بہادر شاہ ظفر رنگون میں قید ہوئے تو ان کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی، ادب میں جسے ماجرا کہتے ہیں، وہ ماجرا جو برصغیر کے کروڑوں لوگوں پر بیت رہا تھا لیکن زبان پر لانے کا یارا ہر کسی کو نہ تھا۔ قید میں پڑے اس مظلوم تاج دار کی غزل رنگون کے قید خانے سے نکل کر نہ جانے کیسے دلی پہنچتی اور زبان زد عام ہو جاتی۔ بہادر شاہ ظفر کے کلام کو یہ عظمت اس لیے حاصل ہوئی کہ برصغیر کے لوگ ان شعروں میں اپنا دل دھڑکتا ہوا محسوس کرتے تھے۔ نہیں معلوم، اس بات پر کیا رد عمل آئے گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ویسی ہی تاثیر رکھنے والی ایک آواز ان دنوں بھی سنائی دے رہی ہے، یہ آواز ہے عرفان صدیقی صاحب کی۔
پروفیسر عرفان صدیقی اول استاد ہیں، اس مشغلہ نجیب نے قلم و قرطاس سے رشتے کو ایک ایسی شان دار بنیاد فراہم کی کہ جو لکھا، لوح دل پر نقش ہو گیا، یہ نقوش اہل دل کے سامنے آئے تو وہی صورت پیدا ہوئی جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ حضرت عرفان صدیقی کے نوشتوں میں یہ کیفیات اس لیے پیدا ہوئیں کہ انھوں نے اپنے درد میں غم زمانہ کو بھی شامل کردیا۔ ان کی اس غزل کو بھی دیکھئے، اردو غزل کے کلاسیکی رنگ میں مکمل طور پر رنگی ہوئی ہے، اس اعتبار سے یہ روایتی غزل ہے لیکن ان اشعار کی روح میں اتر کر دیکھیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اشعار اپنے عہد کی آواز ہیں۔
***
نہ دعاؤں سے شب غم ڈھلی نہ سراب شام و سحر گیا
نہ چمن کِھلا کسی دشت میں نہ فریب حسن نظر گیا
اسے لغزشوں کی گرفت سے مجھے بھول جانے سے کام تھا
نہ ہی اس کی قدرت فن گئی نہ مرا کمال ہنر گیا
ابھی کہکشاؤں سے خوشبوؤں سے ہواؤں سے رہے کھیلتا
اسے یاد کوئی تو آئے گا کسی دن جو لوٹ کے گھر گیا
غم عشق اگر چہ بہل گیا غم کارزار حیات سے
مگر ایک دریا چڑھا ہوا مری بھول تھی کہ اتر گیا
مری عرضیاں سربارگاہ قضا دھری کی دھری رہیں
کہ اسے کٹہرے میں دیکھ کر میں شکائیتوں سے مکر گیا
سبھی عہد و پیمان فریب تھے بڑی سخت جاں ہے یہ زندگی
مجھے چھوڑ دینے کے بعد بھی نہ وہ مر گیا نہ میں مر گیا
یوں ہی دوریوں کے عذاب میں عبث ہم نے عمریں گزار دیں
نہ وہ میرے دل سے اتر گیا نہ میں اس کے دل سے اتر گیا
یہ دل و دماغ کے درمیاں کوئی کشمکش تھی عیجب سی
کبھی اک زمانے سے لڑگیا کبھی اپنے آپ سے ڈر گیا
جو خمار خانہِ قصر شاہی کا ہو رہا اسے کیا خبر
کوئی خواب خلق خدا بھی تھا خس و خاک میں جو بکھر گیا