آج شٹٹ گارٹ جرمنی سے ایک پشتون نیشنلسٹ ، تھنکر سے واٹس اپ پر دوگھنٹے طویل سیاسی گفتگوہوئی جس میں انہوں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین ، طالبان ، فوج کی پالیسیز، بلوچستان کے مسئلے ، پنجاب اور ایم کیو ایم پر اپنے گہرے تجزئیے کا اظہارکیا اور مجھے بھی فاٹا کی سابق ایجنسیوں کے بارے میں بہت سی تفصیلات جان کر خوشی ہوئی۔ یہ تفصیلات میرے لیے نئی بھی تھیں اور حیران کن بھی۔
موصوف جرمنی میں ایک چینل چلاتے ہیں اور منظور پشتین ، اسفندیار ولی سمیت کئی سیاسی شخصیات اور یورپ میں مقیم پاکستانی ایکٹوسٹ کے انٹرویو براڈ کاسٹ کرچکے ، مجھے بھی انہوں نے سکائپ پر پاکستان کی صورتحال پر اظہارخیال کی دعوت دی لیکن چونکہ یکدم بستر سے نکلنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے معذرت کرلی،
بہرحال اہم بات یہ کہ پشتون ہونے کے باوجود وہ پی ٹی ایم کے خلاف تھے ، سیکولر ہونے کے باوجود وہ فاٹا میں فوجی آپریشن کے حمایتی اور فوج کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے معترف تھے ، انہوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ فوج نے پی ٹی ایم کے فوج ، پولیس رینجرز میں کئی کئی سو قبائلی نوجوانوں کی بھرتی کے مطالبات مانے لیکن پی ٹی ایم نے کسی نوجوان کو بھرتی نہیں کروایا، دورافتادہ قبائلی علاقوں کے لوگ پشتو کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے اور پشتو بھی ایسی کہ پشاور اور ارد گرد کے علاوں میں رہنے والے پشتونوں کو بھی ان علاقوں میں بولے جانے والے نصف الفاظ سمجھ میں نہیں آتے ، لہٰذا پشتون نوجوان کو حکومت یا فوج کا موقف معلوم ہی نہیں ہو پاتا اور وہ پی ٹی ایم کے پروپیگنڈا کا شکار رہتا ہے، نوجوانوں کو اپنی لیڈر شپ چلانے کےلئے گمراہ کیاجارہا ہے۔
مجھے پی ٹی ایم بارے اتنی تفصیلات علم نہیں تھیں ، یہ پشتون جرنلسٹ کا بیانیہ تھا جو میں پوسٹ کررہا ہوں ۔