Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
“خیر پور” کے لوگ، پیر مٹھل سائیں کے جن بےشمار احسانات تلے دبے ہوئے تھےان میں ایک مٹھل سائیں کا”دم درود” بھی تھا جو وہ پانی کی بوتل پر صرف سوروپے کے عوض کردیتے تھے جسے ہر مرض کے لیے شافی سمجھا جاتا،
علاقے میں خیر وبرکت کےلئے پیر سائیں نے گاؤں والوں کو دو کاموں سے روک رکھا تھا، جس پر لوگ بخوشی عمل پیرا تھے۔۔۔۔ایک یہ کہ کوئی شخص مویشیوں کا دودھ نہ بیچے کیونکہ دودھ جیسی نعمت خداوندی کو پیسوں کے لالچ میں بیچنا، رزق کی ناقدری ہے۔۔۔۔ اور دوسری بات کہ کوئی بھی اپنی بیٹی کو انگریزی تعلیم نہ دلائے البتہ لڑکوں کے لئے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی، اس سے آگے نہیں۔۔۔
گاؤں کے بزرگ بھی پیر مٹھل سائیں کے زبردست حامی تھے، ان کے خیال میں پڑھ لکھ جانے کے بعد بچوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں، وہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے لحاظ کی پٹی اتر جاتی ہے۔۔۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ مٹھل سائیں جس پہ راضی ہوتے ہیں اس کے”بھانڈے” کبھی خالی نہیں ہوتےاور جو کوئی مٹھل سائیں کی حکم عدولی کرتے ہوئے دودھ فروخت کرنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ اس کے جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتاہے،
لوگ دودھ فروخت کرنے کی بجائے اسے اپنے استعمال میں لاتے اور جو دودھ بچ رہتا اس کا دیسی گھی نکال کر ہر چاند کی چودھویں کو مٹھل سائیں کے آستانے پہ جا پیش کرتے، پیر سائیں گھی وصول کرنے کے بعد ہر مرید کو چٹکی بھر متبرک نمک”فی سبیل اللہ” عنایت فرماتے۔۔
ایک بار جب چودھویں کو مٹھل سائیں نے سراج دین کو آستانے پر غیر حاضر پایا اور خبر ہوئی کہ سراج دین دودھ بیچنے لگا ہےتو مٹھل سائیں نے بھری محفل میں سر سے پگڑی اتار کر سراج دین کو بددعا دی۔۔۔۔چاچے فضل داد نے گاؤں کے لوگوں کو جب یہ بات کانوں کو چھو کر بتائی تو یہ سن کر سامعین نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔
آج مٹھل سائیں کے گھر خوب چہل پہل تھی، مٹھل سائیں کی بیوی”وڈی بی بی” بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کیونکہ مٹھل سائیں کے چھوٹے بیٹے صدام سائیں کا جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں بیرسٹری میں ایڈمیشن ہو گیا تھا، دو ہفتوں بعد صدام سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی تھی۔۔۔
مٹھل سائیں نے اے ٹی ایم کارڈ اپنے قابل اعتماد خلیفے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ “نور بخش! گیارہ تاریخ کو چھوٹے سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی ہے اس واسطے اخراجات کا انتظام کرو”
وڈی بی بی بولیں “ٹھہرئیے مٹھل سائیں! میں نے صدام کے تمام تر اخراجات کے لیے رقم کا بندوست کر لیا ہے، ایک سال سے حاجی کرم دین صاحب (مٹھائی والے) آستانے سے دیسی گھی خرید رہے ہیں ہر مہینے کے ڈیڑھ من کے حساب سے سال بھر کے گھی کی رقم جو ان کے ذمے تھی، آج صبح ہی ادا کر گئے ہیں”۔
“خیر پور” کے لوگ، پیر مٹھل سائیں کے جن بےشمار احسانات تلے دبے ہوئے تھےان میں ایک مٹھل سائیں کا”دم درود” بھی تھا جو وہ پانی کی بوتل پر صرف سوروپے کے عوض کردیتے تھے جسے ہر مرض کے لیے شافی سمجھا جاتا،
علاقے میں خیر وبرکت کےلئے پیر سائیں نے گاؤں والوں کو دو کاموں سے روک رکھا تھا، جس پر لوگ بخوشی عمل پیرا تھے۔۔۔۔ایک یہ کہ کوئی شخص مویشیوں کا دودھ نہ بیچے کیونکہ دودھ جیسی نعمت خداوندی کو پیسوں کے لالچ میں بیچنا، رزق کی ناقدری ہے۔۔۔۔ اور دوسری بات کہ کوئی بھی اپنی بیٹی کو انگریزی تعلیم نہ دلائے البتہ لڑکوں کے لئے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی، اس سے آگے نہیں۔۔۔
گاؤں کے بزرگ بھی پیر مٹھل سائیں کے زبردست حامی تھے، ان کے خیال میں پڑھ لکھ جانے کے بعد بچوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں، وہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے لحاظ کی پٹی اتر جاتی ہے۔۔۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ مٹھل سائیں جس پہ راضی ہوتے ہیں اس کے”بھانڈے” کبھی خالی نہیں ہوتےاور جو کوئی مٹھل سائیں کی حکم عدولی کرتے ہوئے دودھ فروخت کرنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ اس کے جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتاہے،
لوگ دودھ فروخت کرنے کی بجائے اسے اپنے استعمال میں لاتے اور جو دودھ بچ رہتا اس کا دیسی گھی نکال کر ہر چاند کی چودھویں کو مٹھل سائیں کے آستانے پہ جا پیش کرتے، پیر سائیں گھی وصول کرنے کے بعد ہر مرید کو چٹکی بھر متبرک نمک”فی سبیل اللہ” عنایت فرماتے۔۔
ایک بار جب چودھویں کو مٹھل سائیں نے سراج دین کو آستانے پر غیر حاضر پایا اور خبر ہوئی کہ سراج دین دودھ بیچنے لگا ہےتو مٹھل سائیں نے بھری محفل میں سر سے پگڑی اتار کر سراج دین کو بددعا دی۔۔۔۔چاچے فضل داد نے گاؤں کے لوگوں کو جب یہ بات کانوں کو چھو کر بتائی تو یہ سن کر سامعین نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔
آج مٹھل سائیں کے گھر خوب چہل پہل تھی، مٹھل سائیں کی بیوی”وڈی بی بی” بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کیونکہ مٹھل سائیں کے چھوٹے بیٹے صدام سائیں کا جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں بیرسٹری میں ایڈمیشن ہو گیا تھا، دو ہفتوں بعد صدام سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی تھی۔۔۔
مٹھل سائیں نے اے ٹی ایم کارڈ اپنے قابل اعتماد خلیفے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ “نور بخش! گیارہ تاریخ کو چھوٹے سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی ہے اس واسطے اخراجات کا انتظام کرو”
وڈی بی بی بولیں “ٹھہرئیے مٹھل سائیں! میں نے صدام کے تمام تر اخراجات کے لیے رقم کا بندوست کر لیا ہے، ایک سال سے حاجی کرم دین صاحب (مٹھائی والے) آستانے سے دیسی گھی خرید رہے ہیں ہر مہینے کے ڈیڑھ من کے حساب سے سال بھر کے گھی کی رقم جو ان کے ذمے تھی، آج صبح ہی ادا کر گئے ہیں”۔
“خیر پور” کے لوگ، پیر مٹھل سائیں کے جن بےشمار احسانات تلے دبے ہوئے تھےان میں ایک مٹھل سائیں کا”دم درود” بھی تھا جو وہ پانی کی بوتل پر صرف سوروپے کے عوض کردیتے تھے جسے ہر مرض کے لیے شافی سمجھا جاتا،
علاقے میں خیر وبرکت کےلئے پیر سائیں نے گاؤں والوں کو دو کاموں سے روک رکھا تھا، جس پر لوگ بخوشی عمل پیرا تھے۔۔۔۔ایک یہ کہ کوئی شخص مویشیوں کا دودھ نہ بیچے کیونکہ دودھ جیسی نعمت خداوندی کو پیسوں کے لالچ میں بیچنا، رزق کی ناقدری ہے۔۔۔۔ اور دوسری بات کہ کوئی بھی اپنی بیٹی کو انگریزی تعلیم نہ دلائے البتہ لڑکوں کے لئے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی، اس سے آگے نہیں۔۔۔
گاؤں کے بزرگ بھی پیر مٹھل سائیں کے زبردست حامی تھے، ان کے خیال میں پڑھ لکھ جانے کے بعد بچوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں، وہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے لحاظ کی پٹی اتر جاتی ہے۔۔۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ مٹھل سائیں جس پہ راضی ہوتے ہیں اس کے”بھانڈے” کبھی خالی نہیں ہوتےاور جو کوئی مٹھل سائیں کی حکم عدولی کرتے ہوئے دودھ فروخت کرنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ اس کے جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتاہے،
لوگ دودھ فروخت کرنے کی بجائے اسے اپنے استعمال میں لاتے اور جو دودھ بچ رہتا اس کا دیسی گھی نکال کر ہر چاند کی چودھویں کو مٹھل سائیں کے آستانے پہ جا پیش کرتے، پیر سائیں گھی وصول کرنے کے بعد ہر مرید کو چٹکی بھر متبرک نمک”فی سبیل اللہ” عنایت فرماتے۔۔
ایک بار جب چودھویں کو مٹھل سائیں نے سراج دین کو آستانے پر غیر حاضر پایا اور خبر ہوئی کہ سراج دین دودھ بیچنے لگا ہےتو مٹھل سائیں نے بھری محفل میں سر سے پگڑی اتار کر سراج دین کو بددعا دی۔۔۔۔چاچے فضل داد نے گاؤں کے لوگوں کو جب یہ بات کانوں کو چھو کر بتائی تو یہ سن کر سامعین نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔
آج مٹھل سائیں کے گھر خوب چہل پہل تھی، مٹھل سائیں کی بیوی”وڈی بی بی” بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کیونکہ مٹھل سائیں کے چھوٹے بیٹے صدام سائیں کا جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں بیرسٹری میں ایڈمیشن ہو گیا تھا، دو ہفتوں بعد صدام سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی تھی۔۔۔
مٹھل سائیں نے اے ٹی ایم کارڈ اپنے قابل اعتماد خلیفے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ “نور بخش! گیارہ تاریخ کو چھوٹے سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی ہے اس واسطے اخراجات کا انتظام کرو”
وڈی بی بی بولیں “ٹھہرئیے مٹھل سائیں! میں نے صدام کے تمام تر اخراجات کے لیے رقم کا بندوست کر لیا ہے، ایک سال سے حاجی کرم دین صاحب (مٹھائی والے) آستانے سے دیسی گھی خرید رہے ہیں ہر مہینے کے ڈیڑھ من کے حساب سے سال بھر کے گھی کی رقم جو ان کے ذمے تھی، آج صبح ہی ادا کر گئے ہیں”۔
“خیر پور” کے لوگ، پیر مٹھل سائیں کے جن بےشمار احسانات تلے دبے ہوئے تھےان میں ایک مٹھل سائیں کا”دم درود” بھی تھا جو وہ پانی کی بوتل پر صرف سوروپے کے عوض کردیتے تھے جسے ہر مرض کے لیے شافی سمجھا جاتا،
علاقے میں خیر وبرکت کےلئے پیر سائیں نے گاؤں والوں کو دو کاموں سے روک رکھا تھا، جس پر لوگ بخوشی عمل پیرا تھے۔۔۔۔ایک یہ کہ کوئی شخص مویشیوں کا دودھ نہ بیچے کیونکہ دودھ جیسی نعمت خداوندی کو پیسوں کے لالچ میں بیچنا، رزق کی ناقدری ہے۔۔۔۔ اور دوسری بات کہ کوئی بھی اپنی بیٹی کو انگریزی تعلیم نہ دلائے البتہ لڑکوں کے لئے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی تھی، اس سے آگے نہیں۔۔۔
گاؤں کے بزرگ بھی پیر مٹھل سائیں کے زبردست حامی تھے، ان کے خیال میں پڑھ لکھ جانے کے بعد بچوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں، وہ خود غرض ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے لحاظ کی پٹی اتر جاتی ہے۔۔۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ مٹھل سائیں جس پہ راضی ہوتے ہیں اس کے”بھانڈے” کبھی خالی نہیں ہوتےاور جو کوئی مٹھل سائیں کی حکم عدولی کرتے ہوئے دودھ فروخت کرنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ اس کے جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتاہے،
لوگ دودھ فروخت کرنے کی بجائے اسے اپنے استعمال میں لاتے اور جو دودھ بچ رہتا اس کا دیسی گھی نکال کر ہر چاند کی چودھویں کو مٹھل سائیں کے آستانے پہ جا پیش کرتے، پیر سائیں گھی وصول کرنے کے بعد ہر مرید کو چٹکی بھر متبرک نمک”فی سبیل اللہ” عنایت فرماتے۔۔
ایک بار جب چودھویں کو مٹھل سائیں نے سراج دین کو آستانے پر غیر حاضر پایا اور خبر ہوئی کہ سراج دین دودھ بیچنے لگا ہےتو مٹھل سائیں نے بھری محفل میں سر سے پگڑی اتار کر سراج دین کو بددعا دی۔۔۔۔چاچے فضل داد نے گاؤں کے لوگوں کو جب یہ بات کانوں کو چھو کر بتائی تو یہ سن کر سامعین نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔
آج مٹھل سائیں کے گھر خوب چہل پہل تھی، مٹھل سائیں کی بیوی”وڈی بی بی” بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کیونکہ مٹھل سائیں کے چھوٹے بیٹے صدام سائیں کا جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں بیرسٹری میں ایڈمیشن ہو گیا تھا، دو ہفتوں بعد صدام سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی تھی۔۔۔
مٹھل سائیں نے اے ٹی ایم کارڈ اپنے قابل اعتماد خلیفے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ “نور بخش! گیارہ تاریخ کو چھوٹے سائیں کی جرمنی کے لیے روانگی ہے اس واسطے اخراجات کا انتظام کرو”
وڈی بی بی بولیں “ٹھہرئیے مٹھل سائیں! میں نے صدام کے تمام تر اخراجات کے لیے رقم کا بندوست کر لیا ہے، ایک سال سے حاجی کرم دین صاحب (مٹھائی والے) آستانے سے دیسی گھی خرید رہے ہیں ہر مہینے کے ڈیڑھ من کے حساب سے سال بھر کے گھی کی رقم جو ان کے ذمے تھی، آج صبح ہی ادا کر گئے ہیں”۔