پاکستان کی سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ملنے والی غیر ملکی امداد کی تفصیلات فوج کے زیرانتظام ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی سے طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس کے پھیلنے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے ملک میں ابتر حالت ہے۔ پیر کو چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں کتنے شاپنگ مالز ہیں، مالز میں کتنی دکانیں کرائے پر ہیں، کتنے ملازمین کام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاپنگ مالز میں سامان کی تقسیم سے کتنے لوگ وابستہ ہیں، مالز سے وابستہ تمام کام رک گیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت پالیسی بنانے کی بجائے صنعتیں کھولنے کی اجازت دے رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ملک میں مکمل طور پر استحصال ہو رہا ہے، لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔
سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ روزانہ دس ہزار افراد کے کرونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں جن میں سے ایک ہزار افراد میں کرونا پوزیٹو آ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی یکساں حکمت عملی نہیں ہے، ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہوتا ہے تو دوسرا کچھ کہتا ہے، ایک صوبائی وزیر کہتا ہے وزیراعظم کے خلاف پرچہ درج کرائیں گے، سمجھ نہیں آرہا کیا ہو رہا ہے، دماغ بالکل آؤٹ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی پالیسی صرف 25 کلومیٹر تک محدود ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا گزشتہ سماعتوں میں بھی شفافیت برتنے اور یکساں حکمت عملی اپنانے کی بات کر چکے ہیں، حکومتیں اپنا زہن استعمال نہیں کر رہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہر کام درعمل کے طور پر ہو رہا ہے، وفاق اور صوبوں کے مابین یکساں پالیسی نہیں ہے، پورا معاملہ انا پرستی کا بنتا جارہا ہے، وفاق اور صوبوں کو کون بات کرنے سے روک رہا ہے، جسٹس عمر عطا بندیالعوام کے حقوق کو مد نظر رکھیں، ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بننی چاہیے، صوبے کے اندر سفر اور تجارت ہونی چاہیے، ٹرکوں میں چھپ کر لوگ سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ لوگ بارہ گھنٹے کے زمینی سفر کیلئے ہوائی سفر کا کرایہ ادا کر رہے ہیں، وفاق اور صوبوں کے درمیان یکساں پالیسی کا نہ ہونے کی وجہ اناپرستی اور غرور ہے، ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بنائیں، ایک ہفتے میں معاملات حل نہ ہوئے تو ہم عبوری حکمنامہ جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ صوبے کو تجارتی سرگرمیاں بند کرنے کا اختیار کیسے مل گیا۔ صوبائی حکومت کے وکیل نے کہا کہ سندھ وبائی ایکٹ کی شق تین کے تحت حکومت وبا کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتی ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 151 کی شق چار کے تحت صوبے کو تجارتی سرگرمیاں معطل کرنے کیلئے صدر سے اجازت ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت سے اجازت کے بغیر صوبہ تجارتی سرگرمیاں معطل نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب کی تقریریں سن لیں وہ بار بار یہی کہتے رہے، 20 سال پہلے جو باتیں کہیں وہ آج سچ ثابت ہو رہی ہیں، ملک کا ایک حصہ چلا گیا، ملک کے کچھ حصوں میں آگ لگی ہوئی ہے پھر بھی ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے ہمیں خود رائے دینے کی تکلیف نہیں کی، ہم بھی اتنے ٹچی نہیں ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران بینچ اور اسلام باد ضلعی بار کے وکلاء میں دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ خود وکیل رہا ہوں اور ایک وکیل کا باپ ہوں، وکلاء کے انتخابات میں کروڑوں روپے لگ سکتے ہیں تو دیگر معاملات بھی چلائے جاسکتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وکیل کو بنک سے قرض نہیں ملتا کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے کیونکہ وکیل سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیسٹنگ کٹس اور حفاظتی سامان پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوڈ 19 کے اخرات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی، کسی چیز میں شفافیت نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماسک اور گلوز کیلئے کتنے پیسے خرچ کرنے کیلئے چاہئیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ روپے کا ماسک ملتا ہے اگر تھوک میں خریدا جائے تو ماسک دو روپے کا ملتا ہے، ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں، پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں، وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے، نہیں بتایا گیا کہ ادارے کیا کام کررہے ہیں۔صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سفید پوش افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہمی تعاون کی ضرورت ہے، شفافیت میں پہلی چیز یکسانیت ہے، ایگزیکٹو اس وقت مکمل مفلوج ہوُچکا ہے، ذاتی عناد کی وجہ سے وفاق کا نقصان ہو رہا ہے، کون کیا زبان استعمال کر رہا ہے سب کچھ سامنے ہے۔
چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے سے غیر ملکی امداد کی تقسیم کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ جتنی غیر ملکی امداد آرہی ہے، کہاں خرچ ہو رہی ہے، کہاں جارہی ہے، تفیصل دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی بھی امداد آئی اس میں سے ہسپتالوں تک کچھ بھی نہیں پہنچا۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی، کرونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے، ایک اچھی اور ویژنری لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر کوئی پالیسی ہے تو دکھائیں، ہم سیلاب،زلزلے سے نکل آئے، اس مسئلے سے بھی نکل آئیں گے لیکن مسئلہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کے متکبرانہ رویہ ہے۔