کبھی کسی نے بڑی سادگی میں پوچھا بتائیں خوف خدا کیا ہوتا ہے؟
جواب ملا، رب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا،کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ، اس پر کاربند رہنا،
یہ بظاہر نہایت آسان بات لگتی ہے،لیکن شاید عمل کرنے میں بہت زیادہ مشکل بلکہ ناممکن، کیونکہ مسلمان کہلا لینا کافی نہیں، اس کے تقاضے پورے کرنا ایک مختلف بات ہے۔
ڈر،خوف کیاہے، یہ سلسلہ بہت قدیم ہے، انسان بچہ ہوتا ہے کیڑے مکوڑے، چیونٹی، بلی، کتےسے ڈرتا ہے، عورتیں اور بعض بڑے بھی چوہے، چھپکلی،سانپ اور دیگر خونخوار جانور سے خوف کھاتے ہیں۔
اسی طرح کمزور طاقتور، زورآور سے، مزدور ٹھیکیدار سے، ملازم آقا سے، شوہر، بیوی ایک دوسرے سے،
بچہ باپ سے، مرد عزیز رشتہ داروں سے،
معاشرہ کیا کہیں گے، لوگ کیا کہیں گے،اس کا خوف بھی الگ سے جان کو لگا رہتا ہے۔
یہ سب انسانی نفسیات کے مختلف اظہار ہیں،جن میں سے اکثر فطری طورپرپائے جاتے ہیں۔
جیسےاندھیرے میں ڈرنا، جان چلے جانے سے گھبرانا، موت کا خوف، یہ بھی ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
لیکن اقتدار، اختیار، دولت چھن جانے کی پریشانی ،نوکری سے فارغ ہونے اور،،
نہ جانے کیا کچھ ہاتھ سے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
انسان درست انداز سے تعین نہیں کرپاتا کہ اسے کون کون سے خوف لاحق ہیں۔ اس سب میں پھر وہی بات خداکاڈر کتنا ہے۔حق اورسچ کی پہچان کیا ہے،کیا غلط اور درست ہے،
کیا محض خوف کے تحت بات ماننے کا مزاج بن گیا ہے۔بعض اوقات مجبوری بھی اسی سوچ کی غمازی کرتی ہے۔
خوف خدا سے زیادہ مولوی اور ڈنڈے کاڈر شاید زیادہ ہے۔
کوئی زبردستی کرکے ڈراتا ہے کوئی مجبور کرکے خوفزدہ کئے رکھتا ہے۔
عوام، اپنے نمائندوں کے دباؤ میں رہتے ہیں، انہیں وردی والوں کا، کبھی کبھی ان دونوں کو دینی حلقے یعنی مُلاوں کا ڈر لاحق ہوتا ہے، کیونکہ وہ مذہب کی آڑ لیکر عوام کو سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔
موجودہ حالات میں جب ساری دنیا ایک ایسی شے کاخوف دامن میں لیے گھروں تک محدودہے، جسے وہ دیکھ بھی نہیں سکتی، محض زندگی کے خاتمے کی حقیقت نے اس خوف پر ایمان لانے پر مجبور کردیا، لیکن پھر بھی بات ماننے کی ہے۔ جنہوں نےتسلیم کرلیا، وہ احتیاط کررہے ہیں۔
کاروباری افراد کی پریشانی کی سمجھ لگتی ہے، دین کی خدمت اورعبادت کی تلقین کرنے والے نہ جانے کیوں سب احتیاطی تدابیر کے مخالف کیوں ہیں۔
دین سب باتوں کی وضاحت کرتاہے مگر خداسےزیادہ مسلمان کو ڈرانے والے شاید محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کا خوف کہیں کم نہ ہوجائے، وہ ہمیشہ کی طرح اپنے دلائل پیش کرکے ایک مناسب تعداد کو گھروں سے نکلنے پر آمادہ کرچکے ہیں۔ جس کے بعد سب طاقتور یامقتدر حلقے بھی ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئے ہیں۔
عبادت بندے اور خالق کا معاملہ ہے، اس نے اپنے بندے پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، اور بے شمار سہولتیں ،نعمتیں عطاکیں۔ پابندیوں کا مقصد بندے کو راستہ بھٹکنے سے روکنا، دوسروں کاخیال رکھنے کی یاددہانی کرانا،اچھے برے کی تفریق کرانا، درست غلط میں فرق کرانا۔
اس سب کو جان لینے کے باوجود من مانی کرنا، اسے نہ ماننا،جس کی اطاعت فرض ہے،
عقل کی مخالفت کرنے -والے اپنی منطق منوانے کےعادی ہیں۔رب کاحکم کیاہے، کسی کو بتانےسےاجتناب کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں مسلمانوں پر طاقتور اور ایسے ڈرادینے والوں کاخوف طاری رہتا ہے۔
طبیب اور علاج کے بجائے پیر اور دم ہی سہارا بن جاتا ہے۔پڑھے لکھے ، ان پڑھ، عاقل، جاہل کی تمیز بھی کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔
یہ ڈر بندے کو بندے کا مالک ،خالق بنابیٹھتا ہے۔ خوف کی چادر خداکاقہر بھلادیتاہے۔
ذہنی حالت اتنی بدل جاتی ہے کہ سامنے موت دکھائی دے کر بھی رب یادنہیں آتا۔
ان لوگوں کیلئے وہی مقولہ ہوتا ہے ،رب قریب یا مکا،
آخر!ہم کس کے خوف کاشکار ہیں۔