتذہ رکھ چھوڑے گئے ہیں. ایک ڈگری کالج کے پرنسپل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر” آوازہ “کو بتایا کہ ان کے کالج میں شعبہ صحافت کے دو پروفیسرز ہیں جب کہ انٹر کی سطح پر یہ مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا. گریجویشن کی سطح پر یہ اختیاری مضمون ہے اور ہر سال اس میں پانچ سات بچے داخلہ لیتے ہیں سو اس مضمون کے دو اساتذہ کی موجودگی بالکل غیر ضروری ہے. یہ بات اس لیے بھی غلط ہے کہ یہاں ایسے کالجز ہیں جہاں صحافت کے شعبے میں بی ایس اور ایم اے کروایا جارہا ہے مگر وہ کالجز مستقل اساتذہ کی بجائے سی ٹی آئیز سے کام چلا رہے ہیں ہیں. مذکورہ پرنسپل نے یہ بھی بتایا کہ ان کے کالج میں مطالعہ پاکستان کا صرف ایک استاد ہے. مطالعہ پاکستان مستقل مضمون ہے جو ایف اے اور بی اے دونوں سطحوں پر پڑھایا جاتا ہے. یہ واحد استاد ورک لوڈ کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے. . محکمے کو اس بارے میں متعدد بار لکھا گیا مگر کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی. پرنسپل صاحب کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مثالیں تقریباً ہر کالج میں مل جائیں گی. گورڈن کالج راولپنڈی کے پروفیسر جناب اختر شاہ نے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی. پروفیسر اختر شاہ نے “آوازہ” کو بتایا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی طرف سے گزشتہ کئی سالوں سے یہ اعلان سامنے آتا رہا ھے کہ پنجاب کے تمام سرکاری کالجوں میں وہاں پر زیر تعلیم سٹوڈنٹس کی اصل تعداد کے مطابق ٹیچرز کی تعداد کو متعلقہ ادارے کی تدریسی ضروریات سے ھم آہنگ کرنے کیلئے ریشنالائزیشن کی جائے گی .ریشنلائزیشن سے مراد اساتذہ اور طلبہ کی تعداد میں معقول توازن قائم کرنا ہے. محکمہ ہائیر ایجوکیشن سال میں کئی کئی مرتبہ کالجز سے طلبہ ۔۔۔اور اساتذہ کی تعداد طلب کرتا ہے مگر عملی طور پر ریشنلائزیشن کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔
ایسا نہیں ہے کہ محکمے کو اس کی ضرورت کا اندازہ نہیں مگر سیاسی یا کسی اور دباؤ کی وجہ سے وہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اساتذہ کسی کالج میں وہاں کی تدریسی ضرورتوں سے بہت کم ھیں اور کسی دوسرے کالج میں اس کالج کی تدریسی ضرورت سے کہیں زیادہ ھیں ، ٹیچنگ اسٹاف میں مختلف مضامین میں عدم توازن میں گزشتہ کچھ برسوں سے بہت اضافہ ہوا ہے. اختر شاہ نے اس کی یہ وجہ بتائی کہ محکمے کے اعلا حکام اور سیاسی اشرافیہ نے اپنے من پسند پروفیسرز کو پسندیدہ کالجز میں تعینات کروانے کے لیے بہت بے دردی سے سیٹیں کنورٹ کروائیں. مثلاً ایک سیاسی طور پر طاقت ور فارسی کا پروفیسر کسی ایسے کالج میں آنے کا خواہش مند ہے جہاں پ فارسی کی کوئی سیٹ خالی نہیں سو اس کے لیے کسی بھی مضمون کی سیٹ کو فارسی میں تبدیل کر دیا گیا . جس سے اساتذہ کی تعداد میں عدم توازن پیدا ہو گیا. پنجاب کے گورنمٹ کالجوں میں ریشنالائزیشن کی ضرورت شدت کیساتھ محسوس کی جارہی ھے . پنجاب میں عرصہ دراز سے ریشنلائزیشن کا عمل نہیں ہوا جس سے تدریس کے عمل میں بہت مسائل پیدا ہو رہیے ہیں. متعدد بڑے گورنمنٹ کالجوں میں کئی مضامین کے اساتذہ کی تعداد اس کالج کی تدریسی ضرورت سے بہت زیادہ ھے یہاں تک کہ اس مضمون کے اساتذہ کو ایک ایک پیریڈ کا ورک لوڈ بھی میسر نہیں اور وہ اکثر بالکل فارغ بیٹھے نظر آتے ہیں. کالج کی حد تک یہ اساتذہ سرپلس ہیں. دوسری طرف گورنمنٹ کالجوں میں سٹاف شارٹیج جیسے سنگین مسائل نے کالج اساتذہ اور سٹوڈنٹس کی زندگی اجیرن کر رکھی ھے. اکثر کالجوں میں کئی ایک مضامین میں اساتذہ کی منظور شدہ تعداد وہاں کی تدریسی ضرورت سے بہت ہی کم ھے اور وہاں ٹیچرز ، ایک سو سے ڈیرھ سو تک کی تعداد میں سٹوڈنٹس کو کلاس روم میں ٹھونس ٹھانس کر عجیب و غریب بےبسی کے عالم میں نہ جانے کیسے گزارہ چلا رہے ہیں. مقام افسوس کہ ایسی سخت ترین ورکنگ کنڈیشن میں ایک طرف تو اورورکنگ سے دوچار بیچارہ مظلوم استاد اپنے ورک لوڈ سے ڈبل ورک لوڈ نہ جانے کیسے ھینڈل کررہا ھے تو دوسری طرف گورنمنٹ کالجز میں ریشنالائزیشن نہ ھونے کے باعث متعدد گورنمنٹ کالجوں میں سرپلس اساتذۂ کی بڑی تعداد مفت میں بھاری تنخواہیں لے رہی ہے
پروفیسر اختر شاہ کا کہنا ہے کہ موجودہ مایوس کن صورتحال میں بہتری لانے کیلئے کچھ نہ کچھ انقلابی اقدامات کی شدید ترین ضرورت ھے اور اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ کسی قسم کے دباؤ قبول کیئے بغیر پنجاب ھائیرایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو تمام کالجز میں سٹوڈنٹس کی تعداد کے ریشنلائزیشن کا عمل شروع کردینا چاہیے. اس سے نہ صرف یہ کہ معیار تعلیم بہتر ہو ۔گا بلکہ وسائل کا زیاں بھی رک جائے گا۔