Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ممتاز کشمیری راہنما اور ماضی میں خود مختار کشمیر نعرے کے ایک بڑے حامی کا آج یوم وفات ہے۔ وہ 26 اپریل 2016ء کو راول پنڈی کے ایک مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔
امان اللہ خان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن وہ اپنے ایام نوجوانی میں ہی خود مختار کشمیر کی تحریک میں شال ہو گئے۔ وہ تحریک کے قائد مقبول بٹ کے انتہائی باعتماد ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں مقبول بٹ کے بعد انھیں ہی سب سے زیدہ اہمیت حاصل تھی۔
امان اللہ خان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ یہ قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد کی بات ہے جب بھارتی پولیس نے انھیں”باغیانہ” سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بنا کر ایک سرحدی علاقے سے گرفتار کر لیا تھا۔ اپنے عنفوان شباب میں کمیٹی برائے آزادی کشمیر کے نام سے ایک تنظیم سے کیا تھا جو بعد میں نیشنل لبریشن فرنٹ میں ضم ہو گئی جس کے بانی مقبول بٹ تھے۔ اس سے قبل امان اللہ خان نے محاذ برائے رائے شماری قائم کیا تھا جسے بعد میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں بدل دیا گیا۔ امان اللہ خان ان تنظیموں کے بانی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اس حیثیت میں تمام کشمیری حلقوں میں ان کا بے پناہ احترام کیا جاتا تھا۔
امان اللہ خان ابتدا میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کشمیر کی آزادی مسلح جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مقبول بٹ نے ان کے نظریات سے متاثر ہو کر 1966ء میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ قائم کیا تھا جو اس تحریک کا عسکری ونگ تھا۔ اس ونگ کی قیادت مقبول بٹ کو سونپی گئی۔
ممتاز کشمیری راہنما اور ماضی میں خود مختار کشمیر نعرے کے ایک بڑے حامی کا آج یوم وفات ہے۔ وہ 26 اپریل 2016ء کو راول پنڈی کے ایک مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔
امان اللہ خان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن وہ اپنے ایام نوجوانی میں ہی خود مختار کشمیر کی تحریک میں شال ہو گئے۔ وہ تحریک کے قائد مقبول بٹ کے انتہائی باعتماد ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں مقبول بٹ کے بعد انھیں ہی سب سے زیدہ اہمیت حاصل تھی۔
امان اللہ خان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ یہ قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد کی بات ہے جب بھارتی پولیس نے انھیں”باغیانہ” سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بنا کر ایک سرحدی علاقے سے گرفتار کر لیا تھا۔ اپنے عنفوان شباب میں کمیٹی برائے آزادی کشمیر کے نام سے ایک تنظیم سے کیا تھا جو بعد میں نیشنل لبریشن فرنٹ میں ضم ہو گئی جس کے بانی مقبول بٹ تھے۔ اس سے قبل امان اللہ خان نے محاذ برائے رائے شماری قائم کیا تھا جسے بعد میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں بدل دیا گیا۔ امان اللہ خان ان تنظیموں کے بانی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اس حیثیت میں تمام کشمیری حلقوں میں ان کا بے پناہ احترام کیا جاتا تھا۔
امان اللہ خان ابتدا میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کشمیر کی آزادی مسلح جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مقبول بٹ نے ان کے نظریات سے متاثر ہو کر 1966ء میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ قائم کیا تھا جو اس تحریک کا عسکری ونگ تھا۔ اس ونگ کی قیادت مقبول بٹ کو سونپی گئی۔
ممتاز کشمیری راہنما اور ماضی میں خود مختار کشمیر نعرے کے ایک بڑے حامی کا آج یوم وفات ہے۔ وہ 26 اپریل 2016ء کو راول پنڈی کے ایک مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔
امان اللہ خان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن وہ اپنے ایام نوجوانی میں ہی خود مختار کشمیر کی تحریک میں شال ہو گئے۔ وہ تحریک کے قائد مقبول بٹ کے انتہائی باعتماد ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں مقبول بٹ کے بعد انھیں ہی سب سے زیدہ اہمیت حاصل تھی۔
امان اللہ خان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ یہ قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد کی بات ہے جب بھارتی پولیس نے انھیں”باغیانہ” سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بنا کر ایک سرحدی علاقے سے گرفتار کر لیا تھا۔ اپنے عنفوان شباب میں کمیٹی برائے آزادی کشمیر کے نام سے ایک تنظیم سے کیا تھا جو بعد میں نیشنل لبریشن فرنٹ میں ضم ہو گئی جس کے بانی مقبول بٹ تھے۔ اس سے قبل امان اللہ خان نے محاذ برائے رائے شماری قائم کیا تھا جسے بعد میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں بدل دیا گیا۔ امان اللہ خان ان تنظیموں کے بانی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اس حیثیت میں تمام کشمیری حلقوں میں ان کا بے پناہ احترام کیا جاتا تھا۔
امان اللہ خان ابتدا میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کشمیر کی آزادی مسلح جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مقبول بٹ نے ان کے نظریات سے متاثر ہو کر 1966ء میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ قائم کیا تھا جو اس تحریک کا عسکری ونگ تھا۔ اس ونگ کی قیادت مقبول بٹ کو سونپی گئی۔
ممتاز کشمیری راہنما اور ماضی میں خود مختار کشمیر نعرے کے ایک بڑے حامی کا آج یوم وفات ہے۔ وہ 26 اپریل 2016ء کو راول پنڈی کے ایک مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔
امان اللہ خان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن وہ اپنے ایام نوجوانی میں ہی خود مختار کشمیر کی تحریک میں شال ہو گئے۔ وہ تحریک کے قائد مقبول بٹ کے انتہائی باعتماد ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں مقبول بٹ کے بعد انھیں ہی سب سے زیدہ اہمیت حاصل تھی۔
امان اللہ خان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ یہ قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد کی بات ہے جب بھارتی پولیس نے انھیں”باغیانہ” سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بنا کر ایک سرحدی علاقے سے گرفتار کر لیا تھا۔ اپنے عنفوان شباب میں کمیٹی برائے آزادی کشمیر کے نام سے ایک تنظیم سے کیا تھا جو بعد میں نیشنل لبریشن فرنٹ میں ضم ہو گئی جس کے بانی مقبول بٹ تھے۔ اس سے قبل امان اللہ خان نے محاذ برائے رائے شماری قائم کیا تھا جسے بعد میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں بدل دیا گیا۔ امان اللہ خان ان تنظیموں کے بانی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اس حیثیت میں تمام کشمیری حلقوں میں ان کا بے پناہ احترام کیا جاتا تھا۔
امان اللہ خان ابتدا میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کشمیر کی آزادی مسلح جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مقبول بٹ نے ان کے نظریات سے متاثر ہو کر 1966ء میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ قائم کیا تھا جو اس تحریک کا عسکری ونگ تھا۔ اس ونگ کی قیادت مقبول بٹ کو سونپی گئی۔