افغان امریکا امن معاہدہ ایک بار پھر خطرات سے دوچار ہوگیاہے جس پر امریکی صدر اور قطر کے شیخ تمیم نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکا اور افغان طالبان کے مابین طے پانے والے دوحہ امن معاہدے کی چار شرائط تھیں یعنی طالبان افغان سرزمین کو امریکا یا اس کے کسی اتحادی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اتحادی افواج کے پُرامن انخلا کو یقینی بنایا جائے گا۔ 10مارچ تک طالبان تقریباً 5ہزار جبکہ افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے۔ طالبان نے معاہدے کی پاسداری کی تو امریکی اور اس کی اتحادی افواج 14ماہ کے اندر افغانستان سے رخصت ہو جائیں گی۔
اس موقع پر خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ چند ایسی قوتیں جن کا افغانستان کے مختلف گروہوں سے رابطہ ہے، اس معاہدے کے خلاف کسی بھی حد تک جائیں گی، ان پر نظر رکھنا لازمی ہے، لیکن شاید ایسا نہیں کیا گیا اور معاہدے کے فوری بعد افغان صوبے ہلمند میں افغان فورسز پر طالبان کے حملے اور پھر جواب میں ایک امریکی فضائی حملے کے بعد امن معاہدہ ٹوٹتا دکھائی دیا۔
اس پر دونوں طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم افغانستان نے پھر رواں ہفتے طالبان اور حکومتی افواج کے مابین لڑائی کے مناظر دیکھے جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔ اس پر امریکی صدر اور قطر کے امیر شیخ تمیم کی تشویش بجا ہے، دونوں رہنمائوں نے ٹیلیفونک گفتگو میں افغانستان میں قیدیوں کے تبادلے پر گفتگو جاری رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ ان حملوں سے افغان امن عمل خطرات سے دو چار ہو گیا ہے۔ امن مذاکرات میں افغان صدر اشرف غنی فریق نہ تھے، جنہیں مذاکرات کا حصہ بنانا امریکا کی ذمہ داری تھی یا شاید وہ پُراعتماد تھا کہ افغان حکومت اس کی مرضی پر ہی عمل کرے گی لیکن بھول گیا کہ تیسرا فریق افغان حکومت ہے اور طالبان بھی اب اسکے درپے ہیں۔ فریقین کو چاہیے کہ 29فروری کے مذاکرات کو بنیاد بنا کر ان قباحتوں کو دور کریں جو امن کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ معاملہ انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے جس میں ذرہ بھر کوتاہی طویل دردِ سر کا باعث بن سکتی ہے۔