Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہر سال 3مئی‘ حکومتوں کو پریس کی آزادی کے ان کے عہد کا احترام کرنے کی ضرورت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور میڈیا کے پیشہ ور افراد میں پریس کی آزادی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے امور کے بارے میں بھی عکاسی کا دن ہے۔ جس طرح اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ پریس یوم آزادی میڈیا کی حمایت کا دن ہے جو آزادی صحافت کی روک تھام یا خاتمے کے اہداف ہیں۔
یہ ان صحافیوں کے لئے یاد رکھنے کا دن بھی ہے جو کہانی کی جستجو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یوم آزادی صحافت کے بارے میں خبر یہ ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے سبب اس سال تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس نہیں ہوگی‘ یہ کانفرنس کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردی گئی ہےCOVID-19 پھیلاؤ کے باعث ہالینڈ کی وزارت خارجہ نے یونیسکو کے ساتھ مشاورت کی اور ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس 2020 ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس شعبے سے وابستہ دنیا بھر کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے ہیگ میں ورلڈ فورم میں یونیسکو اور نیدرلینڈ نے 22 سے 24 اپریل تک ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس (ڈبلیو پی ایف سی) کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اب کانفرنس اسی جگہ پر 18 سے 20 اکتوبر کو شیڈول ہے اور یہ کانفرنس عالمی یوم آزادی یوم آزادی (3 مئی) اور صحافیوں کے خلاف جرائم سے معافی ختم کرنے کا عالمی دن (2 نومبر) کا مشترکہ پروگرام ہوگا اس کانفرنس کے التواء کے لیے عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو COVID-19 کو درخواست کی تھیکانفرنس میں ایک ہزار مندوبین کی شرکت متوقع تھی اور کانفرنس کے بعد اس کی کمیٹیوں کے اجلاس کم و بیش دو ماہ تک جاری رہنے تھے۔
پروگرام میں پہلا سیشن بین الاقوامی فورم سمیت، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق ایک علمی کانفرنس، نوجوانوں کو نشانہ بنانے والے ایک پریس آزادی فیسٹیول اور یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے ایوارڈ کی تقریب سمیت دیگر کئی سیشنز شامل تھے بہر حال اب یہ کانفرنس اکتوبر میں ہوگی جس کے لیے میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے انتہائی اہم نیٹ ورکس نے اپنی شرکت کی تصدیق کردی ہے۔ کانفرنس کے منتظمین تمام شراکت داروں کو اس ایونٹ کے ساتھ اپنی مصروفیت کو جاری رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسی پروگرام کو اکتوبر میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ یقینی بنانے کے لئے کام کریں گے2020 کے یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے انعام یافتہ اخبار نویس کے نام کا اعلان 3 مئی کو کیا جائے گا اور ایوارڈ کی تقریب اکتوبر میں دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ہوگی عالمی یوم آزادی یوم آزادی کی قومی اور مقامی تقریبات 3 مئی کو دنیا بھر میں ہوں گی آن لائن مباحثے اور ورکشاپ ہوں گی بنیادی طور پر1993 سے ہر سال منظم ہونے والی، ڈبلیو پی ایف ڈی عالمی کانفرنس صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، قومی حکام، ماہرین تعلیم اور وسیع تر عوام کو آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے ابھرتی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کرنے اور حل کی نشاندہی کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
ہالینڈ اس سال کے لیے میزبان ملک ہے یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہتی ہے‘ یہاں تک تو یوم آذادی صحافت کا یک پہلو اور رخ ہے‘ بلاشبہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے صحافتی ادارے اور صحافی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے آج ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کو نہ صرف مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ وہ چوتھے ستون کے طور پر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار کرتا بھی نظر آتا ہے لیکن ہمیں دنیا بھر ہمیں کچھ تضاد بھی نظر آتا ہے بھارت کو غیر ضروری رعائت دی جاتی ہے دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں آرایس ایس کے لوگ ہاتھوں میں ترنگا‘تلواریں‘برچھائیاں اور نیزے لیے جے شری رام، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم‘جے ہنومان کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں غیرملکی میڈیا کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن مغرب اس کے باوجود بھارت کو رعائت دیتا ہے حقائق یہ ہیں موبائل فون پر ویڈیوز یا تصاویر بنانے والوں سے آرایس ایس کے مسلح لوگ موبائل فون چھین کرتوڑ دیتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح ہلہ بولا گیا ممبئی‘گجرات اور احمد آباد سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو آرایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ بنایاگیا مگر مغربی میڈیا کیا دکھاتا رہا بھارت کے ادارے ”نیشنل کمیشن آف مینارٹیز“نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقلیتیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ اگر کہیں کسی انجانے اور انفرادی واقعہ کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بات سامنے آجائے تو مغربی میڈیا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔
بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں بھارت کے1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا‘اسی طرح بھارت دنیا کے ان بڑوں ممالک کے فہرست میں ٹاپ 5پرآتا ہے جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہیامریکہ کی ایک ریگولیٹری ٹیکنالوجی کمپنی، کیسٹیلم نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان نے مبینہ دہشت گردوں کی نگرانی کی فہرست میں سے ہزاروں نام خارج کر دیے ہیں۔ ان میں ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کا نام بھی شامل ہے یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے‘ جو مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہے‘ سچ یہ ہے کہ امریکا نے انہی لوگوں سے مزاکرات کیے جنہیں وہ دھشت گرد کہتا رہا اور مغروبی میڈیا ابھی تک خاموش ہے‘ تلخ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے آج تک پرنٹ میڈیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور مغرب خاموش ہیمگر مغرب کے میڈیا نے پاکستان پر ہی اپنا انٹینا سیٹ کر رکھا ہے اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں‘ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فیصدسے زیادہ خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن مغرب کا میڈیا جمہوریت کا لولی پاپ دکھاتا رہتا ہے مغرب کا میڈیا پاکستان کو اپنی آنکھ اور اپنے مفاد میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے‘ اور عالم اسلام کا اہم جز ہے‘ ہمیں اپنی سرحدوں پر مسائل ہیں اور کشمیر اس خطے کا حل طلب مسلۂ ہے پاکستان کا میڈیا‘ کسی قیمت پر اسلامی نظریاتی پاکستان سے الگ نہیں ہوسکتا اور یہاں کا میڈیا کشمیر کے حالات سے الگ تھلگ بھی نہیں رہ سکتا‘ لیکن مغرب میں میڈیا کے کرتا دھرتا پاکستانی میڈیا سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہاں کا میڈیا وہی دکھائے جو مغرب دیکھنا چاہتا ہے۔
یوں سمجھ لیں صحافت کی آزادی کی آڑ میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مغرب کی مٹھی میں قید کرنے کا مکروہ منصوبہ ہمیں دکھایا جاتا ہے اور لبھانے کے لیے ہمیں امریکہ‘ یورپ کے ٹور اور ویزوں کی کہکشائیں دکھائی جاتی ہیں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نام ہر اس حد کو پار کیا جاتا ہے جہاں ہمارے نظریاتی معاشرے کے تشخص کی آزادی مجروح ہوتی ہے حال ہی میں اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145ویں نمبر پر چلا گیا ہے فہرست میں ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار بالترتیب اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافتی آزدی حاصل ہے جبکہ اریٹیریا، ترکمانستان اور شمالی کوریا میں صحافت کو آج بھی بیشمار قدغنوں کا سامنا ہے۔ بھارت اِس فہرست میں دو درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر موجود ہے فہرست کی تیاری بتاتی ہے کہ دو عالمی تصویریں ہیں‘ دونوں مغرب کے ذہن کے مطابق تیار کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت کیوں ریاست کے کنٹرول میں ہے وہاں مثبت اور تعمیری تنقید کی مکمل آزادی کیوں حاصل نہیں ہے‘۔
امریکی صدر آئے روز اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کے لتے لے رہے ہوتے ہیں‘ پریس فریڈم کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ ترک اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے میڈیا چینل بند کر دیے ہیں صدر طیب اردوغان کی حکومت نے یہ فیصلہ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے اپنے ملکوں میں ترک میڈیا کی ویب سائٹس بند کرنے کے بعد کیا ہے یہ معاملہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ہوا ہے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سال میں 33سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے یہ واقعی افسوس ناک واقعات ہیں‘ پاکستان میں صحافت کو در پیش مسائل کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ گھٹن زدہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرتے‘ پاکستان میں صحافت کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہاں اصل مسائل کی جانب توجہ نہ دی جائے تو مسائل کبھی حل ہی نہیں ہوسکتے‘ یہاں بنیادی طور پر ملازمت میں غیر یقینی صورت حال کا سب سے بڑا مسلۂ ہے‘اس میں کچھ صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے لیکن یہ تعداد بہت کم ہے‘ مگر یہی لوگ فیصلہ سازی میں بھی شامل رہتے ہیں لہذا کسی نہ کسی حد تک اثر رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں‘ اخبار نویسوں کے لیے اجرت‘ تنخواہوں اور ملازمت کے دوران ملنے والی مراعات اگر پسند نہ نا پسند کی آکاس بیل سے آزاد کرکے نافذ کر دی جائیں تو مسائل کا ایک بڑا حصہ ازخود حل ہوسکتا ہے لیکن یہ معاملہ مالکان کے دباؤ اور مٹھی میں ہے اور رہتا ہے جب تک مالکان کی مٹھی سے یہ مسلۂ باہر نہیں نکلے گا اس وقت تک مسلۂ رہے گا اور کبھی بھی حل نہیں ہوگا‘ یہ مسلۂ اس وقت تک پختہ بھی رہے گا جب تک پاکٹ یونین موجود رہیں گی۔
حالیہ ویج بورڈ کے نفاذ کے لیے بھی مالکان کے دباؤ کی کہانی ویج بورڈ کے چیئرمین جسٹس حسنات کے دل میں رہتی تو جو مراعات اس ویج بورڈ میں ملی ہیں شاید وہ بھی نہ مل پاتیں‘ جسٹس حسنات نے بہت جرائت مندی سے مالکان کے دباؤ کو مسترد کیا ہے‘ ملازمین کو تر نوالہ بننے سے بچایا ہے لیکن چونکہ ملک میں ماحول ایسا ہے‘ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی مفادات کی رسیوں میں جکڑ ہوئی ہیں لہذا مسائل حل ہونے میں وقت لگے گا‘ جس طرح ملک میں تعمیراتی شعبے کے علاوہ شوگر انڈسٹری سمیت دیگر کاروباری داروں کے مالکان کا کارٹل ہے‘ اسی طرح میڈیا مالکان کا بھی کارٹل ہے‘ چھ سات مالکان بیٹھتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں یہی فیصلے نافذ ہوتے رہتے ہیں‘ یہی چند افراد فائدہ سمیٹ لیتے ہیں باقی لوگ تالیوں بجانے والوں میں شامل رہتے ہیں ایک فیصلہ ہواتھاکہ ٹی وی چینلز میں نائٹ شفٹ ختم کردی جائے گی یہاں تک بھی طے ہوگیا تھا کہ ایک چینل کی ڈی ایس این جی کے ذریعے دیگر چینللز بھی فیڈ لے لیا کریں گے اس وقت ملک میں فعال ٹی وی چینلز میں کوئی چالیس کے قریب چینل ہیں یہ سب ایک ہی ڈی ایس این جی سے فیڈ لینے کے لیے رضامند ہوچکے تھے اسی طرح ایک مرکزی نیو زروم بنانے کی بھی تجویز آچکی ہے‘ سینٹرلائز نظام کے لیے پرنٹ میڈیا اس جانب حرکت میں آچکا ہے اور یہی وجہ سے ملازمین کی برطرفیاں مسلسل ہو رہی ہیں‘ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت نے مداخلت کرکے ملازمین کے مفاد کا دفاع کرنا ہے مگر یہ خاموش ہے اور کنارے پر کھڑی مسکرا رہی ہے یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ کس معیار کے لوگوں کو میڈیا انڈسٹری میں لائے گی‘ اس انڈسٹری میں جب سے کاروباری کارٹل شامل ہوا ہے اس وقت سے یہ شعبہ مسائل کا شکار بنا ہوا ہے
ہر سال 3مئی‘ حکومتوں کو پریس کی آزادی کے ان کے عہد کا احترام کرنے کی ضرورت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور میڈیا کے پیشہ ور افراد میں پریس کی آزادی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے امور کے بارے میں بھی عکاسی کا دن ہے۔ جس طرح اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ پریس یوم آزادی میڈیا کی حمایت کا دن ہے جو آزادی صحافت کی روک تھام یا خاتمے کے اہداف ہیں۔
یہ ان صحافیوں کے لئے یاد رکھنے کا دن بھی ہے جو کہانی کی جستجو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یوم آزادی صحافت کے بارے میں خبر یہ ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے سبب اس سال تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس نہیں ہوگی‘ یہ کانفرنس کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردی گئی ہےCOVID-19 پھیلاؤ کے باعث ہالینڈ کی وزارت خارجہ نے یونیسکو کے ساتھ مشاورت کی اور ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس 2020 ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس شعبے سے وابستہ دنیا بھر کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے ہیگ میں ورلڈ فورم میں یونیسکو اور نیدرلینڈ نے 22 سے 24 اپریل تک ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس (ڈبلیو پی ایف سی) کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اب کانفرنس اسی جگہ پر 18 سے 20 اکتوبر کو شیڈول ہے اور یہ کانفرنس عالمی یوم آزادی یوم آزادی (3 مئی) اور صحافیوں کے خلاف جرائم سے معافی ختم کرنے کا عالمی دن (2 نومبر) کا مشترکہ پروگرام ہوگا اس کانفرنس کے التواء کے لیے عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو COVID-19 کو درخواست کی تھیکانفرنس میں ایک ہزار مندوبین کی شرکت متوقع تھی اور کانفرنس کے بعد اس کی کمیٹیوں کے اجلاس کم و بیش دو ماہ تک جاری رہنے تھے۔
پروگرام میں پہلا سیشن بین الاقوامی فورم سمیت، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق ایک علمی کانفرنس، نوجوانوں کو نشانہ بنانے والے ایک پریس آزادی فیسٹیول اور یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے ایوارڈ کی تقریب سمیت دیگر کئی سیشنز شامل تھے بہر حال اب یہ کانفرنس اکتوبر میں ہوگی جس کے لیے میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے انتہائی اہم نیٹ ورکس نے اپنی شرکت کی تصدیق کردی ہے۔ کانفرنس کے منتظمین تمام شراکت داروں کو اس ایونٹ کے ساتھ اپنی مصروفیت کو جاری رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسی پروگرام کو اکتوبر میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ یقینی بنانے کے لئے کام کریں گے2020 کے یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے انعام یافتہ اخبار نویس کے نام کا اعلان 3 مئی کو کیا جائے گا اور ایوارڈ کی تقریب اکتوبر میں دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ہوگی عالمی یوم آزادی یوم آزادی کی قومی اور مقامی تقریبات 3 مئی کو دنیا بھر میں ہوں گی آن لائن مباحثے اور ورکشاپ ہوں گی بنیادی طور پر1993 سے ہر سال منظم ہونے والی، ڈبلیو پی ایف ڈی عالمی کانفرنس صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، قومی حکام، ماہرین تعلیم اور وسیع تر عوام کو آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے ابھرتی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کرنے اور حل کی نشاندہی کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
ہالینڈ اس سال کے لیے میزبان ملک ہے یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہتی ہے‘ یہاں تک تو یوم آذادی صحافت کا یک پہلو اور رخ ہے‘ بلاشبہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے صحافتی ادارے اور صحافی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے آج ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کو نہ صرف مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ وہ چوتھے ستون کے طور پر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار کرتا بھی نظر آتا ہے لیکن ہمیں دنیا بھر ہمیں کچھ تضاد بھی نظر آتا ہے بھارت کو غیر ضروری رعائت دی جاتی ہے دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں آرایس ایس کے لوگ ہاتھوں میں ترنگا‘تلواریں‘برچھائیاں اور نیزے لیے جے شری رام، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم‘جے ہنومان کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں غیرملکی میڈیا کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن مغرب اس کے باوجود بھارت کو رعائت دیتا ہے حقائق یہ ہیں موبائل فون پر ویڈیوز یا تصاویر بنانے والوں سے آرایس ایس کے مسلح لوگ موبائل فون چھین کرتوڑ دیتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح ہلہ بولا گیا ممبئی‘گجرات اور احمد آباد سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو آرایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ بنایاگیا مگر مغربی میڈیا کیا دکھاتا رہا بھارت کے ادارے ”نیشنل کمیشن آف مینارٹیز“نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقلیتیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ اگر کہیں کسی انجانے اور انفرادی واقعہ کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بات سامنے آجائے تو مغربی میڈیا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔
بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں بھارت کے1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا‘اسی طرح بھارت دنیا کے ان بڑوں ممالک کے فہرست میں ٹاپ 5پرآتا ہے جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہیامریکہ کی ایک ریگولیٹری ٹیکنالوجی کمپنی، کیسٹیلم نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان نے مبینہ دہشت گردوں کی نگرانی کی فہرست میں سے ہزاروں نام خارج کر دیے ہیں۔ ان میں ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کا نام بھی شامل ہے یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے‘ جو مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہے‘ سچ یہ ہے کہ امریکا نے انہی لوگوں سے مزاکرات کیے جنہیں وہ دھشت گرد کہتا رہا اور مغروبی میڈیا ابھی تک خاموش ہے‘ تلخ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے آج تک پرنٹ میڈیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور مغرب خاموش ہیمگر مغرب کے میڈیا نے پاکستان پر ہی اپنا انٹینا سیٹ کر رکھا ہے اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں‘ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فیصدسے زیادہ خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن مغرب کا میڈیا جمہوریت کا لولی پاپ دکھاتا رہتا ہے مغرب کا میڈیا پاکستان کو اپنی آنکھ اور اپنے مفاد میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے‘ اور عالم اسلام کا اہم جز ہے‘ ہمیں اپنی سرحدوں پر مسائل ہیں اور کشمیر اس خطے کا حل طلب مسلۂ ہے پاکستان کا میڈیا‘ کسی قیمت پر اسلامی نظریاتی پاکستان سے الگ نہیں ہوسکتا اور یہاں کا میڈیا کشمیر کے حالات سے الگ تھلگ بھی نہیں رہ سکتا‘ لیکن مغرب میں میڈیا کے کرتا دھرتا پاکستانی میڈیا سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہاں کا میڈیا وہی دکھائے جو مغرب دیکھنا چاہتا ہے۔
یوں سمجھ لیں صحافت کی آزادی کی آڑ میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مغرب کی مٹھی میں قید کرنے کا مکروہ منصوبہ ہمیں دکھایا جاتا ہے اور لبھانے کے لیے ہمیں امریکہ‘ یورپ کے ٹور اور ویزوں کی کہکشائیں دکھائی جاتی ہیں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نام ہر اس حد کو پار کیا جاتا ہے جہاں ہمارے نظریاتی معاشرے کے تشخص کی آزادی مجروح ہوتی ہے حال ہی میں اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145ویں نمبر پر چلا گیا ہے فہرست میں ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار بالترتیب اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافتی آزدی حاصل ہے جبکہ اریٹیریا، ترکمانستان اور شمالی کوریا میں صحافت کو آج بھی بیشمار قدغنوں کا سامنا ہے۔ بھارت اِس فہرست میں دو درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر موجود ہے فہرست کی تیاری بتاتی ہے کہ دو عالمی تصویریں ہیں‘ دونوں مغرب کے ذہن کے مطابق تیار کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت کیوں ریاست کے کنٹرول میں ہے وہاں مثبت اور تعمیری تنقید کی مکمل آزادی کیوں حاصل نہیں ہے‘۔
امریکی صدر آئے روز اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کے لتے لے رہے ہوتے ہیں‘ پریس فریڈم کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ ترک اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے میڈیا چینل بند کر دیے ہیں صدر طیب اردوغان کی حکومت نے یہ فیصلہ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے اپنے ملکوں میں ترک میڈیا کی ویب سائٹس بند کرنے کے بعد کیا ہے یہ معاملہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ہوا ہے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سال میں 33سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے یہ واقعی افسوس ناک واقعات ہیں‘ پاکستان میں صحافت کو در پیش مسائل کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ گھٹن زدہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرتے‘ پاکستان میں صحافت کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہاں اصل مسائل کی جانب توجہ نہ دی جائے تو مسائل کبھی حل ہی نہیں ہوسکتے‘ یہاں بنیادی طور پر ملازمت میں غیر یقینی صورت حال کا سب سے بڑا مسلۂ ہے‘اس میں کچھ صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے لیکن یہ تعداد بہت کم ہے‘ مگر یہی لوگ فیصلہ سازی میں بھی شامل رہتے ہیں لہذا کسی نہ کسی حد تک اثر رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں‘ اخبار نویسوں کے لیے اجرت‘ تنخواہوں اور ملازمت کے دوران ملنے والی مراعات اگر پسند نہ نا پسند کی آکاس بیل سے آزاد کرکے نافذ کر دی جائیں تو مسائل کا ایک بڑا حصہ ازخود حل ہوسکتا ہے لیکن یہ معاملہ مالکان کے دباؤ اور مٹھی میں ہے اور رہتا ہے جب تک مالکان کی مٹھی سے یہ مسلۂ باہر نہیں نکلے گا اس وقت تک مسلۂ رہے گا اور کبھی بھی حل نہیں ہوگا‘ یہ مسلۂ اس وقت تک پختہ بھی رہے گا جب تک پاکٹ یونین موجود رہیں گی۔
حالیہ ویج بورڈ کے نفاذ کے لیے بھی مالکان کے دباؤ کی کہانی ویج بورڈ کے چیئرمین جسٹس حسنات کے دل میں رہتی تو جو مراعات اس ویج بورڈ میں ملی ہیں شاید وہ بھی نہ مل پاتیں‘ جسٹس حسنات نے بہت جرائت مندی سے مالکان کے دباؤ کو مسترد کیا ہے‘ ملازمین کو تر نوالہ بننے سے بچایا ہے لیکن چونکہ ملک میں ماحول ایسا ہے‘ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی مفادات کی رسیوں میں جکڑ ہوئی ہیں لہذا مسائل حل ہونے میں وقت لگے گا‘ جس طرح ملک میں تعمیراتی شعبے کے علاوہ شوگر انڈسٹری سمیت دیگر کاروباری داروں کے مالکان کا کارٹل ہے‘ اسی طرح میڈیا مالکان کا بھی کارٹل ہے‘ چھ سات مالکان بیٹھتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں یہی فیصلے نافذ ہوتے رہتے ہیں‘ یہی چند افراد فائدہ سمیٹ لیتے ہیں باقی لوگ تالیوں بجانے والوں میں شامل رہتے ہیں ایک فیصلہ ہواتھاکہ ٹی وی چینلز میں نائٹ شفٹ ختم کردی جائے گی یہاں تک بھی طے ہوگیا تھا کہ ایک چینل کی ڈی ایس این جی کے ذریعے دیگر چینللز بھی فیڈ لے لیا کریں گے اس وقت ملک میں فعال ٹی وی چینلز میں کوئی چالیس کے قریب چینل ہیں یہ سب ایک ہی ڈی ایس این جی سے فیڈ لینے کے لیے رضامند ہوچکے تھے اسی طرح ایک مرکزی نیو زروم بنانے کی بھی تجویز آچکی ہے‘ سینٹرلائز نظام کے لیے پرنٹ میڈیا اس جانب حرکت میں آچکا ہے اور یہی وجہ سے ملازمین کی برطرفیاں مسلسل ہو رہی ہیں‘ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت نے مداخلت کرکے ملازمین کے مفاد کا دفاع کرنا ہے مگر یہ خاموش ہے اور کنارے پر کھڑی مسکرا رہی ہے یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ کس معیار کے لوگوں کو میڈیا انڈسٹری میں لائے گی‘ اس انڈسٹری میں جب سے کاروباری کارٹل شامل ہوا ہے اس وقت سے یہ شعبہ مسائل کا شکار بنا ہوا ہے
ہر سال 3مئی‘ حکومتوں کو پریس کی آزادی کے ان کے عہد کا احترام کرنے کی ضرورت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور میڈیا کے پیشہ ور افراد میں پریس کی آزادی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے امور کے بارے میں بھی عکاسی کا دن ہے۔ جس طرح اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ پریس یوم آزادی میڈیا کی حمایت کا دن ہے جو آزادی صحافت کی روک تھام یا خاتمے کے اہداف ہیں۔
یہ ان صحافیوں کے لئے یاد رکھنے کا دن بھی ہے جو کہانی کی جستجو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یوم آزادی صحافت کے بارے میں خبر یہ ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے سبب اس سال تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس نہیں ہوگی‘ یہ کانفرنس کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردی گئی ہےCOVID-19 پھیلاؤ کے باعث ہالینڈ کی وزارت خارجہ نے یونیسکو کے ساتھ مشاورت کی اور ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس 2020 ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس شعبے سے وابستہ دنیا بھر کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے ہیگ میں ورلڈ فورم میں یونیسکو اور نیدرلینڈ نے 22 سے 24 اپریل تک ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس (ڈبلیو پی ایف سی) کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اب کانفرنس اسی جگہ پر 18 سے 20 اکتوبر کو شیڈول ہے اور یہ کانفرنس عالمی یوم آزادی یوم آزادی (3 مئی) اور صحافیوں کے خلاف جرائم سے معافی ختم کرنے کا عالمی دن (2 نومبر) کا مشترکہ پروگرام ہوگا اس کانفرنس کے التواء کے لیے عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو COVID-19 کو درخواست کی تھیکانفرنس میں ایک ہزار مندوبین کی شرکت متوقع تھی اور کانفرنس کے بعد اس کی کمیٹیوں کے اجلاس کم و بیش دو ماہ تک جاری رہنے تھے۔
پروگرام میں پہلا سیشن بین الاقوامی فورم سمیت، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق ایک علمی کانفرنس، نوجوانوں کو نشانہ بنانے والے ایک پریس آزادی فیسٹیول اور یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے ایوارڈ کی تقریب سمیت دیگر کئی سیشنز شامل تھے بہر حال اب یہ کانفرنس اکتوبر میں ہوگی جس کے لیے میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے انتہائی اہم نیٹ ورکس نے اپنی شرکت کی تصدیق کردی ہے۔ کانفرنس کے منتظمین تمام شراکت داروں کو اس ایونٹ کے ساتھ اپنی مصروفیت کو جاری رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسی پروگرام کو اکتوبر میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ یقینی بنانے کے لئے کام کریں گے2020 کے یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے انعام یافتہ اخبار نویس کے نام کا اعلان 3 مئی کو کیا جائے گا اور ایوارڈ کی تقریب اکتوبر میں دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ہوگی عالمی یوم آزادی یوم آزادی کی قومی اور مقامی تقریبات 3 مئی کو دنیا بھر میں ہوں گی آن لائن مباحثے اور ورکشاپ ہوں گی بنیادی طور پر1993 سے ہر سال منظم ہونے والی، ڈبلیو پی ایف ڈی عالمی کانفرنس صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، قومی حکام، ماہرین تعلیم اور وسیع تر عوام کو آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے ابھرتی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کرنے اور حل کی نشاندہی کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
ہالینڈ اس سال کے لیے میزبان ملک ہے یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہتی ہے‘ یہاں تک تو یوم آذادی صحافت کا یک پہلو اور رخ ہے‘ بلاشبہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے صحافتی ادارے اور صحافی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے آج ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کو نہ صرف مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ وہ چوتھے ستون کے طور پر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار کرتا بھی نظر آتا ہے لیکن ہمیں دنیا بھر ہمیں کچھ تضاد بھی نظر آتا ہے بھارت کو غیر ضروری رعائت دی جاتی ہے دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں آرایس ایس کے لوگ ہاتھوں میں ترنگا‘تلواریں‘برچھائیاں اور نیزے لیے جے شری رام، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم‘جے ہنومان کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں غیرملکی میڈیا کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن مغرب اس کے باوجود بھارت کو رعائت دیتا ہے حقائق یہ ہیں موبائل فون پر ویڈیوز یا تصاویر بنانے والوں سے آرایس ایس کے مسلح لوگ موبائل فون چھین کرتوڑ دیتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح ہلہ بولا گیا ممبئی‘گجرات اور احمد آباد سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو آرایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ بنایاگیا مگر مغربی میڈیا کیا دکھاتا رہا بھارت کے ادارے ”نیشنل کمیشن آف مینارٹیز“نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقلیتیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ اگر کہیں کسی انجانے اور انفرادی واقعہ کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بات سامنے آجائے تو مغربی میڈیا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔
بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں بھارت کے1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا‘اسی طرح بھارت دنیا کے ان بڑوں ممالک کے فہرست میں ٹاپ 5پرآتا ہے جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہیامریکہ کی ایک ریگولیٹری ٹیکنالوجی کمپنی، کیسٹیلم نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان نے مبینہ دہشت گردوں کی نگرانی کی فہرست میں سے ہزاروں نام خارج کر دیے ہیں۔ ان میں ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کا نام بھی شامل ہے یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے‘ جو مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہے‘ سچ یہ ہے کہ امریکا نے انہی لوگوں سے مزاکرات کیے جنہیں وہ دھشت گرد کہتا رہا اور مغروبی میڈیا ابھی تک خاموش ہے‘ تلخ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے آج تک پرنٹ میڈیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور مغرب خاموش ہیمگر مغرب کے میڈیا نے پاکستان پر ہی اپنا انٹینا سیٹ کر رکھا ہے اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں‘ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فیصدسے زیادہ خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن مغرب کا میڈیا جمہوریت کا لولی پاپ دکھاتا رہتا ہے مغرب کا میڈیا پاکستان کو اپنی آنکھ اور اپنے مفاد میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے‘ اور عالم اسلام کا اہم جز ہے‘ ہمیں اپنی سرحدوں پر مسائل ہیں اور کشمیر اس خطے کا حل طلب مسلۂ ہے پاکستان کا میڈیا‘ کسی قیمت پر اسلامی نظریاتی پاکستان سے الگ نہیں ہوسکتا اور یہاں کا میڈیا کشمیر کے حالات سے الگ تھلگ بھی نہیں رہ سکتا‘ لیکن مغرب میں میڈیا کے کرتا دھرتا پاکستانی میڈیا سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہاں کا میڈیا وہی دکھائے جو مغرب دیکھنا چاہتا ہے۔
یوں سمجھ لیں صحافت کی آزادی کی آڑ میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مغرب کی مٹھی میں قید کرنے کا مکروہ منصوبہ ہمیں دکھایا جاتا ہے اور لبھانے کے لیے ہمیں امریکہ‘ یورپ کے ٹور اور ویزوں کی کہکشائیں دکھائی جاتی ہیں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نام ہر اس حد کو پار کیا جاتا ہے جہاں ہمارے نظریاتی معاشرے کے تشخص کی آزادی مجروح ہوتی ہے حال ہی میں اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145ویں نمبر پر چلا گیا ہے فہرست میں ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار بالترتیب اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافتی آزدی حاصل ہے جبکہ اریٹیریا، ترکمانستان اور شمالی کوریا میں صحافت کو آج بھی بیشمار قدغنوں کا سامنا ہے۔ بھارت اِس فہرست میں دو درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر موجود ہے فہرست کی تیاری بتاتی ہے کہ دو عالمی تصویریں ہیں‘ دونوں مغرب کے ذہن کے مطابق تیار کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت کیوں ریاست کے کنٹرول میں ہے وہاں مثبت اور تعمیری تنقید کی مکمل آزادی کیوں حاصل نہیں ہے‘۔
امریکی صدر آئے روز اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کے لتے لے رہے ہوتے ہیں‘ پریس فریڈم کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ ترک اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے میڈیا چینل بند کر دیے ہیں صدر طیب اردوغان کی حکومت نے یہ فیصلہ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے اپنے ملکوں میں ترک میڈیا کی ویب سائٹس بند کرنے کے بعد کیا ہے یہ معاملہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ہوا ہے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سال میں 33سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے یہ واقعی افسوس ناک واقعات ہیں‘ پاکستان میں صحافت کو در پیش مسائل کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ گھٹن زدہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرتے‘ پاکستان میں صحافت کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہاں اصل مسائل کی جانب توجہ نہ دی جائے تو مسائل کبھی حل ہی نہیں ہوسکتے‘ یہاں بنیادی طور پر ملازمت میں غیر یقینی صورت حال کا سب سے بڑا مسلۂ ہے‘اس میں کچھ صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے لیکن یہ تعداد بہت کم ہے‘ مگر یہی لوگ فیصلہ سازی میں بھی شامل رہتے ہیں لہذا کسی نہ کسی حد تک اثر رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں‘ اخبار نویسوں کے لیے اجرت‘ تنخواہوں اور ملازمت کے دوران ملنے والی مراعات اگر پسند نہ نا پسند کی آکاس بیل سے آزاد کرکے نافذ کر دی جائیں تو مسائل کا ایک بڑا حصہ ازخود حل ہوسکتا ہے لیکن یہ معاملہ مالکان کے دباؤ اور مٹھی میں ہے اور رہتا ہے جب تک مالکان کی مٹھی سے یہ مسلۂ باہر نہیں نکلے گا اس وقت تک مسلۂ رہے گا اور کبھی بھی حل نہیں ہوگا‘ یہ مسلۂ اس وقت تک پختہ بھی رہے گا جب تک پاکٹ یونین موجود رہیں گی۔
حالیہ ویج بورڈ کے نفاذ کے لیے بھی مالکان کے دباؤ کی کہانی ویج بورڈ کے چیئرمین جسٹس حسنات کے دل میں رہتی تو جو مراعات اس ویج بورڈ میں ملی ہیں شاید وہ بھی نہ مل پاتیں‘ جسٹس حسنات نے بہت جرائت مندی سے مالکان کے دباؤ کو مسترد کیا ہے‘ ملازمین کو تر نوالہ بننے سے بچایا ہے لیکن چونکہ ملک میں ماحول ایسا ہے‘ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی مفادات کی رسیوں میں جکڑ ہوئی ہیں لہذا مسائل حل ہونے میں وقت لگے گا‘ جس طرح ملک میں تعمیراتی شعبے کے علاوہ شوگر انڈسٹری سمیت دیگر کاروباری داروں کے مالکان کا کارٹل ہے‘ اسی طرح میڈیا مالکان کا بھی کارٹل ہے‘ چھ سات مالکان بیٹھتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں یہی فیصلے نافذ ہوتے رہتے ہیں‘ یہی چند افراد فائدہ سمیٹ لیتے ہیں باقی لوگ تالیوں بجانے والوں میں شامل رہتے ہیں ایک فیصلہ ہواتھاکہ ٹی وی چینلز میں نائٹ شفٹ ختم کردی جائے گی یہاں تک بھی طے ہوگیا تھا کہ ایک چینل کی ڈی ایس این جی کے ذریعے دیگر چینللز بھی فیڈ لے لیا کریں گے اس وقت ملک میں فعال ٹی وی چینلز میں کوئی چالیس کے قریب چینل ہیں یہ سب ایک ہی ڈی ایس این جی سے فیڈ لینے کے لیے رضامند ہوچکے تھے اسی طرح ایک مرکزی نیو زروم بنانے کی بھی تجویز آچکی ہے‘ سینٹرلائز نظام کے لیے پرنٹ میڈیا اس جانب حرکت میں آچکا ہے اور یہی وجہ سے ملازمین کی برطرفیاں مسلسل ہو رہی ہیں‘ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت نے مداخلت کرکے ملازمین کے مفاد کا دفاع کرنا ہے مگر یہ خاموش ہے اور کنارے پر کھڑی مسکرا رہی ہے یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ کس معیار کے لوگوں کو میڈیا انڈسٹری میں لائے گی‘ اس انڈسٹری میں جب سے کاروباری کارٹل شامل ہوا ہے اس وقت سے یہ شعبہ مسائل کا شکار بنا ہوا ہے
ہر سال 3مئی‘ حکومتوں کو پریس کی آزادی کے ان کے عہد کا احترام کرنے کی ضرورت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور میڈیا کے پیشہ ور افراد میں پریس کی آزادی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے امور کے بارے میں بھی عکاسی کا دن ہے۔ جس طرح اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ پریس یوم آزادی میڈیا کی حمایت کا دن ہے جو آزادی صحافت کی روک تھام یا خاتمے کے اہداف ہیں۔
یہ ان صحافیوں کے لئے یاد رکھنے کا دن بھی ہے جو کہانی کی جستجو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یوم آزادی صحافت کے بارے میں خبر یہ ہے کہ غیر یقینی صورتحال کے سبب اس سال تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس نہیں ہوگی‘ یہ کانفرنس کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردی گئی ہےCOVID-19 پھیلاؤ کے باعث ہالینڈ کی وزارت خارجہ نے یونیسکو کے ساتھ مشاورت کی اور ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس 2020 ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس شعبے سے وابستہ دنیا بھر کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے ہیگ میں ورلڈ فورم میں یونیسکو اور نیدرلینڈ نے 22 سے 24 اپریل تک ورلڈ پریس فریڈم کانفرنس (ڈبلیو پی ایف سی) کے انعقاد کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اب کانفرنس اسی جگہ پر 18 سے 20 اکتوبر کو شیڈول ہے اور یہ کانفرنس عالمی یوم آزادی یوم آزادی (3 مئی) اور صحافیوں کے خلاف جرائم سے معافی ختم کرنے کا عالمی دن (2 نومبر) کا مشترکہ پروگرام ہوگا اس کانفرنس کے التواء کے لیے عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کو COVID-19 کو درخواست کی تھیکانفرنس میں ایک ہزار مندوبین کی شرکت متوقع تھی اور کانفرنس کے بعد اس کی کمیٹیوں کے اجلاس کم و بیش دو ماہ تک جاری رہنے تھے۔
پروگرام میں پہلا سیشن بین الاقوامی فورم سمیت، صحافیوں کی حفاظت سے متعلق ایک علمی کانفرنس، نوجوانوں کو نشانہ بنانے والے ایک پریس آزادی فیسٹیول اور یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے ایوارڈ کی تقریب سمیت دیگر کئی سیشنز شامل تھے بہر حال اب یہ کانفرنس اکتوبر میں ہوگی جس کے لیے میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے انتہائی اہم نیٹ ورکس نے اپنی شرکت کی تصدیق کردی ہے۔ کانفرنس کے منتظمین تمام شراکت داروں کو اس ایونٹ کے ساتھ اپنی مصروفیت کو جاری رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسی پروگرام کو اکتوبر میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ یقینی بنانے کے لئے کام کریں گے2020 کے یونیسکو / گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائز کے انعام یافتہ اخبار نویس کے نام کا اعلان 3 مئی کو کیا جائے گا اور ایوارڈ کی تقریب اکتوبر میں دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ہوگی عالمی یوم آزادی یوم آزادی کی قومی اور مقامی تقریبات 3 مئی کو دنیا بھر میں ہوں گی آن لائن مباحثے اور ورکشاپ ہوں گی بنیادی طور پر1993 سے ہر سال منظم ہونے والی، ڈبلیو پی ایف ڈی عالمی کانفرنس صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، قومی حکام، ماہرین تعلیم اور وسیع تر عوام کو آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے ابھرتی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کرنے اور حل کی نشاندہی کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
ہالینڈ اس سال کے لیے میزبان ملک ہے یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہتی ہے‘ یہاں تک تو یوم آذادی صحافت کا یک پہلو اور رخ ہے‘ بلاشبہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے صحافتی ادارے اور صحافی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے آج ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کو نہ صرف مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ وہ چوتھے ستون کے طور پر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار کرتا بھی نظر آتا ہے لیکن ہمیں دنیا بھر ہمیں کچھ تضاد بھی نظر آتا ہے بھارت کو غیر ضروری رعائت دی جاتی ہے دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں آرایس ایس کے لوگ ہاتھوں میں ترنگا‘تلواریں‘برچھائیاں اور نیزے لیے جے شری رام، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم‘جے ہنومان کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں غیرملکی میڈیا کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن مغرب اس کے باوجود بھارت کو رعائت دیتا ہے حقائق یہ ہیں موبائل فون پر ویڈیوز یا تصاویر بنانے والوں سے آرایس ایس کے مسلح لوگ موبائل فون چھین کرتوڑ دیتے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح ہلہ بولا گیا ممبئی‘گجرات اور احمد آباد سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو آرایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ بنایاگیا مگر مغربی میڈیا کیا دکھاتا رہا بھارت کے ادارے ”نیشنل کمیشن آف مینارٹیز“نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقلیتیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ اگر کہیں کسی انجانے اور انفرادی واقعہ کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بات سامنے آجائے تو مغربی میڈیا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔
بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں بھارت کے1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا‘اسی طرح بھارت دنیا کے ان بڑوں ممالک کے فہرست میں ٹاپ 5پرآتا ہے جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہیامریکہ کی ایک ریگولیٹری ٹیکنالوجی کمپنی، کیسٹیلم نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان نے مبینہ دہشت گردوں کی نگرانی کی فہرست میں سے ہزاروں نام خارج کر دیے ہیں۔ ان میں ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کا نام بھی شامل ہے یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے‘ جو مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہے‘ سچ یہ ہے کہ امریکا نے انہی لوگوں سے مزاکرات کیے جنہیں وہ دھشت گرد کہتا رہا اور مغروبی میڈیا ابھی تک خاموش ہے‘ تلخ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے آج تک پرنٹ میڈیا لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور مغرب خاموش ہیمگر مغرب کے میڈیا نے پاکستان پر ہی اپنا انٹینا سیٹ کر رکھا ہے اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں‘ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فیصدسے زیادہ خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن مغرب کا میڈیا جمہوریت کا لولی پاپ دکھاتا رہتا ہے مغرب کا میڈیا پاکستان کو اپنی آنکھ اور اپنے مفاد میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے‘ اور عالم اسلام کا اہم جز ہے‘ ہمیں اپنی سرحدوں پر مسائل ہیں اور کشمیر اس خطے کا حل طلب مسلۂ ہے پاکستان کا میڈیا‘ کسی قیمت پر اسلامی نظریاتی پاکستان سے الگ نہیں ہوسکتا اور یہاں کا میڈیا کشمیر کے حالات سے الگ تھلگ بھی نہیں رہ سکتا‘ لیکن مغرب میں میڈیا کے کرتا دھرتا پاکستانی میڈیا سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہاں کا میڈیا وہی دکھائے جو مغرب دیکھنا چاہتا ہے۔
یوں سمجھ لیں صحافت کی آزادی کی آڑ میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مغرب کی مٹھی میں قید کرنے کا مکروہ منصوبہ ہمیں دکھایا جاتا ہے اور لبھانے کے لیے ہمیں امریکہ‘ یورپ کے ٹور اور ویزوں کی کہکشائیں دکھائی جاتی ہیں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نام ہر اس حد کو پار کیا جاتا ہے جہاں ہمارے نظریاتی معاشرے کے تشخص کی آزادی مجروح ہوتی ہے حال ہی میں اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145ویں نمبر پر چلا گیا ہے فہرست میں ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار بالترتیب اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافتی آزدی حاصل ہے جبکہ اریٹیریا، ترکمانستان اور شمالی کوریا میں صحافت کو آج بھی بیشمار قدغنوں کا سامنا ہے۔ بھارت اِس فہرست میں دو درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر موجود ہے فہرست کی تیاری بتاتی ہے کہ دو عالمی تصویریں ہیں‘ دونوں مغرب کے ذہن کے مطابق تیار کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت کیوں ریاست کے کنٹرول میں ہے وہاں مثبت اور تعمیری تنقید کی مکمل آزادی کیوں حاصل نہیں ہے‘۔
امریکی صدر آئے روز اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کے لتے لے رہے ہوتے ہیں‘ پریس فریڈم کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ ترک اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے میڈیا چینل بند کر دیے ہیں صدر طیب اردوغان کی حکومت نے یہ فیصلہ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے اپنے ملکوں میں ترک میڈیا کی ویب سائٹس بند کرنے کے بعد کیا ہے یہ معاملہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ہوا ہے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انقرہ اور ریاض کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سال میں 33سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا ہے یہ واقعی افسوس ناک واقعات ہیں‘ پاکستان میں صحافت کو در پیش مسائل کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ گھٹن زدہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرتے‘ پاکستان میں صحافت کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہاں اصل مسائل کی جانب توجہ نہ دی جائے تو مسائل کبھی حل ہی نہیں ہوسکتے‘ یہاں بنیادی طور پر ملازمت میں غیر یقینی صورت حال کا سب سے بڑا مسلۂ ہے‘اس میں کچھ صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے لیکن یہ تعداد بہت کم ہے‘ مگر یہی لوگ فیصلہ سازی میں بھی شامل رہتے ہیں لہذا کسی نہ کسی حد تک اثر رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں‘ اخبار نویسوں کے لیے اجرت‘ تنخواہوں اور ملازمت کے دوران ملنے والی مراعات اگر پسند نہ نا پسند کی آکاس بیل سے آزاد کرکے نافذ کر دی جائیں تو مسائل کا ایک بڑا حصہ ازخود حل ہوسکتا ہے لیکن یہ معاملہ مالکان کے دباؤ اور مٹھی میں ہے اور رہتا ہے جب تک مالکان کی مٹھی سے یہ مسلۂ باہر نہیں نکلے گا اس وقت تک مسلۂ رہے گا اور کبھی بھی حل نہیں ہوگا‘ یہ مسلۂ اس وقت تک پختہ بھی رہے گا جب تک پاکٹ یونین موجود رہیں گی۔
حالیہ ویج بورڈ کے نفاذ کے لیے بھی مالکان کے دباؤ کی کہانی ویج بورڈ کے چیئرمین جسٹس حسنات کے دل میں رہتی تو جو مراعات اس ویج بورڈ میں ملی ہیں شاید وہ بھی نہ مل پاتیں‘ جسٹس حسنات نے بہت جرائت مندی سے مالکان کے دباؤ کو مسترد کیا ہے‘ ملازمین کو تر نوالہ بننے سے بچایا ہے لیکن چونکہ ملک میں ماحول ایسا ہے‘ ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی مفادات کی رسیوں میں جکڑ ہوئی ہیں لہذا مسائل حل ہونے میں وقت لگے گا‘ جس طرح ملک میں تعمیراتی شعبے کے علاوہ شوگر انڈسٹری سمیت دیگر کاروباری داروں کے مالکان کا کارٹل ہے‘ اسی طرح میڈیا مالکان کا بھی کارٹل ہے‘ چھ سات مالکان بیٹھتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں یہی فیصلے نافذ ہوتے رہتے ہیں‘ یہی چند افراد فائدہ سمیٹ لیتے ہیں باقی لوگ تالیوں بجانے والوں میں شامل رہتے ہیں ایک فیصلہ ہواتھاکہ ٹی وی چینلز میں نائٹ شفٹ ختم کردی جائے گی یہاں تک بھی طے ہوگیا تھا کہ ایک چینل کی ڈی ایس این جی کے ذریعے دیگر چینللز بھی فیڈ لے لیا کریں گے اس وقت ملک میں فعال ٹی وی چینلز میں کوئی چالیس کے قریب چینل ہیں یہ سب ایک ہی ڈی ایس این جی سے فیڈ لینے کے لیے رضامند ہوچکے تھے اسی طرح ایک مرکزی نیو زروم بنانے کی بھی تجویز آچکی ہے‘ سینٹرلائز نظام کے لیے پرنٹ میڈیا اس جانب حرکت میں آچکا ہے اور یہی وجہ سے ملازمین کی برطرفیاں مسلسل ہو رہی ہیں‘ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت نے مداخلت کرکے ملازمین کے مفاد کا دفاع کرنا ہے مگر یہ خاموش ہے اور کنارے پر کھڑی مسکرا رہی ہے یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ کس معیار کے لوگوں کو میڈیا انڈسٹری میں لائے گی‘ اس انڈسٹری میں جب سے کاروباری کارٹل شامل ہوا ہے اس وقت سے یہ شعبہ مسائل کا شکار بنا ہوا ہے