مجاہدہ! میں نیلم کو بیس سالوں سے جانتی ہوں۔ وہ ہمارے دفتر میں صفائی کرتی ہے۔ بیس سالوں میں وہ ہر روز پابندی سے
نوکری پر آتی ہے۔ وہ کھڑکیاں کھولتی ہے۔ وہ پردے سرکاتی ہے۔ وہ جھاڑو لگاتی ہے پھر پونچھا دیتی ہے۔ دن بھر وہ فوٹوکاپی بھی کرتی ہے اور دوسرے دفتروں تک پیغامات اور سرکاری چھٹیاں بھی پہنچاتی ہے۔ نیلم کے جسم پر جلنے کے داغ ہیں۔ سنا ہے ایک بار اپنے میاں سے جھگڑا کرنے کے بعد اس نے خود کو آگ لگا دی تھی۔ شکر ہے جان بچ گئی۔ مہینے بھر ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ گھر واپس آئی۔ جلنے کے زخم تو بھر گئے لیکن بدنما داغ چھوڑ گئے۔ شروع میں نیلم ان کو چھپانے کے لئے ہمیشہ لمبے آستین والے لباس پہنتی۔ نیلم کا شوہر مچھیرا تھا۔ ایک بار وہ کشتی لے کر دور سمندر میں گیا۔ موسم خراب ہونے کے باعث اس کی کشتی الٹ گئی اور اس کا شوہر غائب ہو گیا۔ اس کی لاش کبھی نہیں ملی۔ نیلم بیوہ ہو گئی۔ ایک ایسی بیوہ جس کو اپنے شوہر کا کفن دفن کرنا نصیب نہیں ہوا۔وہ اس کی موت کا ماتم بھی نہیں کر پائی کیونکہ لاش کے لا حاصل ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ایک خفیف سی امید تھی کہ وہ مل جائے گا۔
بیس سال پہلے تیس سال کی نیلم میں بچپنا ابھی بھی تھا۔ اس کے تین بچے تھے۔ شکر ہے اس کے پاس یہ نوکری تھی۔ اسی سے وہ اپنا گھر سنبھالتی اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی۔ شوہر کے غائب ہونے کے زمانے میں نیلم کے مطابق دفتر میں دلچسپ چہ میگوئیاں سننے کو ملتیں۔ ”میں بس میں آرہی تھی۔ نیلم میرے آگے بیٹھی تھی۔ بغل کی سیٹ پر ہمارامالی سلیم بیٹھا تھا۔ نیلم اس کو دیکھتے ہی فوراً سلیم کے بغل میں جا لپکی۔ راستے بھر وہ سلیم سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ جب وہ دونوں بس سے آرہے تھے اور نیلم نے آفس کا راستہ لیااور سلیم نے باغ کا، تب نیلم نے سلیم سے کہا:”میں آپ سے ہی پیار کرتی ہوں سلیم۔“رقیہ کی یہ باتیں تمام آفس غور سے سنتا۔
”ہائے ہائے شوہر کو غائب ہوئے سال بھر نہیں ہوا۔ ابھی سے دوسرے میاں کی تلاش میں لگ گئی۔“ آفس والے مذاق اڑتے۔ ”کچھ بھی ہو اکیلی عورت کا تنہا گزارا کرنا آسا ن بھی نہیں۔مہنگائی کازمانہ ہے۔ پھر عورت تو کمزور ہوتی ہے۔ ہر موڑ پر اسے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اوپر سے تین تین بچوں کا خرچہ بھی تو ہے۔“ کوئی مشفقانہ انداز سے کہتا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ نیلم کا چرچا ہر روز سب کی زبان پر ہوتا۔ اکاؤنٹس کے شعبے میں امجد بابو کے ساتھ نیلم کا چکر زور و شور سے چلنے لگا۔ اب امجد بابو شادی شدہ تھے لیکن نیلم کے پیار میں اس قدر گرفتار ہوئے کہ صبح سے شام تک وہ ایک دوسرے سے چپکے ہوئے نظر آتے۔ بات اس قدر بڑھی کہ امجد بابو کی بیوی کو اس چکّر کا علم ہوگیا۔ امجد بابو کے گھر میں غدر مچ گیا۔ بیوی نے اپنے رشتہ داروں کو گھر پر بلا کر امجد بابو کی خوب پٹائی کروائی۔ امجد بابو نے آخر تنگ آکرگھر چھوڑ دیا اور نیلم کے گھر کو اپنا جائے قیام بنایا۔ اسی بہانے نیلم پر ایک اور داغ لگ گیا۔ اس نے ایک عورت کا گھر توڑ دیا۔ سکھی گھر میں آگ لگادی۔ امجد بابو اور نیلم کے نکاح کی مٹھائی پورے دفتر میں منقسم ہوئی۔ دونوں بائیک پر بیٹھ کر کام پر آتے۔
پہلی شادی سے امجد بابو کا کوئی بچہ نہیں ہوا۔ وہ خود کہتے کہ نیلم کے بچوں کو وہ اپنے بچے سمجھتے تھے۔ کافی عرصوں کے بعد نیلم ہشاش بشاش نظر آنے لگی۔ اس نے اب چھوٹی آستین والے کپڑے پہننے شروع کر دئے تھے۔ جلنے کے داغ اب بھی نمایاں تھے۔ اس کے کچھ چھ مہینوں سے اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی معلوم ہوتیں۔ اس کا چہرا پھولا ہوا نظر آتا۔ وہ چلبلاپن جو نیلم کی شخصیت کا جزو تھا غائب تھا۔ پھر سننے میں آیا (جی حضور دفتروں میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے!) کہ امجد بابو شکی مزاج انسان تھے۔ انہیں نیلم اور سلیم کی افواہ کا علم تھا۔ اس لئے نیلم پر کڑی نگرانی رکھتے۔ ایک بار آفس کی چھٹی کے بعد نیلم آنگن میں مستری سنیل سے ہنس کے باتیں کر رہی تھی۔ عین وقت پر امجد بابو بھی آگئے۔ ان کا چہرہ غصّے سے لال ہوگیا۔ انہوں نے نیلم کو ضفائی پیش کرنے کا وقت بھی نہیں دیا۔ سیدھے نیلم کے گال پر ایک زور کا تھپر دیا اور نیلم اپناتوازن کھو بیٹھی اور سنیل کی بانہوں میں گڑگئی۔ سنیل نے نیلم کو سہارا دیتے ہوئے ہاتھ بڑھا کے اسے پکڑا۔ اس پر امجد بابو اور بگڑگئے: ”چل تو گھر، آتجھے بتاتا ہوں!“ ظاہراً یہ رشتہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چلا۔ امجد بابو نیلم کی محبت کی شدت کی تاب نہ لا سکے اوراپنی پہلی بیوی کے ہاں واپس چلے گئے اور آفس کے اس شاخ سے تبادلہ لے کر دوسری شاخ میں کام کرنے چلے گئے۔ نیلم نے کام میں خود کو مصروف کر دیا۔ اسے اپنے تین بچوں کے اخراجات کی فکر تھی۔ اس کے جلنے کے زخم اب اتنے بھیانک معلوم نہیں ہوتے تھے۔ آفس میں اسے مزید ذمے داریاں بھی سونپی گئیں جس کے لئے اسے زائد معاوضہ بھی ملتا۔
نیلم نے پندرہ سال کی ملازمت کے بعد ایک چھوٹی سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید لی۔ جب ایچ۔ایس۔سی کے نتیجوں کا اعلان عام ہواتو نیلم کے بڑے بیٹے نے امتیازی نمبر حاصل کئے تھے۔ اسے سرکار کی طرف سے وظیفہ ملا اور تین سال بعد ہندوستان سے وکالت کی ڈگری حاصل کر کے نیلم کا ہونہار بیٹا گھر واپس آیا۔ نیلم کی بیٹی اب موریشس کی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے اور اس کا چھوٹا بیٹا ابھی اسکول میں ہے۔ ان بیس سالوں میں میں نے نیلم کی شخصیت کا بغور مطالعہ کیا۔ شروع میں مجھے اس سے بہت چڑ تھی۔ ایک دو بار کام کے سلسلے میں نوک جھونک بھی ہوئی۔ اس کے مزاج میں ایک روکھا پن تھا۔ وہ لوگوں سے دوری اختیار کرتی تھی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ ذرا ہنس مکھ اور باتونی بن گئی اور ہنسی مذاق اس کی خصلتوں میں شامل ہو گیا۔ آج پینتالیس سال کی نیلم کا کردار حاکمانہ ہے۔ وہ متانت سے اپنا کام کرتی ہے۔ مخالف حالات کا ڈت کر مقابلہ کرتی ہے اور اپنے مطلب سے کام رکھتی ہے۔اس میں خود اعتمادی حد درجہ شامل ہے۔ یہ تغیر تو آنا ہی تھا کیونکہ وہ ساس بننے والی ہے۔ دفتر میں اس کے پڑے بیٹے کی شادی کا کارڈ بٹ چکا ہے۔ ان بیس سالوں میں نیلم نے کبھی اپنے کام کی طرف غیر ذمے داری نہیں دکھائی۔ زندگی کے نا مسائید حالات نے کبھی اسے ہتھیار ڈدالنے پر مجبور نہیں کئے۔ نیلم کے جلے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا جائے تو بڑی مشکل سے معلوم ہوگا کہ وہ پہلے کتنے بھیانک دکھتے تھے۔ نیلم کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ وقت برابر نہیں رہتا۔ وقت انسان کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے اور وقت انسان کو بدل دیتاہے۔ جو وقت سے نہیں ہارا اور جو وقت کے ساتھ خود کو بدلتا ہے سرفرازی اسی کی ہوتی ہے۔ نامسائد حالات ہی فولادی کردار کے خالق ہیں۔