شرف النساء بیگم کا مقبرہ “سرو والے مقبرے” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے. یہ
مقبرہ بیگم پورہ لاہور میں شالا مار باغ کے قریب ہی واقع ہے.شرف النساء بیگم کے حالات زندگی کے متعلق کوئی خاص معلومات موجود نہیں. بلکہ جو کوائف ملتے بھی ہیں, ان میں بے حد تضاد ہے. کہنیالال, نور احمد چشتی, محمد ولی خان, ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ, ایاز محمود و پروفیسر اسلم صاحب کا کہنا ہے کہ شرف النساء بیگم خان بہادر زکریا خان بن عبدالصمد خان کی حقیقی ہمشیرہ ہیں. مزار پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے لگائی گئی تختی پر بھی یہی درج ہے. جبکہ سید محمد لطیف کے مطابق وہ ان کی منہ بولی بہن ہیں. چوہدری محمد حسین صاحب نے نیرنگ خیال اقبال نمبر میں اپنے مضمون میں دعوی کیا ہے کہ شرف النساء زکریا خان کی بیٹی اور عبد الصمد کی پوتی ہیں. ایم آر شاہد صاحب نے تو روایات میں تطبیق پیدا کرتے ہوئے کمال ہی کردیا ہے. وہ فرماتے ہیں کہ عبدالصمد عرف زکریا خان یعنی یہ دونوں نام ایک شخص کے ہیں اور پھر شرف النساء بیگم زکریا خان کی دوسری بیوی ہیں. ایسا ہی ایک عمدہ نکتہ ڈاکٹر محمد ریاض نے بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں “شرف النساء بیگم خان بہادر کی بیٹی اور نواب ذکریا کی بہن تھیں. ان کے دادا نواب عبدالصمد خان تھے.” ویسے تو خان بہادر زکریا خان کا ہی خطاب ہے, لیکن ڈاکٹر صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ خان بہادر اور زکریا خان دو الگ الگ افراد ہیں.
ویسے کوئی رشتہ ہمارے محققین نے چھوڑا تو نہیں, خیر معاملہ یہ ہے کہ عبدالصمد خان و زکریا خان باپ بیٹا ہیں اور یہ دونوں ہی لاہور کے معروف حاکم گزرے ہیں. ان دونوں کے مفصل حالات صمصام الدولہ نے تحریر کیے ہیں. ان دونوں کا ہی ذکر بندہ بیراگی کی بغاوت فرو کرنے کے حوالے سے مغلیہ عہد کی کتب میں بھی مل جاتا ہے. زکریا خان اپنے انصاف کے لیے بھی بے حد معروف ہے. (بحوالہ پروفیسر شجاع الدین) صاحب عماد السعادت, غلام علی نقوی فرماتے ہیں “ان کے انصاف کے سامنے نوشیرواں کا عدل و انصاف فسانہ بے اصل معلوم ہوتا ہے.” شرف النساء عبدالصمد خان کی بیٹی نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کے صرف دو بیٹوں کا ہی تاریخ میں ذکر ہے زکریا خان اور عبداللہ خان, ان کی کوئی بیٹی نہ تھی. جبکہ عبداللہ خان کی بھی اولاد کا ذکر نہیں ملتا لیکن زکریا خان کے تین بیٹے تھے. مگر اس کی بھی کوئی بیٹی نہ تھی. صاحب امآکن لاہور نے “اسرار صدی” کے ایک بیان سے یہ ثابت کیا ہے کہ عبدالصمد خان کثیر الازواج تھے. سہہ مورخین لاہور کے مطابق بیگم پورہ کا نام بھی عبدالصمد کی بیوی بیگم جان کے نام پر ہے. زکریا خان انہی کا بیٹا ہے. عبدالصمد کی ایک اور اہلیہ شرف النسا ہیں یہ عبداللہ خان کی والدہ ہیں. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی, محمد دین کلیم, ڈاکٹر انجم رحمانی,راو جاوید اقبال و مدثر بشیر صاحب نے بھی اسی روایت کو درست جانا ہے کہ شرف النساء عبد الصمد کی زوجہ اور زکریا خان کی سوتیلی والدہ ہیں. محمد دین فوق نے علماء لاہور میں کہنیالال کی بات کی تائید کی ہے جبکہ نقوش لاہور نمبر میں انہوں نے تفصیلی بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے. سید فیضان نقوی صاحب کا کہنا ہے کہ بیگم جان و شرف النساء ایک ہی خاتون ہیں, لیکن ان کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا.
شرف النساء بیگم کے حوالے سے زیادہ تر نے یہی بتایا ہے کہ وہ نہایت پاکباز خاتوں تھیں. بیگم پورہ کا علاقہ انہی کے خاندان کا بسایا ہوا ہے. اس زمانے میں یہ علاقہ اتنا متمول تھا کہ ایک حملے میں احمد شاہ درانی کو یہاں سے اس قدر مال حاصل کہ وہ لاہور میں دیگر بستیوں کی جانب بڑھا ہی نہیں. شرف النساء کے بابت معروف ہے کہ اس نے ایک چبوترہ تعمیر کروایا جو کہ بے زینہ تھا. وہ یہاں روزانہ آتی اور لکڑی کی سیڑھی سے اوپر تک پہنچتی, یہاں وہ قرآن مجید کا تنہائی میں مطالعہ کرتی. کہتے ہیں کہ قرآن حکیم کے ساتھ وہ ایک مرصع تلوار بھی ہمراہ رکھتی. بقول ڈاکٹر خواجہ عابد یزدانی صاحب “قرآن مجید اور شمشیر سے اس کی محبت کا یہ حال تھا کہ ان دونوں چیزوں کو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی. خود بھی شمشیر زنی میں پوری مہارت رکھتی تھی, اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت کرتی تھی کہ وہ قرآن اور تلوار سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنائیں کیونکہ یہی دو چیزیں ہیں جو مسلمانوں کی عزت و ناموس اور دین و وطن کی محافظ ہیں.” یعنی شرف النساء کا کہنا تھا کہ یہی دو چیزیں مسلمانوں کے لیے باعث نجات ہیں. کہتے ہیں کہ وہ تا عمر تارک الدنیا رہی اور جب آخری وقت قریب آیا تو اپنی والدہ کو وصیت کی کہ اُسے اس کے قرآن مجید اور تلوار کے ساتھ اسی چبوترے پر دفن کردیا جائے. تاکہ اس کی قبر پر کسی غیر مرد کی نظر بھی نہ پڑے. اور اس کی وصیت کے مطابق یہی چبوترہ اس کا جائے مدفن بنا.
شرف النساء کی سوانح دلچسپ بھی ہے اور پرسرار بھی. گوشہ نشنی میں مرصع شمشیر کے ہمراہ مطالعے کی کیا حکمت تھی, یہ تو وہی جانے. البتہ اس مقبرے کی ایک اور خاصیت اس پر بنے ہوئے سرو کے درخت ہیں. اگر ماضی کی بات کی جائے تو صاحب تحقیقات چشتی نے اس جگہ کا تذکرہ کیا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ یہاں ایک کشادہ حوض اور بارہ دری بھی ہوتی تھی. سید لطیف کے بقول یہاں باغ بھی تھا, ممکن ہے اس میں سرو کے درخت بھی ہوں. خیر سکھ عہد حکومت میں لاہور کی دیگر قیمتی عمارات کی طرح اس مقبرے کو بھی, حرص طمع و لالچ نے برباد کر دیا. خرانے کی تمنا میں مقبرے کو نوچ ڈالا گیا اور شمشیر و قرآن حکیم کو چوری کر لیا گیا. مقبرے پر موجود نقش و نگار کو بھی حسب توفیق نقصان پہنچایا گیا. مقبرے پر کانسی کا کام کیا گیا تھا. مقبرے پر بنائے گے سرو کے درخت اب تک موجود ہیں. سرو ویسے تو ہمیشگی کا استعارہ ہے. اب ناجانے ان کا مقصد فقط آرائش ہے یا کچھ اور. مقبرے پر موجود ان سرو کے درختوں کے باعث یہ مقبرہ سرو والے مقبرے کے نام سے معروف ہے. ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب نے یہاں موجود سرو کے درختوں کے حوالے سے درج ذیل قصہ بھی درج کیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ شرف النساء کے والد نے اس پوچھا کہ اس کو اس جہاں میں سب سے زیادہ کیا پسند ہے تو اس نے کہا “سرو”. اسی نام کا ایک خادم بھی شرف النساء بیگم کے پاس تھا. باپ نے سمجھا کہ بیٹی نے اس سے محبت کا اظہار کیا ہے اس پر وہ طیش میں آ گیا اور شرف النساء کو زندہ دفنا دیا. بعدازاں حقیقت معلوم ہونے پر نادم ہوا اور یہ مقبرہ تعمیر کروا کر یہاں سرو کے درخت بنوا دیے. پروفیسر محمد اسلم صاحب نے بھی نقوش (شمارہ ١٣۸) میں اپنے ایک مضمون میں کچھ ترمیم کے ساتھ یہی قصہ بیان کیا ہے. اس کہانی میں سرو مالی کا نام ہے اور باپ نے شرف النساء کو دیوار میں چنوا دیا تھا. دونوں ہی لکھاریوں کے مطابق اس قصے کی کوئی اصل نہیں. راقم کے نزدیک بھی سرو کے درختوں کی موجودگی کی یہ تاویل بے بنیاد اور لایعنی ہے. تعجب کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر انجم صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس قصے کا ماخذ ڈاکٹر چغتائی کی کتاب امآکن لاہور بتایا ہے, جبکہ ان کا یہی مقالہ کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ آکسفورڈ نے بھی شائع کیا ہے. اس میں انہوں اس واقعہ کے حوالے میں کہنیالال کا نام لکھا ہے. جبکہ دونوں ہی کتب میں یہ بے سرو پا افسانہ موجود ہی نہیں.
اس مقبرے کی زیارت کچھ عرصہ قبل قاضی محمد اعظم صاحب کے ہمراہ کی. مقبرہ اب تو جدید گھروں میں دب چکا ہے. محکمہ ریونیو کے ریکارڈ کے مطابق مقبرے کا رقبہ تقریباً ایک کنال تین مرلے ہے. ویسے تو حال ہی میں اس کی مرمت و حفاظتی جنگلے کا اہتمام کیا گیا ہے. لیکن یہاں رہائش پذیر لوگوں کو مقبرے سے کوئی دلچسپی نہیں. یہاں کوڑا بھی پھینکا جاتا ہے اور بچے کرکٹ بھی کھیلتے ہیں. مقبرے کے گنبد پر غور کریں تو ” اللہ باقی کل فانی” لکھا نظر آتا ہے. شنید ہے کہ اس کا کوئی چوکیدار بھی ہے, خیر وہ ہمیں تو نہ ملا اس لیے جنگلہ پھیلانگ کر ہی اندر جانا پڑا. باوجود تمنا و کوشش کے قبر کی زیارت نہ کر سکے. اب بھی قبر تک جانے کا سیڑھی کے سوا کوئی رستہ نہیں. اور سیڑھی ہمیں کہیں دستیاب نہ ہوئی. یہ مقبرہ لاہور میں مغل عہد کی آخری یادگاروں میں سے ایک ہے. پھر اس کا طرز تعمیر منفرد ہے. میں نے لاہور میں اب تک ایسا چوکور مینار نما مقبرہ نہیں دیکھا. البتہ میاں میر کے مقبرے اور اس مقبرے کے گنبد میں کچھ مماثلت ضرور ہے. محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں تختی تو لگا رکھی ہے مگر اس پر موجود معلومات میں نقائص ہیں, جس کو درست کرنا چاہیے. علامہ محمد اقبال نے بھی شرف النساء کو موضوع سخن بنایا ہے. انہوں نے جاوید نامہ میں قصر شرف النساء کے عنوان سے نظم لکھی ہے. اقبال پیر رومی سے پوچھتے ہیں کہ یہ جنت میں پہلا محل کس کا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ اس پاکباز خاتون کا محل جس کا کوئی ثانی نہیں اور اس کے مرقد کے باعث لاہور کی سر زمین آسمان کے ہم پلہ ہو گئی ہے. علامہ نے شرف النساء کی قرآن دوستی اور اس کے اخلاق و کردار کی بھی بات کی ہے. علامہ نے خود بھی غلط فہمی کی بناء پر شرف النساء کو دختر عبدالصمد لکھ دیا ہے اور شارخین کلام اقبال نے بھی تحقیق کی زخمت نہیں کی. ناجانے کیوں ہمارے لکھاری معاملات کو اس قدر الجھا دیتے ہیں کہ کہیں کسی کو صحیح بات نہ معلوم ہو جائے. محکمہ آثار قدیمہ سے گزراش ہے کہ ایک تو اس مقبرے کے حوالے سے سڑک پر رہنمائی کی تختی لگائیں اور دوسرا مقبرہ پر شرف النساء کے درست کوائف درج کریں. شرف النساء کا مقبرہ اپنی پرسراریت اور جداگانہ طرز تعمیر کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے. شرف النساء کا قرآن و شمشیر سے عشق بھی حیرت انگیز ہے. احباب گرامی قدر سے گزارش ہے کہ فرصت ملے تو بچوں کے ہمراہ اس دلچسپ مقبرے کی زیارت کو ضرور جائیں.