صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دورہ کراچی اور اس دوران میں وزیر اعلیٰ ہاؤس جا کر اجلاس کی صدارت کی خبر تھی جس میں امکانات کا ایک جہان آباد تھا۔ خبر یہ تھی کہ صدر مملکت وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک ایسے اجلاس کی صدارت کریں گے جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لے کر ایسے اقدامات تجویز کیے جائیں گے جن کی مدد سے وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹا جاسکے۔ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ وزیر اعلیٰ سندھ اس نادر موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے صدر مملکت کو اپنی حکمت عملی کے بارے میں اعتماد میں لیں گے۔
قومی زندگی کے اس اہم مرحلے پر جب ہم بری طرح تقسیم ہو چکے ہیں اور انتہائی اور سنگین چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی ایک میز پر بیٹھ کر بات کرنے اور ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، اس خبر نے مایوسی کی اس فضا میں امید کی شمع جلا دی تھی اور یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ صدر مملکت کے اس اقدام سے منقسم قوم اتحاد کی منزل کی طرف گامزن ہو جائے گی لیکن دن کا سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ مبارک امکان بھی معدوم ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق ایوان صدر سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو مطلع کر دیا گیا کہ صدر مملکت کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
پارلیمانی نظام میں صدر مملکت کے اختیارات کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں، وہ اپنے منصب کی بزرگی اور نوعیت کی وجہ سے ریاست کی اکائیوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی سب سے بڑی علامت ہوتا ہے۔ اسی لیے کیا جاتا ہے کہ صدر مملکت وفاق کی سب سے مضبوط علامت ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلی ہاؤس جاکر اجلاس کی صدارت کرنے کے فیصلے سے یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ ایک طویل عرصے کے بعد ریاست کے سربراہ وہ کردار ادا کرنے جارہے ہیں جس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ان کے منصب کی اہمیت میں کمی واقع ہو چکی ہے لیکن اس دورے کی منسوخی سے یہ امید دم توڑ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ امکان بھی معدوم ہو گیا ہے کہ ملک سیاسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر قومی مقاصد کے لیے یک جان ہوسکتا ہے۔ اس اعتبار سے صدر مملکت کے دورے کی منسوخی ایک حادثہ ہے، قومی قیادت کو جس پر غور کر کے آئندہ کے ایسے حادثات کا راستہ روکنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔