آج دسواں رمضان ہے، ایک تہائی رمضان کی تکمیل کے اہم موڑ پر اس وقت ہم پہنچے ہیں، اس نعمت پر اللہ تعالی کا جتنا شکر آداء کیا جائے کم ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اس کے ہر حکم کی پشت پر بےشمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، روزہ اداء کرنے کے حکم میں بھی نہ جانے کیا کیا راز پنہاں ہیں، انسان کی تخلیق کا راز یہ ہے کہ اسے خلافت ، امانت اور عبادت کا جلیل الشّان منصب عطاء کرنا اللہ تعالی کے پیش نظر تھا، اس منصب کا بارگراں اٹھانے کے لئے جو صلاحیت واستعداد ضروری ہے، وہ نہ فرشتوں میں موجود ہے اور نہ اس منصب جلیل کے لئے حیوانات وجانور موزوں ہوسکتے ہیں، جنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں کی صفات اور حیوانی خصوصیات میں عجیب وغریب امتزاج پیدا کرکے اپنی شاہکار مخلوق انسان کو پیدا کیا، انسان روح اور جسم کے مجموعہ کا نام ہے، روح، انسان کو اپنے اصل سرچشمے کیطرف کھینچتی ہے اور عبادت وخلافت کے حقیقی فریضہ کو یاد دلاتی ہے، روح مادیت کے قفس زریں سے رہائی حاصل کرنے، مادّیت کے خلاف بغاوت کرنے اور روحانیت کی لامحدود وسعتوں میں پرواز کرنے پر انسان کو آمادہ کرتی ہے، روح انسان کو اسباب خورد ونوش کی فراوانی کے باوجود دعوت دیتی ہے کہ وہ بھوک وپیاس کی لذت سے بھی کبھی آشنا ہو، تاکہ شکم پری اور خواہشات نفسانی سے آزادی کے کچھ لمحات اسے میسر آئیں اور روح کو حقیقی بالیدگی اور مسرّت وانبساط کی ایک خاص کیفیت نصیب ہو، کیونکہ روح کا تعلق عالم بالا سے ہے اور امرالہی کے ساتھ اس کا خصوصی رشتہ ہے ، چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے “اور آپ سے یہ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہدیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے (ہی) ہے۔”
دوسری طرف انسان کا جسم اسے اپنی اصل حقیقت کی طرف کھینچتا ہے جو کہ زمین ہے اور زمین اپنی ذات میں کثافت وپستی کی حقیقت لئے ہوئے ہے۔ چنانچہ سورہ حجر میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حما مسنون۔
“اور یقینا ہم نے انسان کو لس دار گارے کی کھنکناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔” معلوم ہوا کہ انسان روح اور جسم کی دو متضاد حقیقتوں کا ایک شاہکار مجموعہ ہے۔ جب انسان میں روح کی طاقت مدھم پڑجاتی ہے اور روح کے اثرات زائل یا کمزور ہوجاتے ہیں تو پھر اس میں خواہشات نفسانی ،
لذت پسندی، عیش پرستی اور آرام طلبی کا راج قائم ہوجاتا ہے، اور انسان تمام حدود وقیود کو توڑ کر اپنے نفس کی خواہشات پوری کرنے میں اس طرح بے قابو ہو جاتا ہے کہ اس کے دن رات کی تمام تر مصروفیات کا مرکز ومحور ماکولات ومشروبات اور جنسی تسکین کے متنوع اسباب ووسائل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عبادات، ذکر الہی اورتعلق مع اللہ پیدا کرنے والے اعمال اس کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں، ان میں اسے کوئی لذت معلوم نہیں ہوتی۔ روزہ اور رمضان کے ذریعے انسان کو مجاھدہ نفس کے عمل سے گذارا جاتا ہے تاکہ روح اور جسم کے درمیان اعتدال اور توازن برقرار رکھنا اس کے لئے ممکن ہو۔ پرخوری کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے، فرشتوں اور عالم بالا سے انسان کو ایک گونہ نسبت حاصل ہو اور ایک ایسی لذّت سے بھی وہ آشنا ہو جو صرف کھانے پینے کی لذّت سے بہت بلند اور حقیقی ودائمی ہو۔