Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہمارے ملک (پاکستان ) کا بھی الگ دستور ہے۔یوں تو پاکستان ہماری ماں ہے اور ہر ماں کواپنے سارے ہی بچوں
سے بہت محبت ہوتی ہے مگر ان سب میں اس بچے سے تھوڑی زیادہ محبت ہوتی ہے جو ماں کا خیال رکھتا ہے اور وقت
پڑنے پر اس کے ساتھ رہتا ہے مگر دوسری ماوں کی طرح اس ماں کا دستور تھوڑا الگ ہے۔یوں تو کراچی ،اسلام آباد
لاہور ،حیدرآباد اور دوسرے تمام شہر اس ملک کا ہی حصہ ہیں مگر کراچی کو پاکستان کا دل اور معاشی انجن کہا جاتا ہے۔اس کے باوجود اس کی حالت یتیم کی سی ہے۔جہاں کے عوام شروع دن سے ہی ہر چیز کے ہوتے ہوۓ بھی ہر چیز کو ترستے رہے ہین۔
یہاں کے عوام کا بھی کیا ہی کہنا۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے ۔جن کا خیال
رکھنے کا ذمہ سیاسی پارٹی کے لیڈ ر خود لیتے ہیں ۔یہ ملک کا تو سو چتے نہیں ان لوگوں سے سیاستدان صرف اپنے کام ہی
کرواتے ہیں، مثلاً الیکشن سے پہلے دوسرے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر جلسوں میں لانا اور بیچارے غریب
لوگوں کو مجبور کرنا تاکہ ان کے جلسے کامیاب ہو جائیں اور ان کو بدلے میں وؤٹ ملیں اگر آرام سے ملے تو ٹھیک نہیں
تو ان کو تھوڑے پیسے دیے دیں گے اگر نہ بھی ملے تو ان کے چیلے جعلی ووٹ تو ڈالوا ہی دیں گے اور ایک عوام وہ
ہیں جن کا کسی سیاست یا سیاستدان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس دو وقت کی روٹی اور رہنے کو سر پر چھت
چاہیےجو ہر روز گھر سے نکلتے ہیں اپنے بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے تاکہ اپنے گھر والوں کو پال سکیں۔ آج کے
اس مشکل دور میں بھی جہاں کورونہ کی وجہ سے سب کو اپنی ہی زندگی اور معاشی حالات کی پڑی ہے مگر نہیں پڑی
تو کراچی کے عوام کی نہیں پڑی۔
کراچی کے وہ لوگ جو روز مرہ کے حساب سے کماتے ہیں بہت پریشان ہیں۔ جو سب کچھ بند ہوجانے کے
بعد اپنے گھروں میں زند گی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہنے کو تو ہر کوئی مدد کے لیے تیار گھر کے باہر کھڑا مگر صرف زبانی عملی
نہیں ۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا اشارہ حکومت اور دوسرے امیر ملکوں کی طرف ہے جو کہنے کو تو کروڑوں اور
ا ربوں کی امداد کی بات کر رہے ہیں مگر دینے کو کچھ بھی نہیں سب زبانی جملے بازی ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو
امتحان میں فیل ہو جانے کے بعد اپنے ابو کی تعریف کرتا ہے تاکہ جوتے نہ پڑیں ۔اس ہی طرح کی ہزاروں باتیں جو اج
کل ہمارے وزیراعظم کررہےہیں ۔ٹائیگر فورس اور حکومتی امداد کا اعلان جو سننے میں تو بہت خوشی دیتا ہے جیسے
بارش کے بعد قوس و قزح کا منظر مگر عملی طور پر تو صرف دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔کراچی کے غریب عوام کی حالت
بھی کچھ یہی ہے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے امداد کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر اصلی منظر اس کے برعکس ہے ۔
کراچی کے غریب عوام اب اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں ۔۔ کورونہ سے نہیں بھوک سے ۔
وقت گواہ ہے کہ ملک میں جب جب معیشت کی ترقی کی بات آتی ہے تو کراچی کے ہی عوام کام آتے ہیں۔
ملک کی معیشت کا اچھا خاصہ حصہ یہاں سے ہی ملتا ہے مگر اُف میرے مالک جب دینے کی بات آتی ہے تو
کراچی اور اس کےعوام صرف دور سے ہی اپنی باری کے انتظار میں رہ جاتےہین کیونکہ حضور اعلیٰ جس کی سرکار اس ہی کا
راج یعنی جس شہر کے سیاستدان حکومت میں ہونگے وہیں کے عوام سکھی رییں گے ۔کچھ سال پہلے جب پی پی پی
کی حکومت آئی تو تھوڑی خوشی محسوس ہوئی لگا شاید اب کراچی کی قسمت جاگے گی کیونکہ پی پی پی کا مرکز تو سندھ
ہے مگر ہائے یہ دنیا اور ہماری قسمت ہم بھول ہی گے تھے کہ سندھ میں کراچی کا وہ ہی حال ہے جوUNO میں کشمیر
کا جس کو اھم مسئلہ بنا کر کانفرنسین تو بہت بار ہوئیں مگر فیصلہ ہمیشہ کشمیریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے یا
ہوتا ہی نہیں لہذا پی پی پی تو سندھ کی جماعت ہے اور کراچی بیچارہ لاورث۔ اب نواز شریف سے کیا گلہ کریں وہ
ٹھہرے پردیسی شہر کے مالک وہیں کا سوچیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد کو ایسا سنوارا اور صاف کیا کہ دیکھ کے لگتا
ہے یورپ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ خیر کسی شہر کا تو ان سیاستدانوں نے بھلا کیا ۔
پھر حکومت میں آئے آ پ کے اور ہمارے ہر دل عزیز عمران خان۔۔ سب کی جان۔۔ مگر افسوس کراچی کا دورہ کرنے سے
ہی ان کو دورے پڑتے ہیں اور نہ کرنے سے عوام کو دورے پڑتے ہیں اب اس مشکل وقت میں بھی اس غریب عوام کا
کون ہے ۔اس لاک ڈاؤن میں بھی ہر دکان دار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام لگا رہا ہے کیونکہ ان کو پوچھنے والا
کوئی نہیں ہے اس دور میں جہاں پوری دنیا کی حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دیے رہی ہیں وہین ہمارے ملک میں ہر چیز
کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے دکاندار اپنی مرضی سے آٹے کی فی کلو قیمت 50 روپے سے 60.روپئے . . مونگ کی دال کی قیمت
225 سے 250 روپے فی کلو،مسور کی دال 150سے 160 روپے فی کلو کردی گئی ہیں یہی حال ہر ضروری شے کا ہے ۔
حکومت کے منع کرنے کے باوجود کوئی پروا نہیں ہے نہ پہلے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی اب پوچھنے والا ہے
حکومت ایسے دکانداروں کو پکڑنے کی بڑی بڑی دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لے رہی ۔ قیمت
چیک کرنے کے لیے حکومت کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ کراچی کے بڑے اور نامور جنرل اسٹور کی ہی بڑھائی
ہوئی قیمتیں ہیں جن کو با آسانی چیک کیا جا سکتا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کو پکڑا جا سکتا ہے ۔
صنعتی شعبے میں دیکھیں تو کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو پچھلے دو مہینوں سے تنخواہ
نہیں ملی کیونکہ کارخانے ہی بند پڑے ہیں اور مالکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں تو مزدوروں کو کیا تنخواہ
دیں ۔یہاں بھی حکومت بے بس ہے یا بے پروا اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔اسکولوں کی بات کی جائے تو حکومت
کے مطابق تمام پرائیوٹ اسکول فیسوں کا 20 فی صد حصہ معاف کریں گے کیونکہ شہر لاک ڈاؤن میں ہے یہ فیصلہ سنتے ہی
پرائیو ٹ اسکولوں نے میڈیا پر آکر فوراً اس کی حامی بھرلی مگر حقیقت اس سے بالکل الگ ہے فیسوں میں کوئی کمی نہیں
کی جارہی کیونکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق ان کو ٹیچرزاور اسکول انتظامیہ کو بھی تنخواہ دینی ہیں ۔یہاں بھی حکومت کی
طرف سےکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اب بیچاری حکومت کو کیا اور کتنا بولا جاۓ عمران خان صاحب کا تعلق تو خیبر
پختون خواہ سے ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کارخانے والے،اسکول والے اور اسٹور والوں کا تعلق تو
کراچی سے ہے وہ کہتے ہیں نہ کے۔۔ اپنے ہی گر ا تے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے کچھ نامی گرامی
ہسپتال والے ڈاکٹروں کی فیس کا آدھا حصہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ اس پورے عرصے میں مریض کم آ ۓ ہیں اور
ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو انکی پوری تنخواہ دے سکیں یہ سب اگر حکومت چاہے
تو باآسانی نوٹس میں لا سکتی ہے مگر سارا مسئلہ دلچسپی کا ہے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کراچی کے مسائل اور ان کے حل میں۔
خیر اب کراچی میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے کام آرہے ہیں ۔بہت سی تنظیمیں
کراچی میں ہیں جو لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔اس دورمیں بھی ان لوگوں نے ٹھان لیا ہے ۔
کراچی کو زندہ رکھنے کا ورنہ تو ہمارے ملک کے سیاستدان سواۓ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کچھ نہیں کر
سکتے ۔یہ تنظیمیں دن رات راشن جمع کرکے انکے پیکیٹ بنا کر اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا خیال رکھتے ہوے صبح چار
بجے سے صبح اٹھ بجے تک غریب لوگوں کے گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرتے ہیں ۔ان کے اس عظیم کام میں اور بھی
لوگ رضاکارانہ طور پر مدد کررہے ہیں کچھ پیسوں سے تو کچھ لوگ رضاکار کے طور پر کام کررہے ہیِ۔ لوگ بھی دل
کھول کر عطیات دے رہے ہیں اللہ ان کے ان اعمال کو قبول فرمائے۔وہین دوسری طرف وزیرےاعلی سندھ
وزیراعظم پر اور وزیراعظم وزیرے اعلی پر الزام لگا رہے ہیں ۔ وزیراعلی سندھ نے ایک بہت اچھی بات کی ہےکہ
“معیشت،کھیتی باڈی اور مالی نقصان تو بحال کیا جاسکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی نعم البدل نہیں “
مگر اب تک اس بات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں ۔اب تو نوبت یہ ہے کہ غیر سیاسی تنظیمیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے
لیے محنت کر رہی ہیں ان کو بھی اس کام سے روکا جارہا ہے اور ڈرایا جارہا ہے کہ وہ پہلے کسی سیاسی پارٹی میں
شمولیت کا اعلان کریں اور پھر کام کریں۔اس مشکل وقت میں جہاں ہر ملک کے سیاستدان اور وہاں کی تنظیمیں ایک
ہوکر لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں وہین ہمارے سیاستدان اس میں بھی اپنا الگ ہی نام بنا نے کی کوشش میں ہیں ۔
میری درخواست ہے کہ رحم کریں اور آج کے اس کورونا دور میں ایک ہو کر کراچی کے عوام کا سوچیں جو ہمیشہ
پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر رکھتے ہین۔۔ چاہے وہ کسی بھی شہر،مذہب اور فرقے کا ہو۔
تیری بے رخی میں بھی جاناں۔۔۔
میری بے بسی کا سایا ہے۔۔۔۔
میں تو ایسے ویران ہوا ہوں جیسے۔۔۔
یہ شہر میرا نہیٰ پرایا ہے۔
ہمارے ملک (پاکستان ) کا بھی الگ دستور ہے۔یوں تو پاکستان ہماری ماں ہے اور ہر ماں کواپنے سارے ہی بچوں
سے بہت محبت ہوتی ہے مگر ان سب میں اس بچے سے تھوڑی زیادہ محبت ہوتی ہے جو ماں کا خیال رکھتا ہے اور وقت
پڑنے پر اس کے ساتھ رہتا ہے مگر دوسری ماوں کی طرح اس ماں کا دستور تھوڑا الگ ہے۔یوں تو کراچی ،اسلام آباد
لاہور ،حیدرآباد اور دوسرے تمام شہر اس ملک کا ہی حصہ ہیں مگر کراچی کو پاکستان کا دل اور معاشی انجن کہا جاتا ہے۔اس کے باوجود اس کی حالت یتیم کی سی ہے۔جہاں کے عوام شروع دن سے ہی ہر چیز کے ہوتے ہوۓ بھی ہر چیز کو ترستے رہے ہین۔
یہاں کے عوام کا بھی کیا ہی کہنا۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے ۔جن کا خیال
رکھنے کا ذمہ سیاسی پارٹی کے لیڈ ر خود لیتے ہیں ۔یہ ملک کا تو سو چتے نہیں ان لوگوں سے سیاستدان صرف اپنے کام ہی
کرواتے ہیں، مثلاً الیکشن سے پہلے دوسرے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر جلسوں میں لانا اور بیچارے غریب
لوگوں کو مجبور کرنا تاکہ ان کے جلسے کامیاب ہو جائیں اور ان کو بدلے میں وؤٹ ملیں اگر آرام سے ملے تو ٹھیک نہیں
تو ان کو تھوڑے پیسے دیے دیں گے اگر نہ بھی ملے تو ان کے چیلے جعلی ووٹ تو ڈالوا ہی دیں گے اور ایک عوام وہ
ہیں جن کا کسی سیاست یا سیاستدان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس دو وقت کی روٹی اور رہنے کو سر پر چھت
چاہیےجو ہر روز گھر سے نکلتے ہیں اپنے بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے تاکہ اپنے گھر والوں کو پال سکیں۔ آج کے
اس مشکل دور میں بھی جہاں کورونہ کی وجہ سے سب کو اپنی ہی زندگی اور معاشی حالات کی پڑی ہے مگر نہیں پڑی
تو کراچی کے عوام کی نہیں پڑی۔
کراچی کے وہ لوگ جو روز مرہ کے حساب سے کماتے ہیں بہت پریشان ہیں۔ جو سب کچھ بند ہوجانے کے
بعد اپنے گھروں میں زند گی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہنے کو تو ہر کوئی مدد کے لیے تیار گھر کے باہر کھڑا مگر صرف زبانی عملی
نہیں ۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا اشارہ حکومت اور دوسرے امیر ملکوں کی طرف ہے جو کہنے کو تو کروڑوں اور
ا ربوں کی امداد کی بات کر رہے ہیں مگر دینے کو کچھ بھی نہیں سب زبانی جملے بازی ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو
امتحان میں فیل ہو جانے کے بعد اپنے ابو کی تعریف کرتا ہے تاکہ جوتے نہ پڑیں ۔اس ہی طرح کی ہزاروں باتیں جو اج
کل ہمارے وزیراعظم کررہےہیں ۔ٹائیگر فورس اور حکومتی امداد کا اعلان جو سننے میں تو بہت خوشی دیتا ہے جیسے
بارش کے بعد قوس و قزح کا منظر مگر عملی طور پر تو صرف دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔کراچی کے غریب عوام کی حالت
بھی کچھ یہی ہے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے امداد کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر اصلی منظر اس کے برعکس ہے ۔
کراچی کے غریب عوام اب اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں ۔۔ کورونہ سے نہیں بھوک سے ۔
وقت گواہ ہے کہ ملک میں جب جب معیشت کی ترقی کی بات آتی ہے تو کراچی کے ہی عوام کام آتے ہیں۔
ملک کی معیشت کا اچھا خاصہ حصہ یہاں سے ہی ملتا ہے مگر اُف میرے مالک جب دینے کی بات آتی ہے تو
کراچی اور اس کےعوام صرف دور سے ہی اپنی باری کے انتظار میں رہ جاتےہین کیونکہ حضور اعلیٰ جس کی سرکار اس ہی کا
راج یعنی جس شہر کے سیاستدان حکومت میں ہونگے وہیں کے عوام سکھی رییں گے ۔کچھ سال پہلے جب پی پی پی
کی حکومت آئی تو تھوڑی خوشی محسوس ہوئی لگا شاید اب کراچی کی قسمت جاگے گی کیونکہ پی پی پی کا مرکز تو سندھ
ہے مگر ہائے یہ دنیا اور ہماری قسمت ہم بھول ہی گے تھے کہ سندھ میں کراچی کا وہ ہی حال ہے جوUNO میں کشمیر
کا جس کو اھم مسئلہ بنا کر کانفرنسین تو بہت بار ہوئیں مگر فیصلہ ہمیشہ کشمیریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے یا
ہوتا ہی نہیں لہذا پی پی پی تو سندھ کی جماعت ہے اور کراچی بیچارہ لاورث۔ اب نواز شریف سے کیا گلہ کریں وہ
ٹھہرے پردیسی شہر کے مالک وہیں کا سوچیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد کو ایسا سنوارا اور صاف کیا کہ دیکھ کے لگتا
ہے یورپ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ خیر کسی شہر کا تو ان سیاستدانوں نے بھلا کیا ۔
پھر حکومت میں آئے آ پ کے اور ہمارے ہر دل عزیز عمران خان۔۔ سب کی جان۔۔ مگر افسوس کراچی کا دورہ کرنے سے
ہی ان کو دورے پڑتے ہیں اور نہ کرنے سے عوام کو دورے پڑتے ہیں اب اس مشکل وقت میں بھی اس غریب عوام کا
کون ہے ۔اس لاک ڈاؤن میں بھی ہر دکان دار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام لگا رہا ہے کیونکہ ان کو پوچھنے والا
کوئی نہیں ہے اس دور میں جہاں پوری دنیا کی حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دیے رہی ہیں وہین ہمارے ملک میں ہر چیز
کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے دکاندار اپنی مرضی سے آٹے کی فی کلو قیمت 50 روپے سے 60.روپئے . . مونگ کی دال کی قیمت
225 سے 250 روپے فی کلو،مسور کی دال 150سے 160 روپے فی کلو کردی گئی ہیں یہی حال ہر ضروری شے کا ہے ۔
حکومت کے منع کرنے کے باوجود کوئی پروا نہیں ہے نہ پہلے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی اب پوچھنے والا ہے
حکومت ایسے دکانداروں کو پکڑنے کی بڑی بڑی دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لے رہی ۔ قیمت
چیک کرنے کے لیے حکومت کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ کراچی کے بڑے اور نامور جنرل اسٹور کی ہی بڑھائی
ہوئی قیمتیں ہیں جن کو با آسانی چیک کیا جا سکتا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کو پکڑا جا سکتا ہے ۔
صنعتی شعبے میں دیکھیں تو کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو پچھلے دو مہینوں سے تنخواہ
نہیں ملی کیونکہ کارخانے ہی بند پڑے ہیں اور مالکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں تو مزدوروں کو کیا تنخواہ
دیں ۔یہاں بھی حکومت بے بس ہے یا بے پروا اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔اسکولوں کی بات کی جائے تو حکومت
کے مطابق تمام پرائیوٹ اسکول فیسوں کا 20 فی صد حصہ معاف کریں گے کیونکہ شہر لاک ڈاؤن میں ہے یہ فیصلہ سنتے ہی
پرائیو ٹ اسکولوں نے میڈیا پر آکر فوراً اس کی حامی بھرلی مگر حقیقت اس سے بالکل الگ ہے فیسوں میں کوئی کمی نہیں
کی جارہی کیونکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق ان کو ٹیچرزاور اسکول انتظامیہ کو بھی تنخواہ دینی ہیں ۔یہاں بھی حکومت کی
طرف سےکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اب بیچاری حکومت کو کیا اور کتنا بولا جاۓ عمران خان صاحب کا تعلق تو خیبر
پختون خواہ سے ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کارخانے والے،اسکول والے اور اسٹور والوں کا تعلق تو
کراچی سے ہے وہ کہتے ہیں نہ کے۔۔ اپنے ہی گر ا تے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے کچھ نامی گرامی
ہسپتال والے ڈاکٹروں کی فیس کا آدھا حصہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ اس پورے عرصے میں مریض کم آ ۓ ہیں اور
ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو انکی پوری تنخواہ دے سکیں یہ سب اگر حکومت چاہے
تو باآسانی نوٹس میں لا سکتی ہے مگر سارا مسئلہ دلچسپی کا ہے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کراچی کے مسائل اور ان کے حل میں۔
خیر اب کراچی میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے کام آرہے ہیں ۔بہت سی تنظیمیں
کراچی میں ہیں جو لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔اس دورمیں بھی ان لوگوں نے ٹھان لیا ہے ۔
کراچی کو زندہ رکھنے کا ورنہ تو ہمارے ملک کے سیاستدان سواۓ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کچھ نہیں کر
سکتے ۔یہ تنظیمیں دن رات راشن جمع کرکے انکے پیکیٹ بنا کر اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا خیال رکھتے ہوے صبح چار
بجے سے صبح اٹھ بجے تک غریب لوگوں کے گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرتے ہیں ۔ان کے اس عظیم کام میں اور بھی
لوگ رضاکارانہ طور پر مدد کررہے ہیں کچھ پیسوں سے تو کچھ لوگ رضاکار کے طور پر کام کررہے ہیِ۔ لوگ بھی دل
کھول کر عطیات دے رہے ہیں اللہ ان کے ان اعمال کو قبول فرمائے۔وہین دوسری طرف وزیرےاعلی سندھ
وزیراعظم پر اور وزیراعظم وزیرے اعلی پر الزام لگا رہے ہیں ۔ وزیراعلی سندھ نے ایک بہت اچھی بات کی ہےکہ
“معیشت،کھیتی باڈی اور مالی نقصان تو بحال کیا جاسکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی نعم البدل نہیں “
مگر اب تک اس بات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں ۔اب تو نوبت یہ ہے کہ غیر سیاسی تنظیمیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے
لیے محنت کر رہی ہیں ان کو بھی اس کام سے روکا جارہا ہے اور ڈرایا جارہا ہے کہ وہ پہلے کسی سیاسی پارٹی میں
شمولیت کا اعلان کریں اور پھر کام کریں۔اس مشکل وقت میں جہاں ہر ملک کے سیاستدان اور وہاں کی تنظیمیں ایک
ہوکر لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں وہین ہمارے سیاستدان اس میں بھی اپنا الگ ہی نام بنا نے کی کوشش میں ہیں ۔
میری درخواست ہے کہ رحم کریں اور آج کے اس کورونا دور میں ایک ہو کر کراچی کے عوام کا سوچیں جو ہمیشہ
پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر رکھتے ہین۔۔ چاہے وہ کسی بھی شہر،مذہب اور فرقے کا ہو۔
تیری بے رخی میں بھی جاناں۔۔۔
میری بے بسی کا سایا ہے۔۔۔۔
میں تو ایسے ویران ہوا ہوں جیسے۔۔۔
یہ شہر میرا نہیٰ پرایا ہے۔
ہمارے ملک (پاکستان ) کا بھی الگ دستور ہے۔یوں تو پاکستان ہماری ماں ہے اور ہر ماں کواپنے سارے ہی بچوں
سے بہت محبت ہوتی ہے مگر ان سب میں اس بچے سے تھوڑی زیادہ محبت ہوتی ہے جو ماں کا خیال رکھتا ہے اور وقت
پڑنے پر اس کے ساتھ رہتا ہے مگر دوسری ماوں کی طرح اس ماں کا دستور تھوڑا الگ ہے۔یوں تو کراچی ،اسلام آباد
لاہور ،حیدرآباد اور دوسرے تمام شہر اس ملک کا ہی حصہ ہیں مگر کراچی کو پاکستان کا دل اور معاشی انجن کہا جاتا ہے۔اس کے باوجود اس کی حالت یتیم کی سی ہے۔جہاں کے عوام شروع دن سے ہی ہر چیز کے ہوتے ہوۓ بھی ہر چیز کو ترستے رہے ہین۔
یہاں کے عوام کا بھی کیا ہی کہنا۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے ۔جن کا خیال
رکھنے کا ذمہ سیاسی پارٹی کے لیڈ ر خود لیتے ہیں ۔یہ ملک کا تو سو چتے نہیں ان لوگوں سے سیاستدان صرف اپنے کام ہی
کرواتے ہیں، مثلاً الیکشن سے پہلے دوسرے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر جلسوں میں لانا اور بیچارے غریب
لوگوں کو مجبور کرنا تاکہ ان کے جلسے کامیاب ہو جائیں اور ان کو بدلے میں وؤٹ ملیں اگر آرام سے ملے تو ٹھیک نہیں
تو ان کو تھوڑے پیسے دیے دیں گے اگر نہ بھی ملے تو ان کے چیلے جعلی ووٹ تو ڈالوا ہی دیں گے اور ایک عوام وہ
ہیں جن کا کسی سیاست یا سیاستدان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس دو وقت کی روٹی اور رہنے کو سر پر چھت
چاہیےجو ہر روز گھر سے نکلتے ہیں اپنے بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے تاکہ اپنے گھر والوں کو پال سکیں۔ آج کے
اس مشکل دور میں بھی جہاں کورونہ کی وجہ سے سب کو اپنی ہی زندگی اور معاشی حالات کی پڑی ہے مگر نہیں پڑی
تو کراچی کے عوام کی نہیں پڑی۔
کراچی کے وہ لوگ جو روز مرہ کے حساب سے کماتے ہیں بہت پریشان ہیں۔ جو سب کچھ بند ہوجانے کے
بعد اپنے گھروں میں زند گی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہنے کو تو ہر کوئی مدد کے لیے تیار گھر کے باہر کھڑا مگر صرف زبانی عملی
نہیں ۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا اشارہ حکومت اور دوسرے امیر ملکوں کی طرف ہے جو کہنے کو تو کروڑوں اور
ا ربوں کی امداد کی بات کر رہے ہیں مگر دینے کو کچھ بھی نہیں سب زبانی جملے بازی ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو
امتحان میں فیل ہو جانے کے بعد اپنے ابو کی تعریف کرتا ہے تاکہ جوتے نہ پڑیں ۔اس ہی طرح کی ہزاروں باتیں جو اج
کل ہمارے وزیراعظم کررہےہیں ۔ٹائیگر فورس اور حکومتی امداد کا اعلان جو سننے میں تو بہت خوشی دیتا ہے جیسے
بارش کے بعد قوس و قزح کا منظر مگر عملی طور پر تو صرف دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔کراچی کے غریب عوام کی حالت
بھی کچھ یہی ہے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے امداد کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر اصلی منظر اس کے برعکس ہے ۔
کراچی کے غریب عوام اب اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں ۔۔ کورونہ سے نہیں بھوک سے ۔
وقت گواہ ہے کہ ملک میں جب جب معیشت کی ترقی کی بات آتی ہے تو کراچی کے ہی عوام کام آتے ہیں۔
ملک کی معیشت کا اچھا خاصہ حصہ یہاں سے ہی ملتا ہے مگر اُف میرے مالک جب دینے کی بات آتی ہے تو
کراچی اور اس کےعوام صرف دور سے ہی اپنی باری کے انتظار میں رہ جاتےہین کیونکہ حضور اعلیٰ جس کی سرکار اس ہی کا
راج یعنی جس شہر کے سیاستدان حکومت میں ہونگے وہیں کے عوام سکھی رییں گے ۔کچھ سال پہلے جب پی پی پی
کی حکومت آئی تو تھوڑی خوشی محسوس ہوئی لگا شاید اب کراچی کی قسمت جاگے گی کیونکہ پی پی پی کا مرکز تو سندھ
ہے مگر ہائے یہ دنیا اور ہماری قسمت ہم بھول ہی گے تھے کہ سندھ میں کراچی کا وہ ہی حال ہے جوUNO میں کشمیر
کا جس کو اھم مسئلہ بنا کر کانفرنسین تو بہت بار ہوئیں مگر فیصلہ ہمیشہ کشمیریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے یا
ہوتا ہی نہیں لہذا پی پی پی تو سندھ کی جماعت ہے اور کراچی بیچارہ لاورث۔ اب نواز شریف سے کیا گلہ کریں وہ
ٹھہرے پردیسی شہر کے مالک وہیں کا سوچیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد کو ایسا سنوارا اور صاف کیا کہ دیکھ کے لگتا
ہے یورپ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ خیر کسی شہر کا تو ان سیاستدانوں نے بھلا کیا ۔
پھر حکومت میں آئے آ پ کے اور ہمارے ہر دل عزیز عمران خان۔۔ سب کی جان۔۔ مگر افسوس کراچی کا دورہ کرنے سے
ہی ان کو دورے پڑتے ہیں اور نہ کرنے سے عوام کو دورے پڑتے ہیں اب اس مشکل وقت میں بھی اس غریب عوام کا
کون ہے ۔اس لاک ڈاؤن میں بھی ہر دکان دار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام لگا رہا ہے کیونکہ ان کو پوچھنے والا
کوئی نہیں ہے اس دور میں جہاں پوری دنیا کی حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دیے رہی ہیں وہین ہمارے ملک میں ہر چیز
کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے دکاندار اپنی مرضی سے آٹے کی فی کلو قیمت 50 روپے سے 60.روپئے . . مونگ کی دال کی قیمت
225 سے 250 روپے فی کلو،مسور کی دال 150سے 160 روپے فی کلو کردی گئی ہیں یہی حال ہر ضروری شے کا ہے ۔
حکومت کے منع کرنے کے باوجود کوئی پروا نہیں ہے نہ پہلے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی اب پوچھنے والا ہے
حکومت ایسے دکانداروں کو پکڑنے کی بڑی بڑی دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لے رہی ۔ قیمت
چیک کرنے کے لیے حکومت کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ کراچی کے بڑے اور نامور جنرل اسٹور کی ہی بڑھائی
ہوئی قیمتیں ہیں جن کو با آسانی چیک کیا جا سکتا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کو پکڑا جا سکتا ہے ۔
صنعتی شعبے میں دیکھیں تو کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو پچھلے دو مہینوں سے تنخواہ
نہیں ملی کیونکہ کارخانے ہی بند پڑے ہیں اور مالکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں تو مزدوروں کو کیا تنخواہ
دیں ۔یہاں بھی حکومت بے بس ہے یا بے پروا اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔اسکولوں کی بات کی جائے تو حکومت
کے مطابق تمام پرائیوٹ اسکول فیسوں کا 20 فی صد حصہ معاف کریں گے کیونکہ شہر لاک ڈاؤن میں ہے یہ فیصلہ سنتے ہی
پرائیو ٹ اسکولوں نے میڈیا پر آکر فوراً اس کی حامی بھرلی مگر حقیقت اس سے بالکل الگ ہے فیسوں میں کوئی کمی نہیں
کی جارہی کیونکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق ان کو ٹیچرزاور اسکول انتظامیہ کو بھی تنخواہ دینی ہیں ۔یہاں بھی حکومت کی
طرف سےکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اب بیچاری حکومت کو کیا اور کتنا بولا جاۓ عمران خان صاحب کا تعلق تو خیبر
پختون خواہ سے ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کارخانے والے،اسکول والے اور اسٹور والوں کا تعلق تو
کراچی سے ہے وہ کہتے ہیں نہ کے۔۔ اپنے ہی گر ا تے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے کچھ نامی گرامی
ہسپتال والے ڈاکٹروں کی فیس کا آدھا حصہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ اس پورے عرصے میں مریض کم آ ۓ ہیں اور
ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو انکی پوری تنخواہ دے سکیں یہ سب اگر حکومت چاہے
تو باآسانی نوٹس میں لا سکتی ہے مگر سارا مسئلہ دلچسپی کا ہے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کراچی کے مسائل اور ان کے حل میں۔
خیر اب کراچی میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے کام آرہے ہیں ۔بہت سی تنظیمیں
کراچی میں ہیں جو لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔اس دورمیں بھی ان لوگوں نے ٹھان لیا ہے ۔
کراچی کو زندہ رکھنے کا ورنہ تو ہمارے ملک کے سیاستدان سواۓ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کچھ نہیں کر
سکتے ۔یہ تنظیمیں دن رات راشن جمع کرکے انکے پیکیٹ بنا کر اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا خیال رکھتے ہوے صبح چار
بجے سے صبح اٹھ بجے تک غریب لوگوں کے گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرتے ہیں ۔ان کے اس عظیم کام میں اور بھی
لوگ رضاکارانہ طور پر مدد کررہے ہیں کچھ پیسوں سے تو کچھ لوگ رضاکار کے طور پر کام کررہے ہیِ۔ لوگ بھی دل
کھول کر عطیات دے رہے ہیں اللہ ان کے ان اعمال کو قبول فرمائے۔وہین دوسری طرف وزیرےاعلی سندھ
وزیراعظم پر اور وزیراعظم وزیرے اعلی پر الزام لگا رہے ہیں ۔ وزیراعلی سندھ نے ایک بہت اچھی بات کی ہےکہ
“معیشت،کھیتی باڈی اور مالی نقصان تو بحال کیا جاسکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی نعم البدل نہیں “
مگر اب تک اس بات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں ۔اب تو نوبت یہ ہے کہ غیر سیاسی تنظیمیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے
لیے محنت کر رہی ہیں ان کو بھی اس کام سے روکا جارہا ہے اور ڈرایا جارہا ہے کہ وہ پہلے کسی سیاسی پارٹی میں
شمولیت کا اعلان کریں اور پھر کام کریں۔اس مشکل وقت میں جہاں ہر ملک کے سیاستدان اور وہاں کی تنظیمیں ایک
ہوکر لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں وہین ہمارے سیاستدان اس میں بھی اپنا الگ ہی نام بنا نے کی کوشش میں ہیں ۔
میری درخواست ہے کہ رحم کریں اور آج کے اس کورونا دور میں ایک ہو کر کراچی کے عوام کا سوچیں جو ہمیشہ
پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر رکھتے ہین۔۔ چاہے وہ کسی بھی شہر،مذہب اور فرقے کا ہو۔
تیری بے رخی میں بھی جاناں۔۔۔
میری بے بسی کا سایا ہے۔۔۔۔
میں تو ایسے ویران ہوا ہوں جیسے۔۔۔
یہ شہر میرا نہیٰ پرایا ہے۔
ہمارے ملک (پاکستان ) کا بھی الگ دستور ہے۔یوں تو پاکستان ہماری ماں ہے اور ہر ماں کواپنے سارے ہی بچوں
سے بہت محبت ہوتی ہے مگر ان سب میں اس بچے سے تھوڑی زیادہ محبت ہوتی ہے جو ماں کا خیال رکھتا ہے اور وقت
پڑنے پر اس کے ساتھ رہتا ہے مگر دوسری ماوں کی طرح اس ماں کا دستور تھوڑا الگ ہے۔یوں تو کراچی ،اسلام آباد
لاہور ،حیدرآباد اور دوسرے تمام شہر اس ملک کا ہی حصہ ہیں مگر کراچی کو پاکستان کا دل اور معاشی انجن کہا جاتا ہے۔اس کے باوجود اس کی حالت یتیم کی سی ہے۔جہاں کے عوام شروع دن سے ہی ہر چیز کے ہوتے ہوۓ بھی ہر چیز کو ترستے رہے ہین۔
یہاں کے عوام کا بھی کیا ہی کہنا۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے ۔جن کا خیال
رکھنے کا ذمہ سیاسی پارٹی کے لیڈ ر خود لیتے ہیں ۔یہ ملک کا تو سو چتے نہیں ان لوگوں سے سیاستدان صرف اپنے کام ہی
کرواتے ہیں، مثلاً الیکشن سے پہلے دوسرے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر جلسوں میں لانا اور بیچارے غریب
لوگوں کو مجبور کرنا تاکہ ان کے جلسے کامیاب ہو جائیں اور ان کو بدلے میں وؤٹ ملیں اگر آرام سے ملے تو ٹھیک نہیں
تو ان کو تھوڑے پیسے دیے دیں گے اگر نہ بھی ملے تو ان کے چیلے جعلی ووٹ تو ڈالوا ہی دیں گے اور ایک عوام وہ
ہیں جن کا کسی سیاست یا سیاستدان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس دو وقت کی روٹی اور رہنے کو سر پر چھت
چاہیےجو ہر روز گھر سے نکلتے ہیں اپنے بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے تاکہ اپنے گھر والوں کو پال سکیں۔ آج کے
اس مشکل دور میں بھی جہاں کورونہ کی وجہ سے سب کو اپنی ہی زندگی اور معاشی حالات کی پڑی ہے مگر نہیں پڑی
تو کراچی کے عوام کی نہیں پڑی۔
کراچی کے وہ لوگ جو روز مرہ کے حساب سے کماتے ہیں بہت پریشان ہیں۔ جو سب کچھ بند ہوجانے کے
بعد اپنے گھروں میں زند گی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہنے کو تو ہر کوئی مدد کے لیے تیار گھر کے باہر کھڑا مگر صرف زبانی عملی
نہیں ۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا اشارہ حکومت اور دوسرے امیر ملکوں کی طرف ہے جو کہنے کو تو کروڑوں اور
ا ربوں کی امداد کی بات کر رہے ہیں مگر دینے کو کچھ بھی نہیں سب زبانی جملے بازی ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو
امتحان میں فیل ہو جانے کے بعد اپنے ابو کی تعریف کرتا ہے تاکہ جوتے نہ پڑیں ۔اس ہی طرح کی ہزاروں باتیں جو اج
کل ہمارے وزیراعظم کررہےہیں ۔ٹائیگر فورس اور حکومتی امداد کا اعلان جو سننے میں تو بہت خوشی دیتا ہے جیسے
بارش کے بعد قوس و قزح کا منظر مگر عملی طور پر تو صرف دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔کراچی کے غریب عوام کی حالت
بھی کچھ یہی ہے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے امداد کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر اصلی منظر اس کے برعکس ہے ۔
کراچی کے غریب عوام اب اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں ۔۔ کورونہ سے نہیں بھوک سے ۔
وقت گواہ ہے کہ ملک میں جب جب معیشت کی ترقی کی بات آتی ہے تو کراچی کے ہی عوام کام آتے ہیں۔
ملک کی معیشت کا اچھا خاصہ حصہ یہاں سے ہی ملتا ہے مگر اُف میرے مالک جب دینے کی بات آتی ہے تو
کراچی اور اس کےعوام صرف دور سے ہی اپنی باری کے انتظار میں رہ جاتےہین کیونکہ حضور اعلیٰ جس کی سرکار اس ہی کا
راج یعنی جس شہر کے سیاستدان حکومت میں ہونگے وہیں کے عوام سکھی رییں گے ۔کچھ سال پہلے جب پی پی پی
کی حکومت آئی تو تھوڑی خوشی محسوس ہوئی لگا شاید اب کراچی کی قسمت جاگے گی کیونکہ پی پی پی کا مرکز تو سندھ
ہے مگر ہائے یہ دنیا اور ہماری قسمت ہم بھول ہی گے تھے کہ سندھ میں کراچی کا وہ ہی حال ہے جوUNO میں کشمیر
کا جس کو اھم مسئلہ بنا کر کانفرنسین تو بہت بار ہوئیں مگر فیصلہ ہمیشہ کشمیریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے یا
ہوتا ہی نہیں لہذا پی پی پی تو سندھ کی جماعت ہے اور کراچی بیچارہ لاورث۔ اب نواز شریف سے کیا گلہ کریں وہ
ٹھہرے پردیسی شہر کے مالک وہیں کا سوچیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد کو ایسا سنوارا اور صاف کیا کہ دیکھ کے لگتا
ہے یورپ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ خیر کسی شہر کا تو ان سیاستدانوں نے بھلا کیا ۔
پھر حکومت میں آئے آ پ کے اور ہمارے ہر دل عزیز عمران خان۔۔ سب کی جان۔۔ مگر افسوس کراچی کا دورہ کرنے سے
ہی ان کو دورے پڑتے ہیں اور نہ کرنے سے عوام کو دورے پڑتے ہیں اب اس مشکل وقت میں بھی اس غریب عوام کا
کون ہے ۔اس لاک ڈاؤن میں بھی ہر دکان دار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام لگا رہا ہے کیونکہ ان کو پوچھنے والا
کوئی نہیں ہے اس دور میں جہاں پوری دنیا کی حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دیے رہی ہیں وہین ہمارے ملک میں ہر چیز
کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے دکاندار اپنی مرضی سے آٹے کی فی کلو قیمت 50 روپے سے 60.روپئے . . مونگ کی دال کی قیمت
225 سے 250 روپے فی کلو،مسور کی دال 150سے 160 روپے فی کلو کردی گئی ہیں یہی حال ہر ضروری شے کا ہے ۔
حکومت کے منع کرنے کے باوجود کوئی پروا نہیں ہے نہ پہلے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی اب پوچھنے والا ہے
حکومت ایسے دکانداروں کو پکڑنے کی بڑی بڑی دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لے رہی ۔ قیمت
چیک کرنے کے لیے حکومت کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ کراچی کے بڑے اور نامور جنرل اسٹور کی ہی بڑھائی
ہوئی قیمتیں ہیں جن کو با آسانی چیک کیا جا سکتا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کو پکڑا جا سکتا ہے ۔
صنعتی شعبے میں دیکھیں تو کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو پچھلے دو مہینوں سے تنخواہ
نہیں ملی کیونکہ کارخانے ہی بند پڑے ہیں اور مالکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں تو مزدوروں کو کیا تنخواہ
دیں ۔یہاں بھی حکومت بے بس ہے یا بے پروا اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔اسکولوں کی بات کی جائے تو حکومت
کے مطابق تمام پرائیوٹ اسکول فیسوں کا 20 فی صد حصہ معاف کریں گے کیونکہ شہر لاک ڈاؤن میں ہے یہ فیصلہ سنتے ہی
پرائیو ٹ اسکولوں نے میڈیا پر آکر فوراً اس کی حامی بھرلی مگر حقیقت اس سے بالکل الگ ہے فیسوں میں کوئی کمی نہیں
کی جارہی کیونکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق ان کو ٹیچرزاور اسکول انتظامیہ کو بھی تنخواہ دینی ہیں ۔یہاں بھی حکومت کی
طرف سےکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اب بیچاری حکومت کو کیا اور کتنا بولا جاۓ عمران خان صاحب کا تعلق تو خیبر
پختون خواہ سے ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کارخانے والے،اسکول والے اور اسٹور والوں کا تعلق تو
کراچی سے ہے وہ کہتے ہیں نہ کے۔۔ اپنے ہی گر ا تے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے کچھ نامی گرامی
ہسپتال والے ڈاکٹروں کی فیس کا آدھا حصہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ اس پورے عرصے میں مریض کم آ ۓ ہیں اور
ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو انکی پوری تنخواہ دے سکیں یہ سب اگر حکومت چاہے
تو باآسانی نوٹس میں لا سکتی ہے مگر سارا مسئلہ دلچسپی کا ہے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کراچی کے مسائل اور ان کے حل میں۔
خیر اب کراچی میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے کام آرہے ہیں ۔بہت سی تنظیمیں
کراچی میں ہیں جو لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔اس دورمیں بھی ان لوگوں نے ٹھان لیا ہے ۔
کراچی کو زندہ رکھنے کا ورنہ تو ہمارے ملک کے سیاستدان سواۓ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کچھ نہیں کر
سکتے ۔یہ تنظیمیں دن رات راشن جمع کرکے انکے پیکیٹ بنا کر اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا خیال رکھتے ہوے صبح چار
بجے سے صبح اٹھ بجے تک غریب لوگوں کے گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرتے ہیں ۔ان کے اس عظیم کام میں اور بھی
لوگ رضاکارانہ طور پر مدد کررہے ہیں کچھ پیسوں سے تو کچھ لوگ رضاکار کے طور پر کام کررہے ہیِ۔ لوگ بھی دل
کھول کر عطیات دے رہے ہیں اللہ ان کے ان اعمال کو قبول فرمائے۔وہین دوسری طرف وزیرےاعلی سندھ
وزیراعظم پر اور وزیراعظم وزیرے اعلی پر الزام لگا رہے ہیں ۔ وزیراعلی سندھ نے ایک بہت اچھی بات کی ہےکہ
“معیشت،کھیتی باڈی اور مالی نقصان تو بحال کیا جاسکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی نعم البدل نہیں “
مگر اب تک اس بات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں ۔اب تو نوبت یہ ہے کہ غیر سیاسی تنظیمیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے
لیے محنت کر رہی ہیں ان کو بھی اس کام سے روکا جارہا ہے اور ڈرایا جارہا ہے کہ وہ پہلے کسی سیاسی پارٹی میں
شمولیت کا اعلان کریں اور پھر کام کریں۔اس مشکل وقت میں جہاں ہر ملک کے سیاستدان اور وہاں کی تنظیمیں ایک
ہوکر لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں وہین ہمارے سیاستدان اس میں بھی اپنا الگ ہی نام بنا نے کی کوشش میں ہیں ۔
میری درخواست ہے کہ رحم کریں اور آج کے اس کورونا دور میں ایک ہو کر کراچی کے عوام کا سوچیں جو ہمیشہ
پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر رکھتے ہین۔۔ چاہے وہ کسی بھی شہر،مذہب اور فرقے کا ہو۔
تیری بے رخی میں بھی جاناں۔۔۔
میری بے بسی کا سایا ہے۔۔۔۔
میں تو ایسے ویران ہوا ہوں جیسے۔۔۔
یہ شہر میرا نہیٰ پرایا ہے۔