Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

آج نواں روزہ ہے، ایک تہائی رمضان ہم سے رخصت ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح رمضان کا پہلا عشرہ جو رحمتوں کا عشرہ کہلاتا ہے، ہم سے رُخصت ہوجائے گا۔ حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ اللہ کی رحمت ہے، دوسرا حصہ یعنی درمیان کا عشرہ مغفرت کا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا ہے، گویا عشرہ رحمت ، عشرہ مغفرت اور عشرہ نجات کے تین حصوں میں اس مہینے کو تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کی علماء کرام نے اہم حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے شروع ہی سے تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کی عام رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور درمیانے حصے سے انکے لئے مغفرت شروع ہوجاتی ہے پھر آخری عشرے میں تو آگ سے خلاصی یعنی جہنم سے نجات کا فیصلہ فائنل ہوجاتا ہے، چنانچہ بہت سی روایات میں ختم رمضان پر جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کی بشارتیں وارد ہوئی ہیں۔
رحمت، مغفرت، اور جہنم سے نجات کی اس تقسیم کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے بقول یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانوں میں تین درجات ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان پر گناہوں کا بوجھ نہیں ہوتا، ان پر رمضان کے شروع ہی سے اللہ تعالی کی رحمتوں اور انعامات کی بارش ہوجاتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو معمولی گنہگار ہوتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کچھ روزے رکھ لینے کے بعد ان روزوں کی بدولت ان کے گناہوں کی معافی اور ان کی مغفرت ہوتی ہے اور تیسرے کچھ لوگ ایسے ہیں جو زیادہ گنہگار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دوتہائی رمضان تک روزہ رکھنے کے بعد ہی ان کی گلوخلاصی ہوتی ہے اور آخری عشرہ میں جاکر ہی ان کے لئے نجات کا فیصلہ ہوپاتاہے۔ اس سے ان لوگوں کے درجات اور اعلیٰ ترین مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے سے بخشے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتداء رمضان ہی سے ان پر رحمتوں اور احسانات کی بارش شروع کردی جاتی ہے اور آخر تک ان کے درجات اور مقامات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے، ظاہر ہے ایسے لوگوں کے درجات اور رحمتوں کے انبار کے بارے میں کیا پوچھنا ! اللہ تعالی ہمیں اپنے احوال کی اصلاح میں ترقی پیہم نصیب فرمائے ۔ آمین
بہرحال ہم گنہگاروں کے لئے بھی اس میں بڑی بشارتیں ہیں کہ اگر اس مہینے کے حقوق اداء کئے جائیں، تو بالآخر نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور نجات آخرت ہی میں تو کامیابی ہے، جس کا حصول ایک گنہگار کے لئے بھی اس مہینے میں ممکن ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ اسی کی حقیقی خواہش بھی ہو۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں۔

آج نواں روزہ ہے، ایک تہائی رمضان ہم سے رخصت ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح رمضان کا پہلا عشرہ جو رحمتوں کا عشرہ کہلاتا ہے، ہم سے رُخصت ہوجائے گا۔ حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ اللہ کی رحمت ہے، دوسرا حصہ یعنی درمیان کا عشرہ مغفرت کا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا ہے، گویا عشرہ رحمت ، عشرہ مغفرت اور عشرہ نجات کے تین حصوں میں اس مہینے کو تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کی علماء کرام نے اہم حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے شروع ہی سے تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کی عام رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور درمیانے حصے سے انکے لئے مغفرت شروع ہوجاتی ہے پھر آخری عشرے میں تو آگ سے خلاصی یعنی جہنم سے نجات کا فیصلہ فائنل ہوجاتا ہے، چنانچہ بہت سی روایات میں ختم رمضان پر جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کی بشارتیں وارد ہوئی ہیں۔
رحمت، مغفرت، اور جہنم سے نجات کی اس تقسیم کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے بقول یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانوں میں تین درجات ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان پر گناہوں کا بوجھ نہیں ہوتا، ان پر رمضان کے شروع ہی سے اللہ تعالی کی رحمتوں اور انعامات کی بارش ہوجاتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو معمولی گنہگار ہوتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کچھ روزے رکھ لینے کے بعد ان روزوں کی بدولت ان کے گناہوں کی معافی اور ان کی مغفرت ہوتی ہے اور تیسرے کچھ لوگ ایسے ہیں جو زیادہ گنہگار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دوتہائی رمضان تک روزہ رکھنے کے بعد ہی ان کی گلوخلاصی ہوتی ہے اور آخری عشرہ میں جاکر ہی ان کے لئے نجات کا فیصلہ ہوپاتاہے۔ اس سے ان لوگوں کے درجات اور اعلیٰ ترین مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے سے بخشے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتداء رمضان ہی سے ان پر رحمتوں اور احسانات کی بارش شروع کردی جاتی ہے اور آخر تک ان کے درجات اور مقامات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے، ظاہر ہے ایسے لوگوں کے درجات اور رحمتوں کے انبار کے بارے میں کیا پوچھنا ! اللہ تعالی ہمیں اپنے احوال کی اصلاح میں ترقی پیہم نصیب فرمائے ۔ آمین
بہرحال ہم گنہگاروں کے لئے بھی اس میں بڑی بشارتیں ہیں کہ اگر اس مہینے کے حقوق اداء کئے جائیں، تو بالآخر نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور نجات آخرت ہی میں تو کامیابی ہے، جس کا حصول ایک گنہگار کے لئے بھی اس مہینے میں ممکن ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ اسی کی حقیقی خواہش بھی ہو۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں۔

آج نواں روزہ ہے، ایک تہائی رمضان ہم سے رخصت ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح رمضان کا پہلا عشرہ جو رحمتوں کا عشرہ کہلاتا ہے، ہم سے رُخصت ہوجائے گا۔ حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ اللہ کی رحمت ہے، دوسرا حصہ یعنی درمیان کا عشرہ مغفرت کا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا ہے، گویا عشرہ رحمت ، عشرہ مغفرت اور عشرہ نجات کے تین حصوں میں اس مہینے کو تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کی علماء کرام نے اہم حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے شروع ہی سے تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کی عام رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور درمیانے حصے سے انکے لئے مغفرت شروع ہوجاتی ہے پھر آخری عشرے میں تو آگ سے خلاصی یعنی جہنم سے نجات کا فیصلہ فائنل ہوجاتا ہے، چنانچہ بہت سی روایات میں ختم رمضان پر جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کی بشارتیں وارد ہوئی ہیں۔
رحمت، مغفرت، اور جہنم سے نجات کی اس تقسیم کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے بقول یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانوں میں تین درجات ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان پر گناہوں کا بوجھ نہیں ہوتا، ان پر رمضان کے شروع ہی سے اللہ تعالی کی رحمتوں اور انعامات کی بارش ہوجاتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو معمولی گنہگار ہوتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کچھ روزے رکھ لینے کے بعد ان روزوں کی بدولت ان کے گناہوں کی معافی اور ان کی مغفرت ہوتی ہے اور تیسرے کچھ لوگ ایسے ہیں جو زیادہ گنہگار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دوتہائی رمضان تک روزہ رکھنے کے بعد ہی ان کی گلوخلاصی ہوتی ہے اور آخری عشرہ میں جاکر ہی ان کے لئے نجات کا فیصلہ ہوپاتاہے۔ اس سے ان لوگوں کے درجات اور اعلیٰ ترین مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے سے بخشے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتداء رمضان ہی سے ان پر رحمتوں اور احسانات کی بارش شروع کردی جاتی ہے اور آخر تک ان کے درجات اور مقامات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے، ظاہر ہے ایسے لوگوں کے درجات اور رحمتوں کے انبار کے بارے میں کیا پوچھنا ! اللہ تعالی ہمیں اپنے احوال کی اصلاح میں ترقی پیہم نصیب فرمائے ۔ آمین
بہرحال ہم گنہگاروں کے لئے بھی اس میں بڑی بشارتیں ہیں کہ اگر اس مہینے کے حقوق اداء کئے جائیں، تو بالآخر نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور نجات آخرت ہی میں تو کامیابی ہے، جس کا حصول ایک گنہگار کے لئے بھی اس مہینے میں ممکن ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ اسی کی حقیقی خواہش بھی ہو۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں۔

آج نواں روزہ ہے، ایک تہائی رمضان ہم سے رخصت ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح رمضان کا پہلا عشرہ جو رحمتوں کا عشرہ کہلاتا ہے، ہم سے رُخصت ہوجائے گا۔ حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ اللہ کی رحمت ہے، دوسرا حصہ یعنی درمیان کا عشرہ مغفرت کا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا ہے، گویا عشرہ رحمت ، عشرہ مغفرت اور عشرہ نجات کے تین حصوں میں اس مہینے کو تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کی علماء کرام نے اہم حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے شروع ہی سے تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کی عام رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور درمیانے حصے سے انکے لئے مغفرت شروع ہوجاتی ہے پھر آخری عشرے میں تو آگ سے خلاصی یعنی جہنم سے نجات کا فیصلہ فائنل ہوجاتا ہے، چنانچہ بہت سی روایات میں ختم رمضان پر جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کی بشارتیں وارد ہوئی ہیں۔
رحمت، مغفرت، اور جہنم سے نجات کی اس تقسیم کے بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے بقول یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانوں میں تین درجات ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان پر گناہوں کا بوجھ نہیں ہوتا، ان پر رمضان کے شروع ہی سے اللہ تعالی کی رحمتوں اور انعامات کی بارش ہوجاتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو معمولی گنہگار ہوتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کچھ روزے رکھ لینے کے بعد ان روزوں کی بدولت ان کے گناہوں کی معافی اور ان کی مغفرت ہوتی ہے اور تیسرے کچھ لوگ ایسے ہیں جو زیادہ گنہگار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دوتہائی رمضان تک روزہ رکھنے کے بعد ہی ان کی گلوخلاصی ہوتی ہے اور آخری عشرہ میں جاکر ہی ان کے لئے نجات کا فیصلہ ہوپاتاہے۔ اس سے ان لوگوں کے درجات اور اعلیٰ ترین مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے سے بخشے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتداء رمضان ہی سے ان پر رحمتوں اور احسانات کی بارش شروع کردی جاتی ہے اور آخر تک ان کے درجات اور مقامات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے، ظاہر ہے ایسے لوگوں کے درجات اور رحمتوں کے انبار کے بارے میں کیا پوچھنا ! اللہ تعالی ہمیں اپنے احوال کی اصلاح میں ترقی پیہم نصیب فرمائے ۔ آمین
بہرحال ہم گنہگاروں کے لئے بھی اس میں بڑی بشارتیں ہیں کہ اگر اس مہینے کے حقوق اداء کئے جائیں، تو بالآخر نجات کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور نجات آخرت ہی میں تو کامیابی ہے، جس کا حصول ایک گنہگار کے لئے بھی اس مہینے میں ممکن ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ اسی کی حقیقی خواہش بھی ہو۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں۔