
عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تونجیب ھارون عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے، وہ عمران خان کے مشکل ترین وقت کے ساتھی ھیں۔وہ پی ٹی آئی کے چھ بنیادی ارکان میں سے ھیں۔ان کاشمارپاکستان کی چندبڑی کاروباری شخصیات میں ھوتاھےاوروہ بڑےٹیکس گزاروں میں سے ھیں۔نجیب ھارون 2018کاالیکشن لڑنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن عمران خان کے اصرار پر انہوں نے اپنی جیب سے 60کروڑروپے خرچ کےانتخابی اخراجات کرکے الیکشن لڑااورایم کیوایم کوبھاری اکثریت سے شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ھوگیے۔ان کاحلقہ انتخاب نارتھ ناظم آباد اورگردونواح کاعلاقہ ھے جوکراچی کوانتہائی اھمیت کاحامل حلقہ ھے۔منتخب ھونے کے بعد انہوں نے تنخواہ اور دیگ مراعات نہ لینے کااعلان کیاتھا۔نجیب ھارون نے اپنے استعفیٰ کی وجہ بظاھرحلقےمیں ترقیاتی کاموں کانہ ھونابتاھےاورکہاھے کہ جس کراچی نے انہیں منتخب کیاوہ بیس ماہ میں اس کےلئے کچھ نہ کرسکے۔انہوں نے خود کو فیصلہ سازی میں مسلسل نظر انداز کیے جانے کاشکوہ بھی کیا ھے۔الیکشن کے بعد نجیب ھارون کوجو انجینیر ھیں، بڑی توقعات اس لیے بھی تھیں کہ وہ عمران خان کے قریب تھے اور ان کے اصرار پرالکشن میں حصہ لیا تھا، وہ اپنے تئیں سمجھتے تھے کہ وہ عمران کی ٹیم کااھم حصہ ھوں گے لیکن حکومت سازی کے مرحلے میں وہ پی ٹی آئی کے دیگر بہت سے نظریاتی کارکنوں کی طرح نظرانداز کردیے گئے، ظاھر ھے پی ٹی آئی کو40%حصہ ملناتھا۔لہذانجیب ھارون صاحب کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔وزارتیں باھر سے آنے والوں یایوں کہیے پرچی پرآنے والوں میں بانٹ دی گئیں ۔نجیب ھارون کوامید تھی کہ کسی اچھی سی وزارت کاتاج ان کے سر سجے گااوراس کااظہاربعض مواقع پر انہوں نے کیا بھی تھا لیکن الکشن کے بعدپی ٹی آئی کی دنیا ھی بدل گئی اور نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ھونے والے سلوک کی زدمیں نجیب ھارون بھی آگئے اورعمران خان گویانجیب ھاروں کوبھول ھی گئےجس کاگہ انہوں نے نظرانداز کیے جانے کاکیاھے۔
یہ بھی خیال ھے کہ نجیب ھارون کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رھا تھا تو انہوں نے خان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ھے۔استعفیٰ کے بعدخاصی ھلچل مچی ھےاورعمران خان نےنجیب ھارون کومنانے کاٹاسک گورنرسندھ عمران اسمعیل کودےدیاھے۔گورنر کاکہناھے کہ نجیب ھارون کوھرصورت پر منایاجائے گا ۔گویالگتایہی ھےکہنجیب ھارون اپنی خواھش کے مطابق کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے چاھے وہ عمران خان کی توجہ ھی کیوں نہ ھو۔مجموعی طورپراگرپی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو صفر ھے۔
کراچی میں ان وبائی دنوں میں بھی کوئی نظرنہیں آرھاسوائے عالمگیر خان کے، وہ بھی فکس اٹ کےسربراہ کی حیثیت سے اپنے حلقے میں خود ٹریکٹر چلا کر اسپرے کرتے پھر رھے ھیں اورراشن کی تقسیم بھی کررھے ھیں لیکن اورکوئی کہیں نظر نہیں آیا۔نوجوانوں نے پلے کارڈ بنواکراپنے منتخب نمائندوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود، ابھی تک ان کاکہیں سراغ نہیں ملا۔نجیب ھارون کاشکوہ بجا ھےکہ انہیں فنڈ اوراختیارت میسرنہیں جس کے باعث 20ماہ میں کچھ نہیں کرسکےاورحلقے میں شرمندگی کا سامناھے، اگران کی یہ بات مان لیں توبڑی بات کہ انہیں کم ازکم شرم محسوس ھوئی اورانہوں نے استعفیٰ دے دیا۔دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتاھے۔ لگتایہی ھےکہ وہ مان جائیں گے کیونکہ انہوں نے استعفیٰ کے بعد کوئی شورشرابانہیں کیااوردروازے کھلے رکھے ھوئے ھیں گوکہ اہوزیشن نے آگ بھڑکانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی بیان بازی نہیں کی اور اختلافات کوھوانہ دے کر راستے کھلے رکھیں جس سے اندازا ھوتا ھے کہ وہ مان جائیں گے، دیکھنایہ ھے کہ انہیں بدلے میں ملتا کیا ھے۔